بلا شبہ انسانی زندگی تو فقط کھیل تماشا ہے اور انسان پانی کا بُلبُلا ہے۔ زندگی کی فرصت بہت کم ہے اور ہمیشہ کا عذاب یا راحت اسی پر مرتب ہے،اس لئے جب تک انسان کے لئے زندگی کا دروازہ کھلا ہے تب تک وہ اپنی زندگی کو جائز ضروری کاموں میں صرف کرے،محنت و مشقت کا عادی بنےاور ایک مجسمہ کی طرح ہر زاویے سے اپنی زندگی کو خوبصورت بنائےتاکہ موت کے بعد بھی اُسے کوئی ضرر نہ پہنچے۔انسان کو ہرگز یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ اُس کی زندگی وہ بہتا دریا ہے ،جس کے لمحے پانی کی اُن بوندوں کی طرح ہیں جو آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ مگر کچھ لمحے، کچھ احساسات، کچھ ملاقاتیں اور کچھ جذبات ایسے بھی ہوتے ہیں جو دریا کے بہاؤ میں نہیں بہتے بلکہ دل کی گہرائیوں میں محفوظ ہو جاتے ہیںاور ایسے انمٹ نقوش چھوڑتے ہیں جو وقت کے ساتھ ماند نہیں پڑتے بلکہ کبھی خوشبو بن کر دل کو مہکاتے ہیں اور کبھی درد بن کر آنکھوں کو نم کر دیتے ہیں۔گویا یہی وہ لمحے ہیں،جس پر انسانی زندگی پر اچھی یادیں استوار ہوتی ہیں اور محبت و درگذرکی بنیاد قائم رہتی ہے۔ اگر ہم رواداری، معافی اور بے لوث محبت کو اپنی زندگی کا حصّہ بنا لیں، تو نہ صرف ہماری زندگی خوشگوار ہو جائے گی بلکہ ہمارے جانے کے بعد بھی ہماری یادیں دوسروں کے دلوں میں روشنی کی مانند زندہ رہیں گی۔ یادیں صرف ماضی کا حصّہ نہیں ہوتیں بلکہ یہ وہ آئینہ ہیں جس میں ہم اپنی ذات کا حقیقی عکس دیکھ سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے گزاریں، لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کریں اور ایسی یادیں چھوڑ کر جائیں جو ہمیں ہمیشہ کے لیے زندہ رکھیں۔دنیا کی چیزیں فناء ہو جاتی ہیں، لوگ بچھڑ جاتے ہیں، وقت ہاتھ سے پھسل جاتا ہے، مگر یادیں ہماری ذات کا حصّہ بن کر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ یہ وہ اثاثہ ہیں جنہیں کوئی چُرا نہیں سکتا، کوئی مٹا نہیں سکتا۔ اچھی یادیں ہماری روح کو تازگی بخشتی ہیں، زندگی کی تلخیوں میں مٹھاس گھول دیتی ہیں اور ہمارے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ لے آتی ہیں۔ لیکن کچھ یادیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو دل پر بوجھ بن کر رہ جاتی ہیں، جنہیں یاد کر کے آنکھوں میں اداسی تیرنے لگتی ہے، دل کسی انجانے درد میں مبتلا ہو جاتا ہے اور زندگی کے رنگ کچھ دیر کے لیے دُھندلا سے جاتے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ ہم اس تیز رفتار، پریشانیوں سے بھری دنیا میں اچھی یادوں کو کیسے محفوظ کر سکتے ہیں؟ جہاں رنجشیں عام ہیں، جہاں دلوں میں زہر گھل چکا ہے، جہاں تعلقات خود غرضی اور مفاد پرستی کے بوجھ تلے دب چکے ہیں، وہاں خوشگوار یادوں کو کیسے سمیٹا جائے؟ اس کا حل تین الفاظ میں پوشیدہ ہے: معاف کرنا، برداشت کرنا اور توقع نہ کرنا۔ معاف کرنا ایک ایسی صفت ہے جو دل کو زخموں سے آزاد کر دیتی ہے، جو لوگ معاف کرنے کا ہنر جانتے ہیں، وہ زندگی کی تلخیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ معافی دینے والے ہمیشہ ہلکے رہتے ہیں جبکہ دل میں نفرت پالنے والے اپنے ہی بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ معاف کرنا صرف دوسروں پر احسان نہیں بلکہ خود پر بھی کرم ہے۔ معافی کا مطلب ہے اپنے دل کو ناراضگی، غصّے، نفرت اور انتقام کی خواہشات سے آزاد کرناہے۔ جو شخص معاف کرنا سیکھ لیتا ہے، وہ خود کو ایک ایسے قید خانے سے آزاد کر لیتا ہے جہاں تلخ یادوں کے زہر بھرے تیر مسلسل اسے زخمی کر رہے ہوتے ہیں۔برداشت کرنا وہ ہنر ہے جو ہمیں مضبوط بناتا ہے، ہمیں دوسروں کی غلطیوں کو سمجھنے اور قبول کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ اگر ہم لوگوں کی کوتاہیوں کو دل پر نہ لیں، ان کی تلخ باتوں کو درگزر کریں اور اپنے دل کو وسعت دیں، تو زندگی آسان ہو جاتی ہے۔اسی طرح ہر کسی سے توقع نہ رکھنا بھی اہم ہے۔ جب ہم دوسروں سے امیدیں باندھ لیتے ہیں تو مایوسی کا در کھول دیتے ہیں۔ اگر کوئی ہمارے لیے کچھ اچھا کرے، تو یہ ایک تحفہ ہے اور اگر نہ کرے، تو ہمیں شکوہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ جتنی کم توقعات ہوں گی، اتنی ہی زیادہ خوشی ہوگی، اتنی ہی زیادہ اچھی یادیں جنم لیں گی۔ ہمیں خود کو معاف کرنے، دوسروں کو برداشت کرنے اور بے لوث محبت کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے، تاکہ ہماری زندگی کی کتاب میں زیادہ سے زیادہ روشن اور خوشگوار یادیں رقم ہو سکیں۔بدقسمتی سے آج ہم نے محبت کو چھوڑ کر پیسے کو اپنا سب کچھ بنا لیا ہے۔ رشتے ناپید ہو چکے ہیں، تعلقات ضرورتوں تک محدود ہو چکے ہیں اور ہم نفرتوں کا ایسا بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں جو ہماری روح کو بوجھل کر رہا ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آنے والی نسلوں کو ہم کیا دے کر جائیں گے؟