تسلیم اشرف
زمین اپنی جز ترکیبی کے حوا لے سے اوپر سے نیچے تک ایک جیسی نہیں ہے اور نہ ہی نیچے سے اوپر تک یہ ایک ہی کرہ (Sphere) یا تہہ (Layer) پر مشتمل ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ زمین کئی کروں پر مشتمل ہے پھر یہ کہ زمین کا سینٹر ’’مرکز‘‘ مائع تا نیم مائع حالت میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
اس اہم سائنسی حقیقت تک پہنچنے و الا ’’اٹلی‘‘ کا رہنے و الا دنیا کا ایک عظیم سائنس دان ’’حکیم میثاغورث‘‘ تھا ،جس نے پہلی مرتبہ سائنسی شاہوں اور شواہد سے اس پوشیدہ حقیقت کا اظہار اس وقت کیا جب اس نے اٹلی کی سرزمین پر نپلز (Naples) کے نزدیک ویسوئیس (Vesuvius) نامی آتش فشاں کے ذریعہ زمین کے اندر سے آنے والے محاصل (Products) کا بغور مشاہدہ اور تجزیہ کیا اور ساتھ ہی فلک سے گرنے والے ’’شہاب ثاقب‘‘ سے پیدا ہونے والے گڑھوں (erater) سے حاصل شدہ نمونوںکی جز ترکیبی کا درست کھوج لگایا ۔
اس کے اس نظریے کو فوری طور پر تو مقبولیت حاصل نہیں ہوئی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب فکر و عمل نے ترقی کی منازل طے کیں تو یہ بات حتمی طور پر تسلیم کی جانے لگی کہ حقیقت میں زمین اندر اور باہر سے مختلف کروں پر مشتمل ہے جو طبعی ساخت اور کیمیائی جز ترکیبی کے اعتبار سے یکسر مختلف قدرتی تخلیقی ماحول سے تعلق رکھتا ہے۔
یہ کئی کروں پر مشتمل ہے اور اس کا ’’مرکز‘‘ مائع تا نیم مائع حالت میں تبدیل ہوتا رہتا ہے
زمین کے بیرونی کروں یعنی فضا اور فضا بسیط اور سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں سائنس اور اہل سائنس نے ان معلومات کو وسعت دینے کے لیے اپنی جستجو کا آغاز تو صنعتی انقلاب سے بہت پہلے کردیاتھا ،جس کی روشنی میں آج کے جدید سائنس دانوں نے اپنی تحقیق کی چادر کو چاند اور مریخ کی سطح پر بھی پھیلا دیا ہے۔ پھر یہ کہ زمین کی سطح پر بھی کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے۔ جہاں سائنس دانوں کے قدم براہ راست نہ پہنچے ہوں۔
ہاں البتہ زمین کے اندر عمیق گہرائی میں بنی نوع انسان کے قدم براہ راست نہ پہنچے ہیں اور نہ کبھی پہنچ سکتے ہیں ،جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہےکہ زمین کا قطر تقریباً آٹھ ہزار میل ہے لیکن اب تک انسان نے زمین میں جو گہرے سوراخ یا برماکاری (Drilling) کی ہے۔ وہ تقریباً چار میل سے زیادہ گہرا نہیں ہے،وہ بھی اس اُمید پر کہ زمین کے اندر چھپی ہوئی دولت مثلاً تیل و گیس اور دیگر قدرتی وسائل ہاتھ آسکے اور اس میں بڑی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کےیہ قدرتی خزانے صرف اور صرف اسی گہرائی تک محدود ہے ورنہ اس کے نیچے اتھاہ گہرائی میں صرف آگ ہی آگ یا پھر گرم آبی محلول ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدائی سائنسی ادوار میں محققین نے بالواسطہ ذرائع اور مشاہدوں کے ذریعہ زمین کے اندر کی معلومات بڑی حد تک معلوم کرلی ہیں جسے جدید سائنسی علوم کی دریافت نے دوچند کردیا۔ اس سلسلے میں ابتدائی معلومات یہ سامنے آئی کہ زمین کے اندر کم گہرائی میں جو کرہ موجود ہے وہ کم کثیف ہے۔ اس کی کثافت 3.00معلوم کی گئی ہے، کیوں کہ اس میں ہلکے کیمیائی عناصر موجود ہوتے ہیں ۔مثلاً پوٹاشیم، سوڈیم اور سیلیکا جب کہ گہرائی میں بتدریج اضافے کے ساتھ ثقیل مادّوں کی مقدار زیادہ پائی جاتی ہے، جس کی کثافت تقریباً 5.5 معلوم کی گئی ہے ،کیوں کہ اس میں بھاری عناصر مثلاً لوہا، میگنیشم، نکل کی مقدر زیادہ ہوتی ہے۔
زمین کے اندرونی ماحول سے منسلک ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے کہ تقریباً ہر 50 فیٹ نیچے جانے پر ایک مربع ڈگری سینٹی گریڈ حرارت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ زمین کے اندر اپنی تخلیقی حرارت ہوتی ہے، جس میں تابکار عناصر (Radiation Element) کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ یہ ارضی تپش حرارت کہلاتی ہیں ،جس کی وجہ سےزمین کا سینٹر پگھلتا رہتا ہے۔ اس کی تصدیق اس وقت ہوجاتی ہے جب گرم ارضی محلول آگ اور خاک کی شکل میں ’’عمل آتش گیری‘‘ کے ذریعہ سطًح زمین پر کھلی فضا میں اُبل پڑتا ہے۔
زمین کے اندر بڑھتی ہوئی حرارت کی شدت کا اندازہ اس وقت بھی لگایا جاسکتا ہے جب کسی زیر زمین کوئلہ یا کسی معدن کی کان (mine) میں جانے کا اتفاق ہو۔ اس قسم کے کالی یا سرنگ میں اوپر کے مقابلے میں اندرونی جانب ماحول انتہائی گرم ہوتا ہے اور تپش اس قدر شدید نوعیت کی ہوتی ہے کہ کان کنوں کو کان کنی کے دوران بڑی دقت پیش آتی ہے۔ زمین کی اندرونی کیفیت کی صدات کے حوالے سے ’’شہاب ثاقب‘‘ کو بھی اہمیت حاصل ہے ،کیوں کہ مختلف قسم کے شہابیوں کے نمونوں کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہےکہ اس قسم کے شہابیوں کا قلب (سینٹر) ثقیل عناصر مثلاً لوہا، نکل وغیرہ پر مشتمل پایا گیا ہے۔
زمین بھی چونکہ شہاب ثاقب کی طرح ایک فلکی جسم ہے، اسی و جہ سے اس کا بھی مرکزہ ثقیل دھاتوں پر مشتمل پایا گیا ہے۔ چناں چہ جب بنی نوع انسان سائنسی شعور کی جدید منزل پر پہنچ گیا اور یہ صلاحیت حاصل کرلی کہ زمین کے اندر کی قدیم اعدادوشمار اور تحقیق کو زیادہ بہتر، جامع اور جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کرسکتے تو پھر دنیا نے یہ دیکھا کہ سائنسی اُفق پر ایک منفرد ’’علم و ہنر‘‘ ابھر کر سامنے آیا ہے علم زلزلہ یا زلزلیات(Seismology) کے نام سے روشناس کیا گیا۔ اس علم میں زلزلےاور اس سے پیدا ہونے والی لہروں کا مطالعہ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ زلزلے کے دوران عام طور پر کئی طرح کی لہریں پیدا ہوتی ہیں لیکن ان میں سے دو اہم ہیں یعنی ابتدائی لہریں Primary waves اور ثانوی لہریں Secondary wavesجو زلزلہ آنے کے فوراً بعد زمین کے اندر پھیل جاتی ہے۔
حتٰی کہ انتہائی نچلے حصے بھی ان کی زد میں آئے بغیر نہیں رہتے۔یہی لہریں زمین کے اوپر آکر اندر بالاواسطہ معلومات فراہم کرتی ہیں۔دور حاضر میں اس مقصدکے لئے مصنوعی زلزلی لہریں پیدا کی جارہی ہیں ،تاکہ حسب منشا معلومات حاصل کی جاسکے۔ ایسا کرنے کے لئے زمین کی سطح پر 5 سے 8 فیٹ گہرائی کے بعد دھماکہ خیز مادّہ مثلا ’’ڈائینامائٹ‘‘ کے ذریعہ مصنوعی زلزلی لہریں پیدا کی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے اسے ’’زلزلی طریقہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ مصنوعی پیدا کردہ لہریں (ابتدائی و ثانوی) زمین کو عمیق گہرائی میں سفر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن ابتدائی لہریں ثانوی لہروں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے سفر کرتی ہیں اور ٹھوس مائع اور گیس جیسے واسطوں سے گزرنے کی اہلیت رکھتے ہیں جب کہ ثانوی لہریں ایسا نہیں کرسکتیں یہ صرف ٹھوس اجسام سے گزرنے کی اہل ہوتی ہیں۔
دونوں قسم کی لہروں کی رفتار زمین کی گہرائی کےساتھ مختلف ہوتی ہیں یہ جب زمین کے اندر مختلف واسطوں کے چٹانی کروں سے گزرتی ہیں تو کثافت کی بنیاد پر ان کا رویہ مختلف ہوتا ہے اور جب زمین کی سطح پر واپس آتی ہیں تو انعکاس (Reflection) اور انعطاف (Refraction) کے ماتحت ہوتی ہیں جنہیں ایک حساس آلہ کے ذریعہ ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ اس آلہ کو زلزلہ نگار (seismograph) اور اس پر نمودار ہونے والے پروفائل کو زلزلہ نوشت (seismogram) کہتے ہیں ،اس آلہ پر نقش ہونے والی معلومات سے ابتدائی اور ثانوی لہروں کی رفتار اور رویوں سے اس بات کا مطالعہ کیا جاتا ہے کہ ان لہروں نے نقطہ آغاز سے اب تک کتنا فاصلہ طے کیا ہے، کتنی گہرائی سے یہ لہریں منعکس ہوئیں اور ان کا وضع تبدیل ہوا اور کتنے وقت میں ان لہروں نے اپنا سفر طے کیا۔
چناں چہ جہد مسلسل سے علم زلزلہ (زلزلیات) کو اس وقت بھرپور توجہ حاصل ہوئی جب 1910ءمیں جرمن سائنس دان (ویگنر) کا پیش کردہ مفروضہ زیر زمین براعظمی سرکائو (Continental drift) کو 1960ء کے عشرے میں زلزلیاتی اعداد وشمارکی بنیاد پر اسے حقیقت سے بہت قریب کردیا اور پھر 1970ء میں اس انقلاب آفرین مفروضے کو ’’تھیوری‘‘ کے درجے پر فائز کرکے اس کا نام ’’متحرک پلیٹس‘‘ یا ’’پلیٹ ٹیکٹونکس‘‘ رکھ دیا گیا ،کیوں کہ اس سائنسی انکشاف سے زمین کے اندر موجود چٹانی کروں کی طبعی اور کیمیائی خصوصیات واضح ہونے لگی تھی جہاں تک زمین کے اندر موجود طبعی کروں یا تہوں کا تعلق ہے تو یہ معلومات اب مستندہوگئی ہے کہ زمین کی اندرونی ساخت کا وہ حصہ جو سطح زمین سے 100؍ کلومیٹر کی گہرائی تک موجود ہے وہ ٹھوس سخت اور شکستہ ہونے کے ساتھ کم کثافت کی حامل معادنی گروہ پر مشتمل ہیں۔(جاری)