یوں تو ہماری کوئی شناخت ہے نہیں پر اگر کبھی رہی بھی ہے تو وہ بھی سر سری اور سطحی ہے ۔ مانئے ہم، ہم نہیں اگر ہم میں شناخت نہیں۔ اپنی کوئی شناخت بنانے کے سلسلے میں ہم نے خود کو پردے پر لانے کے لئے کہیں طور طریقے آزما لئے، کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر ، لیکن سمجھ میں یہ بات کبھی نہ آئی کہ اگر ہم سب ابن آدم ہیں تو پھر شناخت کا پٹارا کس بات پر کھولیں؟ ساری دنیا ہی تو ایک ہی گلوب میں سب کو سمیٹے ہو ئی ہے، پھر یہ ہنگامۂ من وتُو کیوں ہے ؟ جنم ہوا تو اسپتال میں ایڈمٹ کارڈ اور وہ بھی لال والا، ابھی دودھ کا ایک قطرہ بھی منہ میں نہیں آیا تھا کہ ڈاکٹروں نے ویکسین کا کارڈبنانے کو کہا۔ اس سے پولیو اور دوسری بیماریوں سے چھٹکاراملتا ہے ۔یہ بھی سننے میں آیا ہے بچہ دو دن کا نہیں ہوا اور دو کاڑ وں پر اپنی مہر لگا دی۔ سال کیا گزر گیا کہ جنم دن مبا رک والے کارڈ دوستوںرشتہ داروں سے آنے شروع ہوگئے ۔ یو ں تو کارڈوں کے ڈھیر لگ گئے اور ہر گزرتا دن زندگی کو کارڑوں میں گھسیٹتا گیا۔ چھ سا ل کا ہونے تک ،کارڈوں کی فہرست بڑھتی گئی اور اب قمیض میں ایک جیب بھی لگنے لگا،جہاں دو تین پیسے، زمانہ ٔبابا آدم کے پھٹے ہوئے نسخے اور شناختی کارڈ بھی ہو ا کرتا تھا۔ اب جب اسکول جانے کا وقت آگیاتو اسکول میں نیلی قمیض اور کالے پاجامے کے ساتھ ساتھ گردن میں لٹکا ایک اسکولی کارڈ بھی ہوا کرتا تھا جو ہوا کی تند مزاجی کے سبب کبھی دائیں اور کبھی با ئیںجھولتا تھا۔ کہنے کو تو اس کو اسکول کا کارڈ کہا جا تا تھا جس سے بچے کی شناخت سامنے آتی تھی مگر یہ اسکول کا تعارفی اشتہار بھی ہوتا۔ وہ وقت کیا تھا جب بنا کارڈ کے آدمی کو بلا پوچھے پاچھے آرمی نام کی ایک مخلوق پیڑ پر چڑھ کر کان پکڑی کرنے کو کہتی ،کبھی کبھارکارڈزدہ نہ ہونے کے جرم میں مار پٹائی بھی ہوتی تھی اور پھر اہل کشمیر نے بہت کچھ سیکھ لیا ۔ کشمیریوں نے اپنے وطن کے اندرخود کو ہر شناختی پریڈ میں پیش پیش پایا ، جب کہ بنا کارڈ کے تو بیرون وطن جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ گھر میں آئے معزز مہمان خصوصی کو بھی پہلے آرمی کیمپ میں جا کے اپنی حاضری اور اپنے کارڈ کی منہ دکھائی یقینی بنانا پڑتی تھی اور لوگ اب بھی یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ اگر ہم یہا ں کے پشینی باشندے ہیں تو پھر باہر والے اجنبی ہم سے شناختی کارڈ کا ’’ہرجانہ ‘‘ کیوں مانگتے ہیں اورجو ہم سے پہچان پتر مانگتے ہیں، ان کی اپنی شناخت کیا ہے ؟ یہ نقلی اور اصلی روپ آپس میں لکھا چھپی کیوں کھیل رہے ہیں ؟خیر وقت کا پہیہ آگے بڑھتے جارہا ہے اور کارڈوں کے ساتھ ساتھ زندگی بھی کارڈ نمابن گئی۔ کسی نے کہا یہاں الیکشن نامی کوئی نقلی طبیب ہے جو پانچ چھ سال بعد ہماری مزاج پرسی کرنے کو آتا ہے ، اگر چہ ہم بیمار نہیں ہوتے مگر پھر بھی ہمیں اس نقلی ڈاکٹر کی عیادت کا پاس کر کے ان کے پاس آنا پڑتا ہے ۔اس کا ایک ہی مطالبہ بلکہ حکم حاکم یہ ہے کہ ہمارے پاس دوائی کا نسخہ ہو ،نہ سہی مگر الیکشن کارڈ لازماً ہو ، ا س سے مزاج پرسی از خود ہو جاتی ہے ۔ جہاں مریض بے شمار اور ڈاکٹر اَن گنت ہوں وہاں کارڈ ہی صحت یابی کا ضامن ہے ۔ آج کی تاریخ میں 75لاکھ مریض چند سو آدمیوں کو اپنی مزاج پرسی کا موقع دیتے ہیں اورجن کی مزاج پرسی کی جاتی ہے ان کوجو بھی سبز باغ دکھائیں جائیں وہ اپنی جگہ ، بس ان کا صرف 18؍سال ہونا لازمی ہے ۔ یہ الیکشن کارڈ یا آدھار کارڈ یہ سلسلہ ابھی جاری ہی تھا کہ بنک نے کارڈوں کی آبادی بڑھانے کے لئے پاس بکُ ، ڈیبٹ کارڈ، کریڈٹ کارڈکے درشن کرائے۔ گزشتہ سال نومبر میں جب بھارت میں نوٹ بندی کی جنگ چھیڑدی گئی تو اس کا اثر کارڈوالوں پر ہی زیادہ تھا۔ وہ جو حوالہ اور کالا دھن کے اڈوں میں چمچوں کا کام کرتے ، ان کا کوئی کارڈ ہی نہیں ہے ، تو کارڑ والوں کو بناکارڈوالوں کے واسطے قطارمیں کھڑا ہونے کے لئے کہا گیاتا کہ لائین میں کھڑا رہ کے وہ یہ ثابت کریں کہ ان کے پاس کالا دھن دولت نہیں ۔جونہی یہاں آدھار کا رڑ کا چرچا ہونے لگا تب یہاں لوگوں کو اور بھی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔پیٹ پوجا کرنے سے لے کے ہوائی جہاز میں سفر کرنے تک اور اب سندِموت تک آدمی کو آدھا ر کے بغیر خود پر بھی کوئی ادھیکار نہیں رہا ۔ آدھا ر کارڑکی دوڑ میں شناختی جنگ تو بھارت نے جیت لی مگر لوگوں کی privacyکا ستیا ناس کیا۔ سرکار اب دھیرے دھیرے لوگوں کے پرائیوٹ گوشوںمیں پدھار رہی ہے ،۔ کیا یہ انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہے ؟ ہم اب اتنے سارے کارڈوں میں گھرے ہوئے ہیں کہ ہم خود کے بھی نہیں رہے اور انسان ہو کے بھی ہم خود بھی کارڑوں کی قطار میں شامل ہو گئے ہیں۔جو آدمی غریبی کی سطح کے نیچے رہ کر بی پی ایل یا اے اے وائے راشن کارڑ لئے اپنی بری معاشی حالت کا اظہار کرتا تھا ، وہ سات جنم سے وہی ایک کارڈ ہاتھ میں لئے ہوا ہے ، نہ سرکار ہی اس غریب کو غربت سے نکلنے دیتی ہے اور نہ ہی وہ خود اس سے باہر آنے کو تیارہے ۔ اس نسل کا خواب ہی یہی ہے کہ غریب دن بہ دن غریب سے غریب تر ہوتا جائے اور امیر شب وروز امیر ی کے مزے اُڑاتاجائے۔امریکہ میں غیر ملکیوں کو نوکری پانے لئے مہنگے داموں کارڈ حاصل کرنے پڑتے ہیں اور جب اس میں پاسپورٹ ویزا جیسی دستاویزات بھی شامل ہوں تو آدمی اور بھی مہنگائی کے جبڑوں میں چلا جاتا ہے۔ یہ صرف کارڈوں کی دین ہے کہ ہمیں ہمارے حاکم جگہ جگہ حلوے کی طرح بانٹتے جا ر ہے ہیں۔ ایک ننھی سی جان اور ہزاروں سرکاری آفتیں۔ غور فرمائیں!اگر دُنیا امن کا بازار ہوتا تو اتنے سارے کارڈ آدمی کے اوپر حاوی نہیں ہوتے۔ یہ صرف سرحدوں اور ان کے محافظین کا کمال ہے کہ ہمارے مزاج کے خلاف حالات بنتے جا رہے ہیں ۔ یوں تو ساری دُنیا ایک ہی چھت کے نیچے سمیٹے ہوئی ہے اور جو لوگ دنیا کو گلوبل ولیج کہتے ہیں ، ان کی سوچ پر کارڈوں کایہ افسانہ پھر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔یہ صرف کارڈوں کا انداز ہے کہ ، ہم نام ، ذات، شہریت،مذہب اور پیشے کی وجہ سے Aاور Bملک میں نہیں جا سکتے ہیں۔ غرض کارڈوں کی بھرمار نے ہمیں کسی کا بھی نہیں رکھا ۔ شادی بیاہ کی دعوت والے کارڈو ں نے رشتوں کو کاغذی پیرہن زیب تن کیا ہے۔ لوگ ان کارڈوں پر ناک اونچی رکھنے کے لئے پیشہ لٹا دیتے ہیں اور مہمان بھی میزبان کو کارڈ کے حساب سے تحفہ تحائف سے نوازتے ہیں ۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم خود کو کارڈ کے بغیر اب جیتا محسوس ہی نہیں کرتے ۔ یہ شریر کا ایکسرے، بدن کا ای سی جی ، خون کا سی بی سی، دل کا لیزر اور اسٹیٹس کا سب سے بڑا ٹیسٹ بن گیا ہے ، جس میں انسان کو اس کی انسانیت سے نہیں بلکہ کارڈ کے سائز کی مناسبت سے نا پا تولا جاتا ہے ۔ مختصراً مطلب یہ کہ ہم سب جیتے جی ایک خود کار ، کارڈ بن کر رہ گئے ہیں۔ گورا چکناٹماٹر جیسے چہرہ والادہلی کے گلی کوچوں میں گھومے پھرے تو کشمیری کہلاتا ہے ، مسافر گاڑی میں خود کنڈکٹر کے لئے پیر رکھنے کی جگہ نہیں مگر مزیدسواریوں کو پکارتا ہے توکشمیری کہلاتا ہے ، فیس بک پر ’’کلہ خراب‘‘ کے نام سے لوگوں کو ٹھگتا ہے تو کشمیری کہلاتا ہے ، یہ ہے ہمارے کارڈ نما شناخت بن گئی ہے ۔ دُنیا کے کسی بھی آدمی نے آج تک کرفیو پاس نہیں دیکھا ہو گا ، ہم نے لاکھ بار دیکھا ، یہ کارڈ ہماری سب سے بڑی شناخت ہے ۔ بہر حال کارڈوں کے اس دُکھ بھرے سنسار میں ہمیں بے شمار کارڈوں نے آ دبوچ لیا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہمیں پتہ بھی نہیں کہ ہم انسان نہیں بلکہ چلتے پھرتے کارڈ ہیں جن کو چاہے نامساعدحالات کی آندھیاں اڑادیں، سیلاب کی لہریں اُجارڈیں،الزامات کی بوچھاڑیں تکابوٹی کریں ، سازشیںبے بال وپر کردیں، اپنوں کی بے وفائیاں غیروں کی بد نیتی اُچک لیں مگر ہم قطار اندر قطار اپنے کارڈوں کی دنیا میں گم صم رہیں ۔
رابطہ [email protected]