عمر فاروق
اس دنیا میں اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر اس کے پیچھے دیوانہ وار دوڑ پڑتے ہیں۔ان لوگوں کو اگر کھانے کے لیے اچھی روٹی ‘ رہنے کے لیے عُمدہ مکان اور پہننے کے لیے بہتر کپڑے مل جائیں تو یہ اسے زندگی کی معراج سمجھتے ہیں ۔وہیں کچھ لوگ (اگر چہ وہ تعداد میں کم ہی ہوتے ہیں ) دوسروں سے ہٹ کر سوچتے ہیں ، وہ عام لوگوں کی طرح محض اپنی ذاتی خواہشات اور تحسینیات کا طواف نہیں کرتے بلکہ بلند مقاصد کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دیتے ہیں ‘ ،ان ہی کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور دوسرے لا تعداد مگر بے سمت اور سرگرداں و پریشاں لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔
جو انسان بھی ‘ چاہے اس کا تعلق عمر کے کسی بھی حصے سے ہو، دوسرے انسانوں سے بڑھ کر کوئی مقام حاصل کرنا چاہتا ہو تو اسے لازماً دوسروں سے ہٹ کر کوئی اچھا کام کرنا ہوگا یا وہی کام جسے دوسرے بہت سارے لوگ پہلے سے ہی کررہے ہوں۔ منفرد مگر احسن انداز سے انجام دینا ہوگا۔انسانی تاریخ اس لحاظ سے کافی بے رحم ثابت ہوئی ہے کہ یہ اوسط درجے کے لوگوں کو زیادہ اہمیت دیتی ہی نہیں !
آپ ایک ایسے اُستاد کا تصور کریں کہ جو ڈیوٹی سے تھکا ہارا گھر پہنچ کر بھی کئی گھنٹوں تک مطالعہ کرکے اپنے طلباء کے لیے لیکچر تیار کرتا ہے، تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے ۔ظاہر ہے کہ ان کی شخصیت سے بچے متاثر ہوں گے ‘ انہیں زیادہ احترام ملے گا اور وہ ہر جگہ اس کی تعریف و توصیف کے گُن گائیں گے۔وہیں دوسری طرف اگر کوئی استاد گھر پہنچ کر ہی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو بھول جائے اور فضول اور غیر اہم کاموں میں کئی گھنٹے ضائع کرے تو اگلے دن جب وہ بغیر تیاری کلاس میں داخل ہوگا تو لازماً ان کی باتیں بے وزن سی ہوں گی اور اس پر مستزاد ان میں خود اعتمادی نام کی بھی کوئی چیز نہ ہوگی کیوں کہ خود اعتمادی تیاری اور محنت کے بعد ہی پیدا ہوتی ہے ‘ اور نتیجتاً نہ انہیں وہ عزت ملے گی جو انہیں ملنی چاہیے تھی اور نہ ہی کوئی بلند مقام حاصل ہوگا۔اساتذہ کے یہ دو کردار ہیں۔ایک نے محنت سے اپنے کردار کو سنوارا اور دوسرے نے سُستی اور کاہلی سے اپنے دامن کو داغ دار کیا ۔
آج اگر کوئی نوجوان دوسرے بے شمار نوجوانوں کی طرح (حد سے بڑھ کر ) کھیل کود، موبائل اور انٹرنیٹ پر وقت ضائع کیے بغیر اور غیر اخلاقی کاموں میں ملوث ہونے کے بجائے اعلی تعلیم کے حُصول اور اپنے علم و اخلاق و کردار کی درستگی میں اپنا وقت صرف کرے گا تو لازماً چند سالوں کی محنت اور صبر کے بعد اس کا مقام اُن بے شمار ہم عمر نوجوانوں سے بہت بلند ہوگا، ‘ جنہوں نے وقتی لذت کے حصول کے لیے دوسری غیر اہم چیزوں کو اپنے اہم کاموں پر ترجیح دی ۔
کوئی والد (یا والدہ ) اپنے مصروف نظام الاوقات کے باوجود اپنے بچوں کی تربیت کے لیے وقت نکالے ‘ انہیں اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے پر اُبھارے، ‘ انہیں اچھی اور معیاری تعلیم دینے کا انتظام کرے، انہیں اچھے لوگوں سے متعارف کروائے، ان کی حوصلہ افزائی کرے ‘ کم عمری کے باوجود ان کی آراء بغور سنے، ان کی حرکات و سکنات پر مشفقانہ نظر رکھے اور بے وجہ ان پر اپنا خوف مسلط نہ کرے تو بلاشبہ ان کے بچے ان دوسرے بے شمار بچوں سے زیادہ قابل اور ہر اعتبار سے اچھے ہوں گے، ‘ جن کے والدین ان کے لیے آدھا گھنٹہ بھی فارغ نہیں کرپاتے ہیں، ‘ انہیں غیر اہم کاموں میں اُلجھاتے ہیں ، ان کے سامنے معاشرے کے بظاہر بڑے مگر فاسق لوگوں کے کرداروں کو بڑے ہی دلکش انداز میں پیش کرتے ہیں اور انہیں بات بات پر جِھڑکتے ہیں، ان کی نہ بات سنتے ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی اہمیت دیتے ہیں۔
جو نوجوان اپنے والدین اور اساتذہ کی قدر کرتے ہیں، ‘ انہیں عزت دیتے ہیں ‘ ،ان کی ڈانٹ ڈپٹ کو دل سے برداشت کرتے ہیں، ‘ اکتسابِ فیض اور احترام کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، ‘ان کی جوتیاں سیدھی کرنے کو اپنے لیے سرمایۂ افتخار سمجھتے ہیں، ان پر جب اپنے یہ بڑے مہربان ہوتے ہیں تو اللہ تعالی ان کی پُرخلوص دعاؤں کی بدولت انہیں بہت مرتبے عطا کرتا ہے۔وہیں کچھ نوجوان نہ اساتذہ کی قدر کرتے ہیں اور نہ ہی والدین کی اور پھر وہ یوں دنیا و آخرت کا خسارہ اپنے سر لیتے ہیں ۔
گوہرِ پاک بباید تا شود قابلِ فیض
ورنہ ہر سنگ و گِلے لؤ لؤ مرجان نشود
کوئی انسان اپنے گھر والوں، رشتہ داروں ‘ ہمسایوں اور دوستوں سے حُسنِ سلوک کرے (جو کہ ہمیشہ آسان نہیں ہوتا ) تعلقات کو نبھانے کے لیے بھی کافی قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور بے شمار رویوں کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ایسے انسان پر اگر کوئی بُرا وقت آئے تو تو بہت سارے لوگوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ہوتی ہیں اور وہیں جو شخص اپنی بد اخلاقی کی وجہ سے اپنے قریبی تعلقات توڑدے تو تو ایسا شخص ہر مشکل کے وقت تنہا ہو کر رہ جاتا ہے اور رسوائی اس کا مقدر ہوتی ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کو کوئی شخص پہلی نظر میں ہی مصر کے تختِ شاہی پر براجمان دیکھتا تو عین ممکن ہے کہ اسے یہ غلط فہمی ہوتی کہ کہ شاید وہ سونے کا چمچ لے کر ہی پیدا ہوئے ہیں ۔مگر انہیں کیا خبر کہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے انہوں نے کتنی محنت کی ہے اور کن کن مشکل وادیوں کو عبور کیا ہے۔والدین سے جدائی ہو یا اپنے بھائیوں کی جفا ‘کھوٹے سکوں کے عوض بیچا جانا ہو یا مشکل ترین ماحول میں اپنی پاکدامنی کو برقرار رکھنا ہو اور جرمِ بے گناہی میں کئی سال کی قید ہو یا دوسرے مراحل ‘ وہ ان تمام مراحل میں سرخ رو ہوئے تب جا کر انہیں یہ کمال حاصل ہوا ۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم جب بھی کسی میں کوئی کمال دیکھیں تو بجائے اس کے کہ ہم ان سے حسد کریں ‘ان کی ہزار خوبیوں کو نظر انداز کرکے ان کی کسی ایک غلطی کو بنیاد بنا کر ان کی ساری شخصیت کو صفر سے ضرب دیں ‘ہمیں چاہیے کہ ان کی قدر کریں اور ان کی خوبیوں کو دل سے تسلیم کرکے اپنی زندگی کو صحیح خطوط پر تعمیر کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں ۔کوئی بہترین تقریر کرتا ہو ‘ اعلی قسم کی تحریریں لکھتا ہو، ‘لوگوں کے دلوں میں بستا ہو ،’ ہر جگہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہو، تو یقین مانیے کہ اس کے پیچھے ان کی کافی محنت ہوگی ۔راتوں رات یہ سعادتیں کسی کے بھی حصے میں نہیں آتیں
تشکیل کو تکمیلِ فن میں ‘ جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے ‘ دو چار برس کی بات نہیں
شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے اپنی کتاب ’پیامِ مشرق ‘ میں ایک بہت عمدہ مصرعہ رقم فرمایا ہے ‘ جس کے متعلق کلامِ اقبال کے مشہور و معروف شارح پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب نے لکھا ہے کہ ’’ بلاشبہ یہ مصرع اس قابل ہے کہ مُلک کے ہر کالج اور ہر اسکول کے ہر کمرے میں جلی قلم سے لکھ کر طلبہ کے سامنے آویزان کیا جائے تاکہ ہر نوجوان (لڑکا اور لڑکی ) ‘ ہر وقت اس نکتہ کو مدِّ نظر رکھے کہ زندگی کے کمالات سے وہی شخص بہرہ ور ہوسکتا ہے ‘ جو ان کمالات کے حصول کے لیے جدوجہد کرے ۔‘‘ (شرح پیامِ مشرق صفحہ 27)
اور وہ مصرع یوں ہے کہ زندگی جہد است ‘ و استحقاق نیست ۔
[email protected]
???????????????????????