جموں //اراکین قانون سازیہ نے حکومت کومشورہ دیا ہے کہ وہ زرعی اراضی پر تعمیر وترقی پر روک لگا نے کے اقدامات کرے تاکہ ریاست کی معیشت کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکے ۔ زراعت کے وزیر غلام نبی ہانجورہ نے ایوان میں جمعہ کو اپنے ماتحت محکمہ کے مطالبات زر پیش کئے جس میں حزب اختلاف وحزب اقتدار کے ممبران اسمبلی نے بحث میں حصہ لیا اور مقامی چاول ، مکی، راجماش اور مشروم کی پیداوار بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ۔ممبر اسمبلی خانصاحب حکیم محمد یاسین نے ریاست میں ہنگامی بنیادوں پر ایک جامع( لینڈ یوز) پالیسی لاگو کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تاکہ بچھی کھچی زرعی اراضی کو زرعی مقاصد کیلئے بچایا جا سکے ۔انہوں نے زرعی اراضی کو تعمیری مقاصد کیلئے تبدیل کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب ریاست میں ایک جامع لینڈ یوز پالیسی لاگو نہیں کی جاتی تب تک ریاست بدستور گوشت ،پولٹری ،چاول اور اشیا ء خوردنی کی ضرورت پورا کرنے کیلئے دوسری ریاستوں کی محتاج بنے رہے گی ۔انہوں نے کہا کہ صرف بڈگام میں ہی 500کے قریب اینٹ کے بھٹے زرعی زمین پر لگائے گئے ہیں جو قابل تشویش ہیں ۔انہوں نے زرعی اراضی پر لگائے گئے اینٹ کے بٹھوں کو فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کیا تاکہ وہاں زرعی سرگرمیوں کو بڑھاوا دیا جا سکے ۔انہوں نے کہا کہ ریاستی اقتصادیات کا ترجیحی شعبہ ہونے کے باوجود بھی اس کو بجٹ میں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ۔ ممبر اسمبلی بانہال وقار رسول نے کہا کہ اگر کوئی کسان اب زراعت پر دارو مدار رکھے گا وہ بھوکا مرے گاکیونکہ اس شعبہ کو تباہ وبرباد کیا جا رہا ہے۔وقار نے کہا کہ اس سے قبل ایک بڑی آبادی کا دارومدار زراعت پر تھا اوراس شعبے سے لوگ اپنا روزگار کماتے تھے لیکن اب حالات ایسے ہیں کہ سرکار کی غلط پالیسوں کی وجہ سے یہ شعبہ تباہ وبرباد ہو رہا ہے اس لئے اگر کوئی اس شعبے پربھروسہ کرے گاتو وہ بھوکاہی مرے گا ۔وقار نے بانہال اسمبلی حلقہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں سے سب سے زیاہ مشروم اور راجماش کی پیداوار ہوسکتی تھی لیکن بدقسمتی سے اس جانب کوئی دھیان نہیں دیاجارہا۔ممبر اسمبلی اندروال جی ایم سروڑی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ 80فیصد لوگ دیہات میں رہتے ہیںاور اگر اُن کا گزربسرزراعت پر ہے تو اُس کی جانب دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہاں ہر کھیت کو پانی فراہم کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن لوگوں کو پینے کیلئے بھی پانی نہیں ملتا ۔سروڑی نے کہا کہ پرانے ضلع ڈوڈہ میں اگر اس وقت کوئی فصل سب سے زیادہ پیدا ہوتی ہے وہ ا ن کے علاقے میں ہوتی ہے اور وہاں پر مکی کی تین اقسام اگائی جاتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ا ن کے علاقے سے ہر سال3کروڑ کی راجماش پیدا ہوتی ہے اورمشروم اوربن کھوڑ بھی بڑے پیمانے پرپیدا کیا جا سکتا ہے ۔ممبر اسمبلی کرناہ ایڈووکیٹ راجہ منظور نے کہا کہ زرعی اراضی کی تعمیر پر پابندی عائد کی جانی چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ کرناہ تحصیل میں زیتون اور لال چاول کی پیداوار کے امکانات پیدا کئے جا سکتے ہیں کیونکہ کرناہ میں پیدا ہونے والے لال چاول پوری وادی میں مشہور ہیں اور اُن کی ترقی کیلئے سرکار کو زمینی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ممبر اسمبلی کرگل اصغر علیٰ کربلائی نے زرعی اراضی کو ناجائز قبضہ سے بچانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کرگل کی راجماش کافی مشہور ہے اور اس کی ترقی کیلئے سرکار کو کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ممبر اسمبلی عیدگاہ مبارک گل نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی سے جو بھی نئی تکنیک سامنے آتی ہیں، اُسے یونیورسٹی کے اندر ہی چھپا کررکھا جاتا ہے جسے باہر نکالنے کی ضرورت ہے ۔ ممبر اسمبلی کپوارہ بشیر احمد ڈار نے کہا کہ ہمارا دارومدار کب تک سرکاری چاول پر رہے گا اورہمیں مقامی چاول کی پیداوار کی طرف بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کسانوں کو نئی ٹیکنالوجی کی طرف راغب کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔