مشتاق الاسلام
پلوامہ//زعفران کے بیچ کی بیرون ملک سمگلنگ اور قیمتوں میں غیر معمولی اضافے نے پانپور اور اس کے گردونواح کے زمینداروں کی کمر توڑ دی ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ زعفران کے بیچ کی قیمت فی کوئنٹل ایک لاکھ روپے تک جا پہنچی ہے، جبکہ لتہ پورہ، چندہارہ، سانبورہ اور آلوچی باغ جیسے علاقوں میں زمیندار بڑی محنت سے بیچ نکالتے ہیں، لیکن یہ بیچ راتوں رات پراسرار طور پر غائب ہوجاتے ہیں، جس سے کسانوں میں شدید بے چینی اور غصہ پایا جاتا ہے۔زمینداروں کے مطابق یہ صورتحال ان کے معاشی استحصال کی کھلی مثال ہے۔ نیشنل زعفران مشن کے تحت فی کنال کے حساب سے کسانوں کو 28 ہزار روپے فراہم کئے جارہے ہیں، لیکن جب بیچ کی قیمت ایک لاکھ روپے تک جا پہنچی ہے تو یہ معمولی سبسڈی کسانوں کے لیے کسی کام کی نہیں رہی۔ کسانوں نے کہا ہے کہ “جب بیچ ہی خریدنے کے قابل نہ ہو تو 28 ہزار روپے کی سبسڈی کس کام کی؟”۔زمینداروں نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر حکومت اور محکمہ زراعت واقعی کسانوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو صرف رقم دینے کے بجائے زعفران کے بیچ کی قیمت کو کنٹرول کرنے کیلئے موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ کسانوں نے کہا کہ بیچ کی قیمت میں اضافہ براہِ راست زعفران کی پیداوار کو متاثر کررہا ہے، اور اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو صدیوں پرانی زعفران کی صنعت ختم ہوکر رہ جائے گی۔مقامی کسانوں کا کہنا ہے کہ محکمہ زراعت اور انفورسمنٹ ایجنسیاں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، جبکہ بیچ کی اسمگلنگ کرنے والا مافیا سرگرم عمل ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر بروقت کارروائی نہ کی گئی تو کشمیر کی پہچان کہلانے والی زعفران کی کھیتی تاریخ کا حصہ بن سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہبیچ کی غیر قانونی اسمگلنگ میں ملوث مافیا کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔