مغرب کی طرح ہمارے یہاں بھی مدت دراز سے میاں بیو ی کے درمیان معمولی معمولی باتوں پر ناچاقی اور تعلقات میں کشیدگی لڑائی جھگڑے کی صورت میں زوجین میںعلیحدگی اور طلاق پر منتج ہوتی جارہی ہے۔ یہ صورت حال ہم سب کے لئے بہت زیادہ تکلیف دہ ہے۔میاں بیوی کے درمیان اختلافات کی کئوجوہات ہو سکتی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ اُن کے ما بین ایک ودسرے کے مزاج اور حالات کو نہ سمجھنے میں پوشیدہ ہوتا ہے ۔اس وجہ سے غلط فہمیاں اور ناچاقیاںپید ا ہوتی رہتی ہیںجو بعد میں باہمی جدائی کی صورت میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں ۔یہ کشید گیاں بہت ہی تلخ ہوتی ہیں، اس کے بُرے نفسیاتی اثرات نہ صرف بچوں پر پڑتے ہیں بلکہ میاں بیوی دونوں ایک قسم کی نفسیاتی کھچاؤ سے بیمار ذہن ہونے لگتے ہیں۔ عام مشاہدے کے مطابق میاں بیوی کے درمیان تنازعات یا توپڑھے لکھے خاندانوں میں پاےجاتے ہیں یا پھر جاہل طبقوں میںلیکن دونوں صورتوں میں اس کے اثرات آہستہ آہستہ معاشرے پر مرتب ہو تے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برصغیر میںیہ صورت حال ’’زیادہ کماؤ‘‘کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ عورتوں میں مردوں کے مقابلے لالچ کا عنصر کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے، اس لیے وہ زیادہ پیسے سے نہ صرف مسرور بنا رہناچاہتی ہیں بلکہ اپنے سماج میں پیسے کی بنیاد پر ناک اونچی کر کے مصنوعی عزت یا عیش پرست زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔ کئ ایسے خاندان ہیں جہاں شوہر اپنے بچوں کوچھوڑکر دیار غیر کی خاک چھانتے ہیں تاکہ بیویوں کا شدید دباو تھا آمدنی بڑھاؤ اور امیرانہ ٹھاٹ بھاٹ سے رہو ۔ اس سے ان لوگوں کو کیا کیا جھیلنا پڑتا ہے وہا یک ا؛لگ داستان ہے مگر بعض ایسے بھی شوہر ہوتے ہیں جو بیوی کے کہنے میں نہیں آتے اور وطن میں رہ کر اپنی قسمت آزمائی کر تے ہیں۔ ایسے شوہروں اور بیویوں کے درمیان تلخیاں روز کا رونا ہوتا ہے اور اگر خاندان کا کئی جہاں دیدہ بزرگ ان تلخیوں کو دور نہ کرے تو اس کا بھیانک نتیجہ طلاق کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔بعض ایسے بھی گھرانے ہیں جن آج کل تعداد بہت زیادہ ہے ، جہاں میاں بیوی دونوں کما رہے ہیں ۔اس لیے بیوی میں برابری کا شعور پیدا ہو نے سے وہ مرد کو کسی خاطر میں نہیں لاتی ۔ یہی منفی رویّہ گھر میں کشید گی اور تلخی کا باعث ہوجاتا ہے۔ بعض خواتین جن کی تنخواہیں مردوں سے زیادہ ہو ،وہ اپنے شوہر کو حقیر سمجھتی ہیں بلکہ اپنے دوستوںرشتہ داروں میں اس کو نیچا دکھانے سے بھی گریز نہیں کرتی ہیں ۔اس سے میاں بیوی کے درمیان تعلقات میں کھچاو پیدا ہونافطری ہے جو بعد میں دوری یا علیٰحد گی پر بھی منتج ہوتا ہے۔
میاں بیوی کے درمیان تعلقات کی خرابی میں بعض ناسمجھ رشتہ دار بھی نمایاں کر دار ادا کرتے ہیں ۔ جب بیوی کے رشتہ داروں کو معلوم ہو کہ ان کی لڑکی اپنے شوہر پر حاوی ہے تو اس کو مزید حاوی اور غالب ہونے کے ’’ مفت مشوروں‘‘ سے نوازا جاتا ہے ۔ یہی ’’مشورے ‘‘گھر گرہستی میں کہرام برپا کرنے کیلئے کافی ہوتے ہیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان تعلقات کی خرابی میں وہ محرکات بھی کام کرتے ہیں جن کی جڑیں گھر سے باہر ہوتی ہیں یعنی دوستیاں یا پھر کام کرنے کی جگہ سے وابستہ افراد وغیرہ وغیرہ۔ بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ خاوند بیوی ایک وسرے کی سوچ کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں جس کی وجہ سے گھر میں خواہ مخواہ کا جھگڑے کھڑے ہو جاتے ہیں۔میاں بیوی کے درمیان جھگڑے ہر چند کہ بہت ہی معمولی معمولی سی باتوں پر شروع ہوتے ہیں لیکن ان کا انجام کبھی کبھاربہت تلخ باتوں پر ہوتا ہے اگر وقت پر سوجھ بوجھ سے کام نہ لیا جائے، اس سے بھی کئ روز تک گھر کی فضا خراب رہتی ہے ۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان ان جھگڑوں اور تند مزاجیوں کو کیسے ختم کیا جاے اور گھر کو حقیقی جنت کیسے بنایا جائے؟ یہ سوال اس وجہ سے اہم ہے کیوں کہ خاندان معاشرہ کی اکائی گھرہوتا ہے۔ اگر خاندان آپس میں بٹا ہوا ہو تو صحت مند معاشرہ کیونکر مضبوط بنیادوں پر استوار ہو سکتا ہے ؟دراصل گھر کی ساری ذمہ داری عورت پر عاید ہوتی ہے۔ مسلم معاشرہ خاص کر عورت پر بہت ہی اہم اور نازک ذمہ داریاں ڈالتا ہے۔ وہ یہ کہ عورت ایک بیوی ہونے کے علاوہ بچوں کی ماں بھی ہوتی ہے اور بچوں کی صحیح پرورش اور اخلاقی تربیت کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔ شوہر کی عزت اور تکریم بھی عورت کا فرض عین ہے ۔ اگر اس نے خاتونِ مغرب کی طرح مرد کو اپنے برابر سمجھا یااس کو کم تر حیثیت دینے کی کوشش کی تو گھر کا توازن متاثر ہوناطے ہے اور یہیں سے میاں بیوی کے درمیان کشید گی شروع ہوجاتی ہے ۔ ایک کہاوت ہے کہ ’’عورت کی نرمی آگ کو سرد کر دیتی ہے لیکن اس کی تلخی گھر کو برباد بھی کر سکتی ہے ‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے مرد کو عورت پر فوقیت دی ہے جب کہ حقوق کے لحاظ سے دونوں یکساںہیں۔ اسلام میںخاندان کا سربراہ مرد کو تسلیم کیا جاتا ہے اورا سی تعلیم میں زن وشو کااصل سکون واطمینان مضمر ہے ۔بیوی کو خاوندپر فوقیت دینا، حد ود وقیودسے ماوراء مساوات کا مطالبہ بھی خانگی زندگی کو متاثر کر دیتا ہے کہ معاشرہ ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہوجا تا ہے جہاں سے ہر راستہ خطروں اورتباہیوں سے بھرا ہوا ملتا ہے ۔ روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ نے اپنے ایک خطبہ میں فر مایا ہے کہ عورت گھر کو جنت کا نمونہ بنا سکتی ہے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ آج کل معاشرے میں مردوزن میں عدم توازن سے گھر کہیں بھی جنت کے نمونے نہیں دِکھ ر ہے ہیں ۔ ہمارے یہاںایک طرف برق رفتا ر زندگی کے تقاضے ہیں ، دوسری طرف گھر کا ٹوٹا ہوا شیرازہ ہے۔ایسے میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ بہر حال اگر میاں بیوی دونوں صبر اور افہام و تفہیم کے جذبے سے کے ساتھ زندگی گزارنے کا عزم بالجزم کر لیں تو گھربہشت بن جائیں گے ۔ چونکہ مادہ پرستی انسان کو انسان سے ہی نہیں دور کر دیتی بلکہ خدا سے بھی انسان دور چلا جاتا ہے ، دیکھا جائے تو آج کل میاں بیوی کے درمیان تلخیوں اور اَن بن کے پیچھے بھی مادہ پرستی کا کوئی نہ کوئی رول ہوتاہے ۔اگر عورت اورمرو صبر اور کشادہ دلی اپنا لیں تو گھر بار کی بہت ساری بلا وجہ پریشانیاں چشم زدن میں ختم ہو سکتی ہیں۔جو مسلم گھرانے انسانیت کی خدمت کر کے اپنا اور ملک وملت کا نام روشن کر تے ہیں ان گھرا نوں کی عورتوں کا کردار لازماً شعائر اسلامی کے مطابق دیکھا جاتا ہے۔ بلا شبہ گھریلو زندگی میں اسلامی طور طریقے اپنانے سے نہ صرف گھر میں خوشیوں کی بہار آتی ہے بلکہ روزمرہ کی تلخیاں بھی دور ہوجاتی ہیں اور پتہ یہ چلتا ہے کہ خوش حال گھر انہ مرد اور عورت کے درمیان باہمی اعتماد ومحبت کا نام ہے ۔یہ اعتماد ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام سے پیدا ہوتا ہے اور اس احترام کی پہل ہمیشہ دوطرفہ سے ہوتی ہے ۔جہاں کہیں بیوی اپنے شوہر کے لیے عزت واحترام کا شیوہ اختیارکرے اور شوہر اپنی زوجہ کے لئے حقیقی محبت اور عزت پیدا کر ے تو پھر گھر میںمسرتوںکی جنت بن سکتا ہے۔یہ صحیح ہے کہ آ ج مقابلہ آرائی کا سخت دور دورہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گھر اور خاندان کی بنیاد وہی ہے جو آج سے ہزاروں سال قبل تھی۔ عصر رواں میںعو رت معاشی مجبوری کی بنا پر دفاتر اور کارخانوںمیں ملازمت اختیار کر چکی ہے اور اپنی معاشی ذمہ دراریاں اٹھارہی ہیں مگراس کے اس بنیاد میں کوئی فرق نہیں آیااور نہ ہی عورت مرد سے برتر یا عورت مرد سے کم تر ہوگئی ۔ ہمارے گردوپیش میںایسی بہت ساری خواتین ہیںجو بڑے ذمہ دار عہدوں پر فائز ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے گھر بھی رشک ِجناں ہیں ۔ یہ خوش بخت خواتین اپنے شوہروں کے ساتھ مثالی مسلم خاتون جیسا ہوتا ہے جس سے خوش گوار اثرات گھرانے کے بچوں پر مثبت طور مرتب ہوتے ہیں ۔ یاد رکھئے کہ ایک اچھے اور خوشحال خاندان کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے گاڑی کے دو پہیے جیسے ہوتے ہیں، یہ نہ صرف ایک ودسرے کے دُکھ سکھ کے ساتھی ہوتے ہیں بلکہ زندگی کے اُتار چڑھاؤ میں قربتوں کا رشتہ ایک دوسرے کے حق میں شیر وشکر ہو کر نبھاتے ہیں ،ان میںباہم دگراحترام ومحبت کا جذبہ ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کے دل و دماغ میں پنہاں ساری صلاحیتیں معاملات زندگی کو سلجھانے میں صرف ہوتی ہیں نہ کہ خواہ مخواہ کی ا لجھنیں پیدا کر نے میں۔ یہی اسلام کا دکھایا ہوا سیدھا راستہ ہے جس کے ا ختتام پر جنت کی منزل ہوتی ہے ۔ کیا ہم یہ منزل پانے کے لئے کچھ اپنا کھو نے کو تیار ہیں ؟ ����