مشتاق الاسلام
پلوامہ//کبھی خزاں کے آغاز پر پانپور کی فضائوں میں زعفران کی مہک رچی بسی ہوتی تھی۔ کھیت سنہری چادر اوڑھ لیتے، پہاڑوں سے اترتی نرم دھوپ میں پھول مسکراتے اور ہوا میں خوشبو کے جھونکے لہلہاتے۔ اگست اور ستمبر میں تو یہ زمین دلہن کی طرح سجائی جاتی تھی۔ہرخالی قطعے میں نئے بیج بوئے جاتے اور کسانوں کے چہرے امید کے رنگوں سے بھر جاتے۔ وہ دن گئے جب اکتوبر اور نومبر میں کھیت زعفرانی رنگ سے نہاتے تھے۔آج وہاں صرف خاموشی اور بنجر مٹی ہے۔مسلسل کئی برسوں کی خشک سالی نے زمین کی روح نچوڑ لی ہے، زیرِ زمین بیج سڑچکے ہیں اور جو باقی بچے تھے وہ زمین کے چوہوں نے چاٹ لئے۔بیج کی قیمت 50 سے 60 ہزار روپے فی کوئنٹل تک پہنچ گئی ہے، 80 فیصد کھیت ویران ہیں اور کسان بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔اس بار زعفران کے بیج کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ بیچ کی اس ریکارڈ مہنگائی نے کاشتکاروں کو معاشی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ زیادہ تر کسان بیج خریدنے کی سکت نہیں رکھتے جس کے باعث انہوں نے زعفران کی کاشت ترک کر دی ہے۔عبدالرشید بٹ نامی ایک بزرگ کسان نے کہا’’یہ پیشہ ہمارے باپ دادا سے وراثت میں ملا، مگر آج بیج کی مہنگائی اور حکومتی عدم توجہی نے ہمیں زمین خالی چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے‘‘۔وہ دن گئے جب اکتوبر اور نومبر میں پانپور کے کھیت زعفرانی رنگ میں رنگے جاتے تھے، آج یہاں ویرانی اور خاموشی ہے۔گزشتہ کئی برس کی مسلسل خشک سالی نے زمین کو اس قدر خشک کر دیا ہے کہ زیرِ زمین موجود بیج گل سڑ گئے ہیں۔ جو تھوڑی بہت فصل بچی، وہ زمین میں موجود چوہوں کی نذر ہو گئی۔ کسان کہتے ہیں کہ اگر بروقت آبپاشی اور جدید ڈرپ سسٹم فراہم نہ کیا گیا تو زعفران کی زمینیں ہمیشہ کیلئے بنجر ہو جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ نیشنل زعفران مشن کے تحت 2008میں مرکزی حکومت نے زعفران کی کاشت کے فروغ کیلئے 44ارب روپے مختص کیے تھے اور 30بورویل تعمیر کرکے ڈرپ اریگیشن سسٹم لگانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن کسانوں کا دعویٰ ہے کہ آج پورے علاقے میں
ایک بھی بورویل کارآمد حالت میں نہیں ہے۔مقامی زمیندار اس منصوبے کی ناکامی اور مبینہ بدعنوانی پر شدید تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔زرعی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری طور پر بیج کی قیمت کم کرنے، سبسڈی دینے اور مثر آبپاشی نظام فراہم کرنے جیسے اقدامات نہ کیے گئے تو ’زعفران زار‘کا لقب صرف کتابوں اور قصوں تک محدود رہ جائے گا۔