رئیس یاسین
آج کا دور جہاں سائنسی ترقی، ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل انقلاب سے عبارت ہے، وہیں نوجوان نسل ذہنی دباؤ، اسکرین ایڈکشن، جذباتی عدم توازن اور اقدار کی کمی جیسے مسائل کا شکار بھی ہے۔ ایسے میں تعلیم صرف کتابی علم تک محدود نہیں رہ سکتی بلکہ اس کا دائرہ زندگی گزارنے کے فن، جذباتی ذہانت اور خود آگہی تک پھیلنا چاہیے۔حال ہی میں دہلی حکومت نے اپنے سرکاری اسکولوں میں ’’ہیپی نیس کریکولم‘‘کی جگہ ایک نیا نصاب متعارف کرایا ہے جسے ’’سائنس آف لیونگ‘‘ (Science of Living) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ نصاب محض ایک تعلیمی تبدیلی نہیں بلکہ ایک فکری انقلاب ہے جس سے پورے ملک بالخصوص کشمیر کے لیے سیکھنے کا موقع پیدا ہوتا ہے۔
یہ نصاب بچوں کو ریاضی یا سائنس کے ساتھ ساتھ یہ سکھاتا ہے کہ سانس کس طرح ذہنی سکون لا سکتی ہے، (بریتھنگ ٹیکنیکس)۔بڑوں کا احترام اور خدمت کیوں ضروری ہے
اسکرینز سے فاصلہ کیوں اہم ہے (ڈیجیٹل ڈیٹاکس)۔جذباتی ذہانت، خود آگہی، اخلاقی اقدار اور رشتوں کی اہمیت۔طلبہ یوگا، مراقبہ، ذہن سازی (Mindfulness)، اور حقیقی زندگی کی سرگرمیوں میں شامل ہوں گے جیسے:کہانی گوئی، پپٹ شو، فلم بینی۔معاشرتی موضوعات جیسے صنفی برابری، خواتین کا احترام، بزرگوں کی دیکھ بھال یہ نصاب قومی تعلیمی پالیسی 2020 (NEP 2020) سے ہم آہنگ ہے اور طالب علموں کی کل ہمہ جہت شخصیت کی ترقی پر زور دیتا ہے۔
کشمیر کے نوجوان اس وقت کئی سماجی و ذہنی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسکرینز کی زیادتی، بےروزگاری کا خوف، رشتوں میں کمزوریاں اور ذہنی صحت کے مسائل عام ہو چکے ہیں۔ ایسے میں تعلیمی اداروں کو صرف ڈگریاں دینے والا ادارہ نہیں بلکہ کردار سازی اور زندگی کی تربیت کا مرکز بننا چاہیے۔سائنس آف لیونگ جیسے نصاب سےطلبہ جذباتی طور پر مضبوط اور خود اعتمادی سے بھرپور ہوں گے۔ذہنی دباؤ سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا ہو گی۔معاشرتی ہم آہنگی، ہمدردی اور احترام جیسے اقدار پیدا ہوں گے۔وہ صرف امتحانات کی تیاری نہیں کریں گے بلکہ زندگی جینے کی تیاری کریں گے۔
ڈیجیٹل خواندگی اور خودانحصاری کے لیے NEEEV پروگرام:دہلی حکومت نے ایک اور پروگرام NEEEVجیسے(New Era of Entrepreneurial Ecosystem & Vision) بھی متعارف کرایا ہے جو طلبہ کوڈیجیٹل مہارتیں (Digital Literacy)،مالیاتی سمجھ بوجھ (Financial Literacy)،کاروباری ذہن سازی (Entrepreneurship)،سکھانے پر مرکوز ہے۔ اس پروگرام کے تحت طلبہ نہ صرف ملازمت کے لیے تیار ہوں گے بلکہ خود نوکریاں پیدا کرنے کے قابل بنیں گے۔یہ پروگرام کشمیر میں بےروزگاری اور تعلیمی بیزاری کے مسئلے کا ایک قابلِ عمل حل بن سکتا ہے۔ اگر ہمارے اسکول اور کالجز بھی اس طرح کی عملی تعلیم پر زور دیں تو نوجوان صرف ڈگری کے پیچھے نہیں بھاگیں گے بلکہ ہنر مند، خودمختار اور باوقار شہری بنیں گے۔
کشمیر میں نئی تعلیمی سمت کی ضرورت ہے۔وقت آ چکا ہے کہ کشمیر کا تعلیمی نظام بھی صرف نصاب کی رٹنے کی روش کو ترک کرے اورجذباتی ذہانت،اخلاقی تربیت،ڈیجیٹل نظم و ضبط،حقیقی زندگی کے ہنرکو تعلیم کا لازمی حصہ بنائے۔سائنس آف لیونگ اور NEEEVجیسے پروگرام صرف دہلی تک محدود نہ رہیں بلکہ ان کی روشنی کشمیر کے تعلیمی اداروں تک بھی پہنچنی چاہیے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل نہ صرف تعلیمی اعتبار سے کامیاب ہو بلکہ زندگی کے نشیب و فراز میں بھی سرخرو ہو، تو ہمیں اب نظریہ تعلیم کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
[email protected]>