Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

زندگی نامہ

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: August 12, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
11 Min Read
SHARE
یوں تو ہماری کوئی شناخت ہے نہیں پر اگر کبھی رہی بھی ہے تو وہ بھی سر سری اور سطحی ہے ۔ مانئے ہم، ہم نہیں اگر ہم میں شناخت نہیں۔ اپنی کوئی شناخت بنانے کے سلسلے میں ہم نے خود کو پردے پر لانے کے لئے کہیں طور طریقے آزما لئے، کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر ، لیکن سمجھ میں یہ بات کبھی نہ آئی کہ اگر ہم سب ابن آدم ہیں تو پھر شناخت کا پٹارا کس بات پر کھولیں؟ ساری دنیا ہی تو ایک ہی گلوب میں سب کو سمیٹے ہو ئی ہے، پھر یہ ہنگامۂ من وتُو کیوں ہے ؟ جنم ہوا تو اسپتال میں ایڈمٹ کارڈ اور وہ بھی لال والا، ابھی دودھ کا ایک قطرہ بھی منہ میں نہیں آیا تھا کہ ڈاکٹروں نے ویکسین کا کارڈبنانے کو کہا۔ اس سے پولیو اور دوسری بیماریوں سے چھٹکاراملتا ہے ۔یہ بھی سننے میں آیا ہے بچہ دو دن کا نہیں ہوا اور دو کاڑ وں پر اپنی مہر لگا دی۔ سال کیا گزر گیا کہ جنم دن مبا رک والے کارڈ دوستوںرشتہ داروں سے آنے شروع ہوگئے ۔ یو ں تو کارڈوں کے ڈھیر لگ گئے اور ہر گزرتا دن زندگی کو کارڑوں میں گھسیٹتا گیا۔ چھ سا ل کا ہونے تک ،کارڈوں کی فہرست بڑھتی گئی اور اب قمیض میں ایک جیب بھی لگنے لگا،جہاں دو تین پیسے، زمانہ ٔبابا آدم کے پھٹے ہوئے نسخے اور شناختی کارڈ بھی ہو ا کرتا تھا۔ اب جب اسکول جانے کا وقت آگیاتو اسکول میں نیلی قمیض اور کالے پاجامے کے ساتھ ساتھ گردن میں لٹکا ایک اسکولی کارڈ بھی ہوا کرتا تھا جو ہوا کی تند مزاجی کے سبب کبھی دائیں اور کبھی با ئیںجھولتا تھا۔ کہنے کو تو اس کو اسکول کا کارڈ کہا جا تا تھا جس سے بچے کی شناخت سامنے آتی تھی مگر یہ اسکول کا تعارفی اشتہار بھی ہوتا۔ وہ وقت کیا تھا جب بنا کارڈ کے آدمی کو بلا پوچھے پاچھے آرمی نام کی ایک مخلوق پیڑ پر چڑھ کر کان پکڑی کرنے کو کہتی ،کبھی کبھارکارڈزدہ نہ ہونے کے جرم میں مار پٹائی بھی ہوتی تھی اور پھر اہل کشمیر نے  بہت کچھ سیکھ لیا ۔ کشمیریوں نے اپنے وطن کے اندرخود کو ہر شناختی پریڈ میں پیش پیش پایا ، جب کہ بنا کارڈ کے تو بیرون وطن جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ گھر میں آئے معزز مہمان خصوصی کو بھی پہلے آرمی کیمپ میں جا کے اپنی حاضری اور اپنے کارڈ کی منہ دکھائی یقینی بنانا پڑتی تھی اور لوگ اب بھی یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ اگر ہم یہا ں کے پشینی باشندے ہیں تو پھر باہر والے اجنبی ہم سے شناختی کارڈ کا ’’ہرجانہ ‘‘ کیوں مانگتے ہیں اورجو ہم سے پہچان پتر مانگتے ہیں، ان کی اپنی شناخت کیا ہے ؟ یہ نقلی اور اصلی روپ آپس میں لکھا چھپی کیوں کھیل رہے ہیں ؟خیر وقت کا پہیہ آگے بڑھتے جارہا ہے اور کارڈوں کے ساتھ ساتھ زندگی بھی کارڈ نمابن گئی۔ کسی نے کہا یہاں الیکشن نامی کوئی نقلی طبیب ہے جو پانچ چھ سال بعد ہماری مزاج پرسی کرنے کو آتا ہے ، اگر چہ ہم بیمار نہیں ہوتے مگر پھر بھی ہمیں اس نقلی ڈاکٹر کی عیادت کا پاس کر کے ان کے پاس آنا پڑتا ہے ۔اس کا ایک ہی  مطالبہ بلکہ حکم حاکم یہ ہے کہ ہمارے پاس دوائی کا نسخہ ہو ،نہ سہی مگر الیکشن کارڈ لازماً ہو ، ا س سے مزاج پرسی از خود ہو جاتی ہے ۔ جہاں مریض بے شمار اور ڈاکٹر اَن گنت ہوں وہاں کارڈ ہی صحت یابی کا ضامن ہے ۔ آج کی تاریخ میں 75لاکھ مریض چند سو آدمیوں کو اپنی مزاج پرسی کا موقع دیتے ہیں اورجن کی مزاج پرسی کی جاتی ہے ان کوجو بھی سبز باغ دکھائیں جائیں وہ اپنی جگہ ، بس ان کا صرف 18؍سال ہونا لازمی ہے ۔ یہ الیکشن کارڈ یا آدھار کارڈ یہ سلسلہ ابھی جاری ہی تھا کہ بنک نے کارڈوں کی آبادی بڑھانے کے لئے پاس بکُ ، ڈیبٹ کارڈ، کریڈٹ کارڈکے درشن کرائے۔ گزشتہ سال نومبر میں جب بھارت میں نوٹ بندی کی جنگ چھیڑدی گئی تو اس کا اثر کارڈوالوں پر ہی زیادہ تھا۔ وہ جو حوالہ اور کالا دھن کے اڈوں میں چمچوں کا کام کرتے ، ان کا کوئی کارڈ ہی نہیں ہے ، تو کارڑ والوں کو بناکارڈوالوں کے واسطے قطارمیں کھڑا ہونے کے لئے کہا گیاتا کہ لائین میں کھڑا رہ کے وہ یہ ثابت کریں کہ ان کے پاس کالا دھن دولت نہیں ۔جونہی یہاں آدھار کا رڑ کا چرچا ہونے لگا تب یہاں لوگوں کو اور بھی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔پیٹ پوجا کرنے سے لے کے ہوائی جہاز میں سفر کرنے تک اور اب سندِموت تک آدمی کو آدھا ر کے بغیر خود پر بھی کوئی ادھیکار نہیں رہا ۔ آدھا ر کارڑکی دوڑ میں شناختی جنگ تو بھارت نے جیت لی مگر لوگوں کی privacyکا ستیا ناس کیا۔ سرکار اب دھیرے دھیرے لوگوں کے پرائیوٹ گوشوںمیں پدھار رہی ہے ،۔ کیا یہ انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہے ؟ ہم اب اتنے سارے کارڈوں میں گھرے ہوئے ہیں کہ ہم خود کے بھی نہیں رہے اور انسان ہو کے بھی ہم خود بھی کارڑوں کی قطار میں شامل ہو گئے ہیں۔جو آدمی غریبی کی سطح کے نیچے رہ کر بی پی ایل یا اے اے وائے راشن کارڑ لئے اپنی بری معاشی حالت کا اظہار کرتا تھا ، وہ سات جنم سے وہی ایک کارڈ ہاتھ میں لئے ہوا ہے ، نہ سرکار ہی اس غریب کو غربت سے نکلنے دیتی ہے اور نہ ہی وہ خود اس سے باہر آنے کو تیارہے ۔ اس نسل کا خواب ہی یہی ہے کہ غریب دن بہ دن غریب سے غریب تر ہوتا جائے اور امیر شب وروز امیر ی کے مزے اُڑاتاجائے۔امریکہ میں غیر ملکیوں کو نوکری پانے لئے مہنگے داموں کارڈ حاصل کرنے پڑتے ہیں اور جب اس میں پاسپورٹ ویزا جیسی دستاویزات بھی شامل ہوں تو آدمی اور بھی مہنگائی کے جبڑوں میں چلا جاتا ہے۔ یہ صرف کارڈوں کی دین ہے کہ ہمیں ہمارے حاکم جگہ جگہ حلوے کی طرح بانٹتے جا ر ہے ہیں۔ ایک ننھی سی جان اور ہزاروں سرکاری آفتیں۔ غور فرمائیں!اگر دُنیا امن کا بازار ہوتا تو اتنے سارے کارڈ آدمی کے اوپر حاوی نہیں ہوتے۔ یہ صرف سرحدوں اور ان کے محافظین کا کمال ہے کہ ہمارے مزاج کے خلاف حالات بنتے جا رہے ہیں ۔ یوں تو ساری دُنیا ایک ہی چھت کے نیچے سمیٹے ہوئی ہے اور جو لوگ دنیا کو گلوبل ولیج کہتے ہیں ، ان کی سوچ پر کارڈوں کایہ افسانہ پھر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔یہ صرف کارڈوں کا انداز ہے کہ ، ہم نام ، ذات، شہریت،مذہب اور پیشے کی وجہ سے Aاور Bملک میں نہیں جا سکتے ہیں۔ غرض کارڈوں کی بھرمار نے ہمیں کسی کا بھی نہیں رکھا ۔ شادی بیاہ کی دعوت والے کارڈو ں نے رشتوں کو کاغذی پیرہن زیب تن کیا ہے۔ لوگ ان کارڈوں پر ناک اونچی رکھنے کے لئے پیشہ لٹا دیتے ہیں اور مہمان بھی میزبان کو کارڈ کے حساب سے تحفہ تحائف سے نوازتے ہیں ۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم خود کو کارڈ کے بغیر اب جیتا محسوس ہی نہیں کرتے ۔ یہ شریر کا ایکسرے، بدن کا ای سی جی ، خون کا سی بی سی، دل کا لیزر اور اسٹیٹس کا سب سے بڑا ٹیسٹ بن گیا ہے ، جس میں انسان کو اس کی انسانیت سے نہیں بلکہ کارڈ کے سائز کی مناسبت سے نا پا تولا جاتا ہے ۔ مختصراً مطلب یہ کہ ہم سب جیتے جی ایک خود کار ، کارڈ بن کر رہ گئے ہیں۔ گورا چکناٹماٹر جیسے چہرہ والادہلی کے گلی کوچوں میں گھومے پھرے تو کشمیری کہلاتا ہے ، مسافر گاڑی میں خود کنڈکٹر کے لئے پیر رکھنے کی جگہ نہیں مگر مزیدسواریوں کو پکارتا ہے توکشمیری کہلاتا ہے ، فیس بک پر ’’کلہ خراب‘‘ کے نام سے لوگوں کو ٹھگتا ہے تو کشمیری کہلاتا ہے ، یہ ہے ہمارے کارڈ نما شناخت بن گئی ہے ۔ دُنیا کے کسی بھی آدمی نے آج تک کرفیو پاس نہیں دیکھا ہو گا ،  ہم نے لاکھ بار دیکھا ، یہ کارڈ ہماری سب سے بڑی شناخت ہے ۔  بہر حال کارڈوں کے اس دُکھ بھرے سنسار میں ہمیں بے شمار کارڈوں نے آ دبوچ لیا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہمیں پتہ بھی نہیں کہ ہم انسان نہیں بلکہ چلتے پھرتے کارڈ ہیں جن کو چاہے نامساعدحالات کی آندھیاں اڑادیں، سیلاب کی لہریں اُجارڈیں،الزامات کی بوچھاڑیں تکابوٹی کریں ، سازشیںبے بال وپر کردیں، اپنوں کی بے وفائیاں غیروں کی بد نیتی اُچک لیں مگر ہم قطار اندر قطار اپنے کارڈوں کی دنیا میں گم صم رہیں ۔ 
رابطہ [email protected] 

 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

کٹھوعہ میں پٹواری رشوت لیتے ہوئے گرفتار
جموں
ساکری راجوری میں گیسٹرو کے واقعات،مزید3داخلِ ہسپتال جموں اور راجوری کے میڈیکل کالجوں میں2خواتین کی موت،7زیرعلاج
پیر پنچال
چناب میں پانی کی سطح بڑھنے پر سلال ڈیم کے دروازے کھول دئے گئے
جموں
ادھم پور میں امسال 87منشیات فروش گرفتار | 2.42کروڑ ر کی منشیات اور4.69کروڑکی جائیداد ضبط
جموں

Related

طب تحقیق اور سائنسمضامین

زندگی گزارنے کا فن ( سائنس آف لیونگ) — | کشمیر کے تعلیمی نظام میں ایک نئی جہت کی ضرورت فکرو فہم

June 30, 2025
کالممضامین

“درخواست برائے واپسی ٔ ریاست” جرسِ ہمالہ

June 30, 2025
کالممضامین

! ہمارا جینا اور دکھاوے کے کھیل

June 30, 2025
کالممضامین

مقدس امرناتھ جی یاترا | تاریخ اور بین ا لمذاہب ہم آہنگی کا سفر روحانی سفر

June 30, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?