کُتا بھونکا اور زندگی بدک گئی……
زندگی اپنے کھلونوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اُس نے اپنے کھلونے اپنے ارد گرد پھیلا کے رکھے تھے۔ کھلونے وہیں چھوڑ کر وہ بھاگ کھڑی ہوئی۔ کُتا اب لگاتار بھونکنے لگا۔ یہ بھونک روز مرہ کی بھونک سے کچھ ہٹ کر تھی۔ اس میں فکر، خوف اور غصہ شامل تھا۔ خوف زدہ زندگی نے سب کی طرف ایک نظر دوڑائی، تھوڑی دیر رُکی، سوچا اور پھر لپک کر باپ کی گود میں بیٹھ گئی۔
ایسا اکثر تب ہوتا ہے جب کسی جنگلی جانور کی بُوپا کر بستی کے کُتے بھونکنے لگتے ہیں۔ یہ جنگلی جانور خوراک کی تلاش میں انسانوں کی بستی کا رُخ مجبوری میں ہی کرتے ہیں۔ کُتے جہاں خود چوکنا ہوجاتے ہیں وہیں بستی کے لوگوں، یعنی اپنے مالکوں، کو بھی خبردار کردیتے ہیں۔ اُس وقت اُن پر خطرہ بھی منڈلاتا رہاہے۔ کبھی کبھی اُن کی جان بھی چلی جاتی ہے لیکن اپنے فرض سے منہ نہیں موڑتے۔ وفاداری کی نظیر ہیں یہ کُتے۔ نان کے دو ٹکروں کی خاطر نہ دِن کا چین ہے اور نہ رات کا آرام۔ بستی کے لوگوں کا بھی یہی کہنا ہے۔
’’پاپا کُتا کیوں بھوک رہا ہے؟‘‘
زندگی نے باپ کی گود میں دُبک کر پوچھا۔ اب خود کو محفوظ سمجھ رہی تھی لیکن باہر کے حالات سے بھی بے فکر نہیں تھی۔
’’بلی کو دیکھا ہوگا، ڈرو مت!‘‘
’’پاپا نہیں ریچھنی ہوگی!‘‘
’’ریچھنی تو اُس دن مار ڈالی گئی تھی ، تمہیں نہیں معلوم؟‘‘
زندگی کچھ نہ بولی…ٹُکرٹُکر دیکھتی رہی۔
اُس کو باپ کی کہی بات پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اندر ہی اندر سوچنے لگی۔
جب سے ’’ریچھنی (براہنی) نے مویشیوں سے بھرے مویشی خانہ سے چھ مہینے کا نرم و نازک بچھڑا اُٹھا لیا تھا زندگی تب سے کتوں کے بھونکنے پر ڈر جاتی تھی۔ اُس دن بھی کُتا اسی شدت سے بھونکاتھا۔ پھر بعد میں جو کچھ ہوا وہ سب زندگی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ لوگ بڑے بڑے ڈنڈے، لاٹھیاں، کلہاڑیاں، نیزے اور بھالے اُٹھا کر پیچھے دوڑے تھے۔ ریچھنی تھی کہ ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ ہاں، لہو لہان بچھڑے کو گھسیٹنے کی بجائے کندھے پر دھر لیا تھا اور دو ٹانگوں پر لمبے لمبے ڈگ بھرنے لگی تھی۔ دائیں بائیں جھومتی ہوئی۔ مزاحمت کررہے لوگ جیسے کیڑے مکوڑے تھے اُس سامنے اور بچھڑے کو نوچ کھانا اُس کا حق…
زندگی کو اُس دن باپ کے ہاتھوں جھٹکایا مُرغا بھی یاد آیا، جو بنا سر کے تڑپ رہا تھا اور شہ رگ سے ’’ہو ہو‘ کی آواز کیساتھ خون کے بُلبلے اُٹھ رہے تھے۔ زندگی کے خیال میں بچھڑے کا حشر بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے ریچھنی بچھڑے کو لے کر بہت دور چلی گئی۔ جس نے بھی بچھڑے کو چُھڑانے کی کوشش کی اُس کو دانت دکھا کر، غُرا کر بھگا دیا۔ ڈر کے مارے باقی مویشی پگے تڑا کر بھاگ گئے۔
گائے بچھڑے کی جُدائی اور صدمے میں پاگل سی ہوگئی۔ بنا کچھ کھائے مارے مارے پھرتی دھرتی کو سونگھتی ہوئی اُسے ڈونڈتی پھر رہی تھی۔ ۔ زندگی کو بھی بچھڑا بہت عزیز تھا۔ تھوتھنی اُٹھائے دوڑے دوڑے آتا، سونگھتا، چاٹتا اور زندگی بھی اُس کو اپنی بانہوں میں لے کر چومتی تھی۔ مخمل جیسے نرم گرم بالوں پہ اپنے رُخسار رکھتی اور محفوظ ہوتی۔
’’پاپا ریچھنی نے بچھڑا ہی کیوں اُٹھالیا؟‘‘
زندگی کے اندر سے ایک ہُوک اُٹھی اور پوچھا۔
’’چھوٹا تھا نا‘‘، باپ نے زندگی کی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’کمزور!‘‘
’’باقی؟‘‘
’’بڑے تھے…طاقت والے…‘‘
زندگی نے بھی ’’پاپا‘‘ کی طرف دیکھا اور آنکھیں موندلیں۔ کسی سوچ میں ڈوب گئی۔
کچھ دیر کے بعد پھر بولی:
’’وہ ہمارے گھر کے اندر بھی تو آسکتی تھی؟ اور مجھے …؟‘‘
’’نہیں بیٹی! اُس کے اندر آنے کی مجال نہیں!‘‘ باپ نے فخر سے کہا۔
’’دوسرے بڑے جانور بھی نہیں جو اِس سے بھی زیادہ طاقتور ہیں‘‘۔
’’کوئی بھی نہیں؟‘‘زندگی کو یقین نہیں آرہا تھا۔
’’جسم کی طاقت سے عقل کی طاقت بڑی ہوتی ہے…آدمی سے کوئی بھی جانور بازی نہیں لے سکتا!‘‘
’’ٹھیک ہے… پھر چیتا پچھلے سال اُس عورت کو کیوں کھا گیا؟‘‘
زندگی کو باپ کی یہ دلیل ہضم نہیں ہوئی، اس لئے تکرار جاری رکھی۔
’’وہ گھر میں نہیں تھی۔ باڑی سے اکیلے سبزی لینے گئی تھی…چیتا باڑی میں سویا تھا… ڈِسٹرب ہوا… غصے میں آگیا اور جھپٹ پڑا۔‘‘
’’اچھا… وہ جنگل سے کیوں آیا باڑی میں سونے کیلئے؟‘‘
’’زندگی بس! اب تو میرا سر مت کھا۔ جااپنا کام کر……‘‘
شاید باپ کے پاس زندگی کے سوال کا جواب ہی نہیں تھا یا اب وہ اُوب گیا تھا۔
زندگی کو باپ کا یہ سلوک بھایا نہیں…وہ ناراض ہوکر، آنکھیں ملتی ہوئی ماں کے پاس چلی گئی۔ ماں نے پچکارا دُلارا اور پوچھے گئے سوال کا جواب بھی دیا:
’’پتہ ہے چیتا جنگل چھوڑ کر بستی یا باڑی میں کیوں آیا؟ کیونکہ آدمی نے جنگل سے بہت سارے پیڑ پودے کاٹ ڈالے ہیں۔ چیتے، ریچھ اور دوسرے کئی جانوروں کے گھر برباد کردیئے ہیں۔ اِن کا کھانا بھی جنگل سے ختم ہوگیا ہے اور اِن جنگلی جانوروں کا انسانی بستیوں یا باغوں ، باڑیوںکی طرف رُخ کرنا قدرتی عمل ہے… لگ گیا پتا؟‘‘
اب باہر بہت سارے کتے اکٹھے ہوگئے تھے اور ایک ساتھ بھونک رہے تھے۔ شور اور بھی بڑھ گیا۔ رات کے سناٹے میں شور اور بھی خوفناک لگتا ہے۔ زندگی کا دھیان باہر کی طرف چلا گیا تھا۔ پتا نہیں اُس کو کیا سوجھی کہ ماں کی گود سے اُتری اور پھر باپ کی گود میں جابیٹھی۔ باپ نے اب غصہ تھوک دیا تھا۔ اُس نے زندگی کا سر اپنے سینے پر رکھ دیا اور اُنگلیاں بالوں میں ڈال کر سہلانے لگا۔ زندگی کو بھی باپ کی چوڑی چھاتی پہ سکون سا مل رہا تھا۔ دھڑکتے دِل کی آواز سن کر اچانک بول اُٹھی۔
’’پاپا کا دِل کتا بڑا ہے!‘‘
باپ سُن کر مسکرایا…ماں بھی چپ نہ رہ سکی… اس کو بھی مذاق سوجھا۔
’’بڑے دل والے بہادر ہوتے ہیں‘‘
زندگی نے باپ کو مسکراتے ہوئے دیکھا تو دوبارہ پوچھنے پر تُل گئی۔
’’پاپا آپ بہادر ہیں؟‘‘
’’ہاں بیٹی میں بہادر ہوں!‘‘
’’آپ چیتے کو مار سکو گے؟‘‘
’’مار دو ںگا!‘‘
’’کیسے‘‘
’’جس طرح مرغی کو مارا تھا اُس دن‘‘
’’چھی چھی! گندے پاپا…!!!‘‘
کتے دیوار پھلانگ کر اندر آگئے۔ زندگی خاموش ہوگئی۔ کچھ دیر کے بعد باپ کی چھاتی سے سر اُٹھایا اور سولینے لگی۔
’’پاپا ریچھنی!‘‘
’’میں نے کہا نا رایچھنی مار ڈالی‘‘
’’وہ تو بچھڑا لے کر بھاگ گئی تھی!‘‘
’’دوسرے ہی دِن مار ڈالا تھا اُسکو‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’عقل کی طاقت کے ساتھ‘‘
باپ اپنے آپ کو عقلمنداور طاقتور ثابت کرنا چاہتا تھا۔ زندگی کو ’’ریچھنی‘‘ کے مارے جانے کا کوئی علم نہیں تھا۔ باپ نے زندگی کے شک کو دور کرنے کیلئے تفصیلاً کہا:
’’…پہلے دِن جتنا گوشت کھانا تھا کھالیا‘‘
’’بچھڑے کا؟’’
’’ہاں بچھڑے کا…باقی جو بچا اُس کو گھاس کے نیچے چُھپا کر رکھ دیا…‘‘
’’بچوں کو نہیں کھلایا؟‘‘
زندگی غور سے سُن رہی تھی اور بیچ بیچ میں بات کاٹ کر بھی پوچھ لیتی۔
’’ہاں، کھلایا…‘‘ باپ بھی ٹھسکے سے جواب دیتا۔ ’’ماں جو تھی…تمہیں مما نہیں کھلاتی ؟‘‘
زندگی نے ہاں میں سر ہلایا پر بے دلی سے۔ باپ پھر گویا ہوا۔
پھر بچے لیکر ریچھنی کہیں دور چلی گئی۔ میں نے بچھڑے کا آدھا کھایا ہوا جسم دیکھا۔ گھاس پھوس کے تنکوں کے نیچے چُھپا کر رکھا ہوا تھا۔ دوسرے دن کیلئے۔
خوبصورت تھوتھنی ابھی جوں کی توں تھی، پیاری پیاری ننھی سی۔ مجھے بہت دُکھ ہوا۔ جیسے کھولتا ہوا تیل جگر پر گرا۔ ریچھنی پر بہت غصہ آیا۔ اُس کو مارنے پر تلا۔ بندوق تو تھی نہیں اور نہ ہی کوئی اور ہتھیار۔ ایک ترکیب سوجھی… باقی بچے گوشت کے ساتھ زہر ملا دیا اور اُسی طرح رکھ دیاجیسے ریچھنی نے رکھا تھا۔ گھاس پھوس کے نیچے۔ دوسرے دن ریچھنی آئی، گوشت کھایا اور وہیںچِت ہوگئی‘‘ ہوئی نا آدمی کی عقل کی طاقت ؟‘‘
زندگی نے ایک لمبی سانس بھری اور پوچھا
’’ریچھنی کے بچے ریچھنی کا انتظار کرتے رہے ہونگے؟‘‘
’’ہاں، وہ بھی مر گئے ہونگے بھوکھے پیاسے ماں کا انتظار کرتے کرتے…‘‘
باپ نے فخر سے کہا اور ایک قہقہہ لگایا۔ زندگی نے باپ کے کھلے منہ کی طرف دیکھا۔ اُس کولگا جیسے چیتے نے نوکیلے دانتوں والا منہ زندگی کو کھانے کیلئے کھولا ہو۔ وہ باپ کی گود سے کود کر ماں کی طرف بھاگ کھڑی ہوئی۔
رابطہ: 9858433957