سید مصطفیٰ احمد
اگر اس فانی دنیا کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ زندگی جینا بہت آسان ہے۔ یہ ہم ہی ہے جنہوں نے اس زندگی کو دشوار بنا دیا ہے۔ خواہشات اور موت سے نفرت کی وجہ سے ہم لوگ آئے دن اپنی زندگیوں کو مشکل بنا رہے ہیں۔ ایک مطمئن زندگی گزارنے کے لئے ہمیں کھانے کے ڈھیر اور پیسوں کے انبار نہیں چاہئیں۔ گاڑیوں کی قطاریں بھی درکار نہیں ہیں۔ بس پیٹ بھرنے کے لیے کھانا اور بیماری کے موقع پر دوائیوں کی موجودگی، یہ کچھ دن کی زندگی گزارنے کے لئے کافی ہیں۔ اس بات کا ذکر کس کتاب میں یا یہ بات ہمارے اذہان میں کس نے بٹھا رکھی ہیں کہ جینے کے لئے ان گنت چیزوں کا ہونا ضروری ہیں۔ عقل کا بھی تقاضا ہے کہ جس جگہ پر ہمیشہ کے لیے نہیں رہنا ہے۔ اس جگہ دل لگانا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ یہ خسارے کا سودا ہے۔ دنیا ایک باغ ہے اور ہم بلبل ہیں۔ اس باغ سے حد سے زیادہ پیار کرنے کا کیا فائدہ ہے جب یہ سیر کچھ لمحوں کا کھیل ہیں! اگر کوئی بلبل باغ کی سیر کرنے کے لیے اپنے ساتھ ایسا بھوج اٹھا کے لائے جو اٹھایا بھی نہ جاسکتا ہو تو اس بلبل کی زندگی اس بوجھ کو ڈھونے میں ہی صرف ہوگی اور یہ بلبل خوبصورت باغ کی نزاکتوں سے کھبی بھی لطف اندوز نہ ہوسکے گی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کون سے وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہماری زندگیاں مشکل سے مشکل تر ہورہی ہے۔ ایسے کون سے وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہمارا دم گھٹ رہا ہے۔
پہلی وجہ ہے زندگی کے متعلق محدود یا تنگ نظریہ :۔ ہم نے اس زندگی کو ہمیشہ محدود یا پھر تنگ نگاہوں سے ہی دیکھا ہے۔ کمانا، کھانا، پینا،سونا، خرچ کرنا، وغیرہ ہماری زندگی کا اول اور آخری مقصد بن گیا ہے۔ صرف ایک محور کے اردگرد ہم گھوم رہے ہیں، جس کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں نہ تھمنے والی پریشانیوں نے اپنے ڈھیرے ڈالے ہیں۔ انسان کے دن اور رات اس فکر میں گزرتے ہیں کہ آج کیا ہوگا۔ آج سے بڑھ کر انسان کو اس بات کی فکر کھاتی ہے کہ کل کیا ہوگا۔ اس آج اور کل کر فکریں انسان کی زندگی کو کانٹوں کی سیج بناتی ہیں۔ دوسری وجہ ہے کبر یا اَنّا: ۔ انسان ہمیشہ سے اَنّا کا مریض رہا ہے۔ اس مرض نے انسان کے ہر انگ کو جھوٹی شان اور ناپید غرور سے بھر دیا ہے۔ یہ غرور کبھی بھی ایک آدمی کے لئے سکون کا باعث نہیں ہوسکتا ہے۔ یہی غرور ایک انسان سے دن کا سکون اور رات کا آرام چھین لیتا ہے۔ اس صورتحال میں آرامدہ زندگی گزارنے کا تصور بھی محال ہے۔ تیسری وجہ ہے مادیت پرستی :۔ مادہ بذات خود غلط نہیں ہے۔ اس میں گندگی کا مادہ بھی چھپا نہیں ہے، لیکن انسان کی اندرونی پیاس جو مادیت کو خدا مانتی ہے، اس کو ہر وقت مادیت پرستی کا شراب پینے کے لیے بیتاب رکھتی ہے۔ ہر انسان پاگلوں کی طرح مادیت پرستی کے پیچھے بھاگ رہا ہے کہ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی بس مادیت پرستی کا دوسرا نام ہے۔ اس حال میں سکون کی زندگی گزارنا کہاں ممکن ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اس قسم کی زندگی آسان ہو، ناممکن سا لگتا ہے۔ چوتھی وجہ ہے ایمان کی کمزوری: ۔ پختہ ایمان اور بھروسہ سادگی کی ضمانت ہے۔ جس انسان کا ایمان چٹان کی طرح مضبوط ہوتا ہے، وہ سکون سے جیتا ہے۔ وہ موجودہ نعمتوں پر ہی اکتفا کر لیتا ہے۔ وہ اس نہ دکھائی دینے والی ہستی کی دی ہوئی چیزوں پر ہی مطمئن ہے، اس کو زیادہ کی فکر دامن گیر نہیں ہوتی ہے، وہ چیزوں سے اُٹھ کر اس سکون کا متلاشی بنتا ہےجو کبھی بھی ختم نہیں ہوتا ہے، جس کی بنیاد ہی ابدیت پر مبنی ہے۔
جیسے کہ مضمون کی شروع میں ذکر کیا گیا ہے کہ زندگی جینا بہت آسان ہے۔ اگر ہم چاہیںکہ ہم بھی ایک پر سکون زندگی گزارے تو ہمیں کچھ اصولوں پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں جو چیز سب سے زیادہ رول ادا کرتی ہے وہ ہے اطمینانِ قلب۔ جس انسان کے قلب میں اطمینان آیا، اس کی ساری زندگی اطمینان کی ایک نفیس شکل پیش کرتی ہے۔ قلب کے اندر اٹھنے والی لہروں پر جب اطمینان کا جہاز تیرنے لگتا ہے تو پھر خوفناک لہروں کا خوف بھی زائل ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ مادیت کی پاگل دوڑ سے ایک انسان کو الگ کرنے کی بھرپور کوششیں کرنی چاہئے۔ اتنا ہی کمانا اور خرچ کرنا چاہیے جو اس زندگی میں درکار ہو۔ اگر انسان صرف مادیت پرستی کی دوڑ میں دوڑتا رہے گا، تو وہ کبھی بھی منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکے گا، اور جاتے جاتے ایک انسان اپنے من میں ڈوب کر صحیح اور پرسکون زندگی گزارنے کا راز ڈھونڈ سکتا ہے۔ کچھ وقت پہلے میں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھا تھا، اس میں ایک آفاقی اصول کی بات کی گئی تھی۔ اس میں ایک آدمی اپنے آپ کو پہچاننے کے متعلق لکھتا ہے کہ کیسے وہ کل تک سکون کی تلاش میں دربدر پھرتا تھا، ایک گلی سے دوسری گلی میں جانا اس کا معمول تھا۔ لیکن ایک دن اس کی ملاقات خود سے ہوئی تو سارے پریشانیوں کا حل نکل گیا۔ وہ جس سکون کی تلاش میں اِدھر سے اُدھر پاگلوں کی طرح بھٹکتا رہا، وہ اصل میں اس کے اندر ہی ہیرے کی طرح چھپا تھا۔ اُس وقت ہر دُھند ایک ملائم دھوپ کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے ختم ہوئی اور وہ سکون کی انتہا تک پہنچ گیا۔ تو اُس پوسٹ میں ہم سب کے لئے نصیحتیں پنہاں ہیں جو ہمارے نجات کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے، جو راہ سے نہ بھٹکے، وہ راہ کو کیسے پائے گا! کبھی حقیقت کو پانے کے لیے جھوٹ سے دوستی کرنی پڑتی ہے۔ جو بےقراری کے اَدوار سے نہ گزرے، وہ قرار کی قیمت کیا جانے۔ اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ بےسکونی کی نیند سے جاگ کر سکون کا سویرا تلاش کریں، پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ تھی۔
) حاجی باغ، بمنہ، سرینگر رابطہ۔9103916455)