سرینگر //ریاست میں زرعی شعبے کو معیشت کیلئے ریڈ کی ہڈی قرار دئے جانے کے علی الرغم خوراک و رسدات کا شعبہ رو افزوں بیرون ریاستوں پر منحصر ہورہا ہے ۔ زیادہ تر اناج اورغلہ بیرون ریاست سے ہی حاصل کیا جاتا ہے جو یہاں کے شعبہ زراعت کو بڑھاوادینے کے سرکاری دعوئوں کی قلعی کھول کر رکھ دیتا ہے ۔سرکاری اعداد وشمار کو ہی اگر دیکھاجائے تو اس اہم اور ترجیحی شعبے کی حالت سامنے آتی ہے ۔ پچھلے 4 برسوں کے دوران بیرون ریاست سے 2129.55ہزار میٹرک ٹن چاول اور 862.39ہزار میٹرک ٹن گندم درآمد کیا گیا۔ ریاستی سرکار نے کہا ہے کہ ریاست کواناج کی جتنی ضرورت ہے اتنی ریاست پورا نہیں کر سکتی جبکہ ریاست کے اگریکلچر شعبہ کو بڑے چیلنجوں کا سامنا بھی ہے اور اسی لئے ریاست کو بیرون ریاست پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔سرکار نے بتایا کہ اناج کی کمی کو پورا کرنے کیلئے باہر سے اناج درآمد کیا جاتا ہے اور اس سے لوگوں تک راشن پہنچایا جاتا ہے ۔ اقتصادی سروے رپورٹ میں سرکار نے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی سرکار نے گذشتہ چار برسوں میں 2129.55ہزار میٹرک ٹن چاول اور 862.39ہزار میٹرک ٹن گندم درآمد کی ہے۔ مفتی محمد سعید انٹائٹل منٹ سکیم جو جولائی2016سے ریاست میں لاگو کی گئی ہے، کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس کے تحت مالی سال2016.17میں 952.55ہزار میٹرک ٹن اناج خریداگیا جو مالی سال2015.16کے مقابلے میں 26.02فیصد زیادہ ہے ۔اس سکیم کے اطلاق سے ریاستی سرکار کو درآمد میں اضافہ کرنا پڑا کیونکہ سکیم کے بڑھ جانے سے صارفین کو اضافی اناج فراہم کیا گیا ہے ۔حکومت نے اعداد وشمار پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست میں سال2014.15میں 533.17چاول ہزار میٹرک ٹن اور 223.63گندم میٹرک ٹن خریدی گئی ۔مالی سال2015.16میں 532.50 میٹرک ٹن چاول اور 223.35 میٹرک ٹن گندم درآمد کیا گیا ۔مالی سال 2016.17میں چاول 680.11 ہزار میٹرک ٹن اور گندم 272.44ہزار میٹرک ٹن درآمد کیا گیا۔ اسی طرح مالی سال 2017.18میں اکتوبر تک383.77میٹرک ٹن چاول اور 142.97گندم درآمد کیا گیا ہے ۔زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ وادی میں گذشتہ 40برسوں سے زرعی اراضی کا بڑے پیمانے تعمیراتی مقاصد کیلئے استعمال شروع ہوا ۔ اسکے علاوہ زرعی اراضی کو میوہ باغات میں تبدیل کردیا گیا جس کے نتیجے میں پاول اور گندم کی گھریلو پیدوارختم ہوتی گی اور اہل وادی کو بیرون ریاست پنجاب یا پھر ہریانہ سے چاول اور گندم در آمد کرنا پڑا۔