زندگی ہر قدم اِک نئی جنگ ہے!

Mir Ajaz
10 Min Read

 سید مصطفیٰ احمد

پیارے طلباء! امید ہے کہ آپ بخیر و عافیت ہونگے۔ اللہ آپ سب کو اپنے امان میںرکھیںاورآپ اپنے والدین ،اساتذہ ،معاشرہ اور قوم کے لئے خوشی اور حرمت کے ضامن بنیں۔ بے شک آپ ہی سے اس دنیائے چمن کی رونق باقی ہیںاور آپ ہی تو ہرکسی ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ میرے اس مضمون کا تعلق محض طلباء سے ہی ہے ،خصوصاً اُن طلباء سے، جو اوَّل سے لے کر بارویں جماعت تک زیرِ تعلیم ہیں ۔ میری زیادہ توجہ اُن طلباء پر مرکوزہو گی جو مارچ اور اپریل میں اپنے سالانہ امتحانات میں شامل ہونے جارہے ہیں۔ میں جوکچھ مختصر گزارشات کرنے جارہا ہوں جو میرے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔بے شک یہ گزارشات حتمی نہیں ، اِن سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن مقصد صرف اپنی بات کو آپ تک پہچانا ہے اِس اُمید کے ساتھ کہ آج تک تعلیم کے نام پر ہمار جتنا بھی نقصان ہوا ہے، وہ پھر سے نہ ہو۔ ہمارےبیشتر طلباءابھی تک پڑھائی کے نام پر ذہنی کوفتوں کا شکار رہے ۔ اُنہیںہر دَم پڑھائی کا خوف دامن گیر رہا کرتا تھا۔ ہر پَل یہ ڈر رہتا تھا کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔ اگر فیل ہوئےتو گھر اور سماج کو کون سامنہ دکھائیں گے۔ لیکن جب سے وزیر اعظم نریندر مودی جی نے 2020 میں نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا ہے، تب سے حالات صحیح سمت کی طرف مُڑنے لگے ہیں۔ اسی اعلان کے تناظر میں کچھ باتیں طلباء کے سامنے رکھنے جارہا ہوں۔ سب جانتے ہیںکہ اس پالیسی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ تعلیم کوایک بوجھ نہیں بلکہ عبادت سمجھ کرحاصل کیا جائے اور اس میں ڈر اور بے چینی کہیں سے بھی دَر نہ آ ئے۔
میری پہلی گزارش ہے کہ پڑھائی کو اپنا کھویا ہوا وقار واپس دلایا جائے۔ جو طلباء بورڈ کے امتحانات کے لیے تیاری کر رہے ہیں اور جو طلباء پرائمری جماعتوں میں زیرِ تعلیم ہیں، اُن سے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنی پڑھائی پر پورا دھیان دینے کے علاوہ تعلیم کے ساتھ اپنی وفاداری بخوبی دکھائیں۔ تعلیم کا حق ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ بورڈ کے امتحانات میں شمولیت اختیار کرنے والے طلباء کو ہر گزرتے دن کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہر قسم کی distractions سے دور رہنا چاہیے۔ موبائل فونس کا اُتنا ہی استعمال کرنا چاہیے جتنا مناسب ہو۔ موبائل فونس کا زیادہ استعمال تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں جو سب سے زیادہ ضروری بات ہے وہ یہ کہ تعلیم کو حساسیت کے ساتھ حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے رہیں۔ اس کو مزاحیہ انداز میں لینے سے اجتناب کریں، یہ آپ کی زندگی کا کُل سرمایہ ہے۔ اس سرمایہ کو عزت کی نگاہوں سے دیکھنا اور قدر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دوسری گزارش ہے علم کے حقیقی مقاصد کے لیے تعلیم حاصل کرنا۔ تعلیم کا بنیادی مقصد ہے کہ ایک طالب علم کی حقیقی نشوونما ہو۔ اگر ایک طالب علم کی all-round development نہیں ہوپاتی ہے، تو یہ ناقص نظامِ تعلیم ہے۔ اس میں معلم سے لے کر شاگرد نمایاں خامیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ ضروری بن جاتا ہے کہ ایک طالب علم کی اصلی نشوونما ہوسکے، کسی بھی خامی کو حصول تعلیم کے دوران دَر آنے دیا جائے۔ تیسری ہے وقت کی قدر کرنا سیکھیں۔ وقت سب سے بڑی دولت ہے، جو وقت کی قدر نہیں کرتا ہے، وقت اُس کے لئے مصیبتوں کے پہاڑ کھڑا کر دیتاہے۔ اصل میں وقت کا ضیاع کرنے سے ایک طالب علم خود ہی مصیبتوں کو دعوت دیتا ہے اور پھر اپنی بے بسی کا رونا روتا ہے۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ طلباء اپنے وقت کا صحیح استعمال کریں۔ co-curricular activities میں شریک ہونا ایک صحت مند دماغ کی نشانی ہے۔ لیکن صرف کھیلوں کے پیچھے پڑے رہنا دانائی کا عمل نہیں ہے۔ ہاں! اگر کوئی طالب علم کھیلوں میں ہی اپنا کیریئر بنانا چاہتا ہے تو اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ اس میں بھی اچھے خاصے پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔ اس کے برعکس تعلیم کو ایک طرف چھوڑ کر صرف کھیلوں میں اپنا سارا وقت صرف کرنا بے وقوفی کی انتہا ہے۔ امتحانات اور عام حالات میں بھی اپنے دماغ کو de-stress کرنا ضروری ہے۔ کھلی فضا میں سانس لینا، نرم موسیقی سننا، اپنے دوستوں کے ساتھ باتیں کرنا بھی پڑھائی میں بڑی کارآمد چیزیں ہیں۔ لیکن سال بھر فضول کاموں میں عام طور پر اور امتحانات کے دنوں میں وقت کا ضیاع کرنا اپنے آپ کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ چوتھی اور آخری گزارش یہ ہے کہ پڑھائی کے اِن برسوں کو یادگار بنائیں ۔ ایک طالب علم کو چاہیے کہ وہ ان پڑھائی کے برسوں کو عمر بھر کے لیے یادگار بنائیں۔ کچھ سال کے بعد جب ایک طالب علم پیچھے مڑ کر دیکھے تو وہ ایک ملائم سی ہنسی کو اپنے اندر محسوس کرے۔ وہ خوشی اور غم کے ملے جلے تجربات کو یاد کرکے اپنے اندر ایک خوشی کی لہر دوڑتے ہوئے محسوس کرے۔ اساتذہ کی ساری باتیں کانوں میں گوجنے لگیں۔ غرض وہ سارے تعلیمی سال آنکھوں کے سامنے ایک ایک کرکے دماغ کے پردے پر چلنے لگیں۔ وہ اساتذہ کا ڈانٹنا اور مستقبل کے بارے میں خوف دلانا کہ اگر پڑھائی ٹھیک طریقوں سے نہ کی ،تو زندگی میں آگے نہیں بڑھ سکتے ہو۔ ایسی بہت ساری باتیں کانوں سے ٹکرانی چاہیے جو زندگی میں دائمی مسرت کا باعث بنے۔
پیارے طلباء! آج کل منشیات کی وباء عام ہوگئی ہیں۔ آپ قوی ارادے کے ساتھ اس لعنت سے ہمیشہ ایک لمبا فاصلہ بنا کر رکھیں گے۔ آپ اس صحبت میں بیٹھنا پسند نہیں کریں گے جس میں بگڑنے کے امکانات زیادہ ہوں۔ جب تک نہ منزل حاصل ہوجائے، تب تک آ پ ہر اُس محفل کو ترک کریں گے جو آپ کی منزلِ مقصود تک پہنچنے میں روڑے اٹکانے کا رول ادا کرتے ہیں۔ ابھی آپ سب کو اپنے ماں باپ کا ساتھ چاہیے، بڑی بہنوں اور بڑے بھائیوں کا بھی رول اہم ہوجاتاہے۔ اس کے علاوہ اساتذہ کا رول بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کی ضرورت ہمیشہ ہوتی ہے۔ اب جن کے ماں باپ نہیں ہیں تو دوستوں کو چاہیے کہ ان سے اپنی چیزیں شیئر کریں۔ ان کو بھی ان کتابوں سے روشناس کیا کریں جن کو پڑھ کر نمبرات کے علاوہ ذہن سازی ہوتی ہیں۔ چنانچہ یکم مارچ سے ہی تعلیمی اداروں میں پھر سے رونقیں لوٹ آئی ہیں۔ آپ سے ایک اور بار گزارش کرتا ہوں کہ اسکول کے اوقات کے دوران اخلاقیات کا بھرپور خیال رکھا کریں۔ گالی گلوچ نہ کیا کریں اور ضرورت سے زیادہ باتوں سے بھی پرہیز کریں۔ ماں باپ کی امیدوں پر کھرا اُترنے کی کوشش کریں۔ زیادہ سے زیادہ محنت کرکے بہتر بننے کی کوشش کریں۔ مقابلہ صرف اپنے آپ سے رکھوں، کل کی غلطی کوحال پر حاوی نہ ہونے دو۔ آنے والے کل کو آج کے دن سے نکالو، جو بیت گیا ہے، وہ دوبارہ نہیں آئے گا۔ وہ سبق تھا، آج کرنے کا کام ہے، آنے والا کل اُمید پر ٹکا ہے۔ جو بھی ہے یہی ایک پَل ہے، اس پَل میں سب کچھ بننا ہے۔ جاتے جاتے اندیور صاحب کے کچھ الفاظ قلمبند کرتا ہو۔وہ کہتے ہیں کہ ایک اندھیرا لاکھ ستارے،ایک نراشا لاکھ سہارے، سب سے بڑی سوغات ہے جیون، ناداں ہے جو جیون سے ہارے۔ دکھ سے اگر پہچان نہ ہو تو کیسا سکھ اور کیسی خوشیاں۔ طوفانوں سے لڑ کر ہی تو لگتے ہیں ساحل اتنے پیارے۔ ایک اندھیرے سے لڑنے کے لئے آپ سب کے پاس لاکھ ستارے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی نظر تاروں کی طرف اُٹھے ہی نہیں۔ اس کے علاوہ طوفانوں سے لڑنے کا حوصلہ رکھنا ضروری ہے۔ ساحل تب بہت پیارے لگتے ہیں جب اُن تک پہنچنے میں خون کے گھونٹ پینے پڑیں۔ یہ مضمون اس گانے کے کچھ سطروں کو لکھے بغیر ادھورا رہ جا ئے گا، جس میں گیت گار لکھتے ہیں کہ زندگی ہر قدم ایک نئی جنگ ہے۔ جیت جائیں گے ہم تو اگر سنگ ہے۔ حوصلہ رکھنا آپ سب کا شیوہ ہونا چاہیے۔ آگے راستے مشکل ہیں لیکن دل میں امید بھی ہے۔ اِسی امید کے ساتھ اس مضمون کو میں اختتام کر رہا ہوں۔ اللہ آپ سب کو علم کے نور سے روشناس کریں۔
(حاجی باغ، بمنہ،سرینگر ،رابطہ۔9103916455)
[email protected]

Share This Article