آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔موسم کے آثار بتا رہے تھے کہ آج جو بارش ہوگی تو جلدی رکنے والی نہیں ۔مجھے ابھی بوریولی سے چرچ گیٹ ٹرین پکڑنی تھی اور ابھی بس سے بوریولی جانا تھا۔اسی بات کی ٹینشن میں چھوٹا بیٹا جو پیروں سے لپٹ رہا تھا اسے جھڑک دیا ۔بیوی، جو بجلی کے بل کی آخری تاریخ بتا رہی تھی،کو بھی دو باتیں سنا ئی تھیں اور قسمت کو کوستے ہوئے بس اسٹاپ پر پہنچا تھا کہ دیکھا ایک بیس اکیس سال کی ایک لڑکی تھی،بے حد خوبصورت اور معصوم۔اس کی آنکھیں نیلی اور گہری تھیں لیکن قسمت کی ستم ظریفی ان آنکھوں کے چراغوں میں روشنی نہیں تھی۔میں جو جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔اب بت بنا اس معصوم لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔ حالانکہ میری عادت دوسرے مردوں سے مختلف تھی اور میں راہ چلتی لڑکیوں کو دیکھنا معیوب سمجھتا تھا۔لیکن اس لڑکی سے نظر ہٹ نہیں رہی تھی اور اس کے لبوں پر پھیلی مسکراہٹ ایسی تھی جیسے اس سے زیادہ خوش نصیب کوئی ہے ہی نہیں۔اس کے اطمینان نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ جس نے زندگی میں کوئی رنگ ہی نہ دیکھا ہو، جو کالے رنگ کے علاوہ کسی بھی رنگ سے واقف ہی نہیں ہے ،جس کی زندگی میں کہیں کوئی روشنی نہیں ہے۔ پھر بھی یہ لڑکی اپنی زندگی اور قسمت سے مطمئن ہے تو ہم کیوں نہیں اور کہتے ہیں نہ آگہی کے لئے ایک لمحہ کافی ہے اور میں جو ہمیشہ زندگی میں آئی چھوٹی چھوٹی سی پریشانیوں میں الجھ جاتا تھا اور ہمیشہ شکوے ہی لب پر رہتے تھے۔تب مجھے احساس ہوا کہ ہمیں جو ملا نہیں اس کے پیچھے بھاگتے ہیں اور جو پاس ہے اس کا شکر کبھی ادا نہیں کرتے۔اسی لئے ان نعمتوں کی قدر نہ کرکے ان کی کشش سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اور یہ جو زندگی اس میں کئی رنگ ہیں۔اکثر ہم ان حقیقی رنگوں کو نظر انداز کر کے ان دیکھے رنگوں کے پیچھے دوڑتے ہیں اور آخرکار سفید رنگ کا کفن اور کالے رنگ کی مٹی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
��
سعادت گنج۔بارہ بنکی