بارہمولہ //’’وہ 9 ستمبر2016کا قیامت خیز منظر مجھے آج بھی یاد ہے جب میری دنیا اُجڑ گئی ،نا مساعد حالات میںجب سب مائوں کو اپنے اپنے جگر کے ٹکڑوں کی سلامتی کی فکر ستائے رہتی تھی،میں بھی اپنے معصوم بچے11سالہ فہیم کو ڈھونڈنے کیلئے نکل پڑی ، ڈھونڈتے ڈھونڈتے نزدیکی گائوں ہیون پہنچ گئی، اسی دوران وہاں احتجاجی جلوس برآمد ہوا اور فورسز نے جلوس کو روکنے کی کوشش کی اسکے بعد مظاہرین اور فورسز کے درمیان جھڑپو ں کا سلسلہ شروع ہو ا، فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے شلنگ کی اور پیلٹ چلائے جس کے نتیجے میں درجنو ں افراد زخمی ہوئے جبکہ فورسز نے مجھ کو بھی پیلٹ کا نشانہ بنایا، جس میں میرا جسم چھلنی ہو گیا اور کچھ پیلٹ میری دونوںآنکھوں میں بھی پیوست ہوگئے، جس سے میری بائیں آنکھ کی بصارت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چلی گئی اور دائیں آنکھ کی روشنی بھی اس قدر متاثر ہوئی کہ بڑی مشکل سے کوئی چیز نظر آتی ہے ،مجھ پر یہ پہلاستم پہلا نہیں تھا کہ سہہ پاتی، میرے شوہر نے اس سے پانچ ماہ قبل مجھے طلاق دے کر مجھ سے اور میرے بچے سے کنارہ کشی کی جسے میرے دکھوں کی داستان اور بھی لمبی ہوچکی ہے‘‘ ۔یہ داستان غم 30 سالہ شکیلہ بیگم ساکن فتح گڈھ بارہمولہ روتے روتے بیان کررہی تھی ۔اپنے بچے کو بچانے کی تگ دو د میںاُس نے وہ روشنی کھو دی جس سے اُس کے بچے کا مستقبل سنوارنے کے امکانات تھے ۔شکیلہ بیگم نے اپنی آنکھوں کا علاج کرانے کیلئے اپنے بھائی فاروق احمد شیخ ، جس کے گھر میں وہ اس وقت زندگی کی یہ تاریک شامیں گذار رہی ہیں، کی مدد طلب کی اور اس کے ماموں نے بھی کچھ امداد کرکے اسے پہلے یہاں پر قائم کئی اسپتالوں میں علاج کروایا لیکن جب یہاں بھی مایوسی ہاتھ آئی تو اسے امرتسرلے گئے ۔وہاں ڈکٹروں نے لاکھوں روپے علاج کے عوض طلب کئے جس کے بعد اس لاچار اور بے بس خاتون نے ڈاکٹروں کی شرطیں مان کر آنکھوں کی سرجری کروائی ۔شکیلہ کے مطابق لمبی مسافت طے کرنے اورڈیڑ ھ لاکھ روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی اس کی بینائی نہیں لوٹ سکی ۔جس کے بعد اُ س کو دوبارہ صدر اسپتال میں علاج و معالجہ کیلئے داخل کیا گیا ۔اگر چہ اس دوران ڈاکٹروں نے شکیلہ کی آنکھوں کی بینائی لوٹانے کیلئے بہت کوششیں کیں لیکن وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کی کوششیں بھی بے سود ثابت ہوئیں۔ڈاکٹروںکے مطابق شکیلہ کی بائیں آنکھ اب کبھی بھی اس دنیا کے مناظر دیکھ نہیں پائے گی جبکہ اس کی دوسری آنکھ بھی بر ی طرح متاثر ہو چکی ہے ۔شکیلہ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سرکاری سطح پر آج تک اس کی کوئی امداد نہیں ملی ہے بلکہ اس وقت وہ بیٹے کیساتھ اپنے بھائی کے رحم و کرم پر یہ کٹھن لمحات گزار رہی ہے ۔