زخم تب اور اَب افسانہ

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
اُس کا اصل نام سلامت علی بابا تھا۔بابا اُس کے نام کے ساتھ بچپن میں اُس کے والدین نے پیار دُلار میں یونہی جوڑ دیا تھا ۔اب وہ سلامت بابا کے نام سے ہی کافی مشہور ومعروف ہوگیا تھا۔وہ ایک قابل،خدادوست اور حق پرست وکیل تھا۔دُور دُور تک اُس کی وکالت کے چرچے عام تھے ۔وہ دیہاتی ماحول میں پلا بڑھا تھا۔اُس کی پیدائش ،ابتدائی تعلیم وتربیت فلک بوس پہاڑوں کے دامن میں ہوئی تھی لیکن اُسے دیہاتی ماحول سے شہری ماحول میں آئے تقریباً بیس سال ہوگئے تھے۔اُسے جب کبھی دیہات میں گزارے اپنے بچپن ،لڑکپن اور جوانی کے دن یاد آتے تو وہ یہ تمنّا کرنے لگتا کہ کاش ! اُس کے پنکھ ہوتے تو وہ ایک پنچھی کی طرح اُڑان بھر کے اپنی جائے پیدائش اور اُن جگہوں کو دیکھ آتا جہاں جہاں وہ بچپن میں گھوما کرتا تھا۔وہ کھیتوں میں اپنے چچا کے ساتھ ہل جوتنے میں اُن کی مدد کرتا تھا۔جنگل کی کُھلی فضا میں جب وہ سانس لیتا تو طرح طرح کے پیڑوں ،جڑی بوٹیوں ،ٹھنڈے میٹھے پانیوں اور مختلف پرندوں کی چہچہاہٹ سے لطف اندوز ہوتا تھا۔اُسے بہت بھوک لگتی تھی ۔وہ آرام کی نیند سوتا تھا ۔اُس کا جسمانی وروحانی نظام بہت ہی چست دُرست ہواکرتا تھا ۔اُسے دیہات میں رہتے ہوئے خالص دیسی گھی،برف کی مانند شہد تر وتازہ سبزیاں اور پھل کھانے کو ملتے تھے ۔دیہات اور دیہاتی لوگوں سے جُڑی کئی یادیں آج بھی اُسے بے تاب کردیتی تھیں ۔اُسے جب کبھی بخار اور زکام کی شکایت محسوس ہوتی تو اُس کی امّاں بنفشی پھول ،ادرک،سبز الاچی اور دار چینی کا قہوہ بناکر دیتی ۔وہ اُسے پیتا اور اونی کمبل اوڑھ کر سوجاتا ۔اُس کا زکام وبخار دھیرے دھیرے اُتر جاتا ۔وہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ۔ایک بار جب اُس کی امّاں نے اُسے بار بار کھانسی کرتے دیکھا تو اپنے پاس بلاکر ایک چھوٹی سی لکڑی کی ڈبیا سے ملہٹھی کی ٹکڑی پکڑاتے ہوئے کہا تھا
’’پُتر ! اسے منہ میں رکھ کر اچھی طرح چبالے ۔کھانسی میں کمی آئے گی‘‘
اُس نے ملہٹھی کی بہت چھوٹی سی ٹکڑی منہ میں رکھ کر چبانا شروع کی تھی ۔دو گھنٹے کے بعد اُس کے وجود سے کھانسی رُخصت ہوگئی تھی ۔اُسے راحت محسوس ہوئی تھی۔ایک بار میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے کچھ ہی دن بعد جب سلامت بابا کو رسوئی میں اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتے ہوئے اُس کے ہاتھ سے چُھری گر کر اُس کے پیر پر پڑی تھی تو خون کی ٹنڈیری بہنا شروع ہوئی تھی ۔سلامت بابا نے فوراً اُس جگہ پہ اپنا ہاتھ زور سے رکھ دیا تھا۔وقتی طور پر خون بہنا بند ہوگیا تھا۔اُس کی امّاں کو یوں محسوس ہوا تھا کہ جیسے چھُری اُس کی اپنی چھاتی پہ لگی ہو ۔تب اُس نے سلامت بابا کو کہا تھا
’’بیٹے! گھر کے پچھواڑے میں جاکر فوراً اس زخم پر پیشاب کردے ۔کوئی بھی جراثیم اس میں داخل نہیں ہوگا‘‘
سلامت بابا نے آؤ دیکھا تھا نہ تاؤ،اُس نے گھر کے پچھواڑے میں جاکے زخم خوردہ جگہ پر پیشاب کردیا تھا ۔خون بہنا بند ہوگیا تھا۔وہ واپس رسوئی میں آگیا تھا۔اُس کی امّاں نے اُس کے زخم پر پہلے ہلدی اور بعد میں سرسوں کا تیل ڈال دیا تھا ۔سلامت بابا کو زخم پہ جلن سی محسوس ہوئی تھی ۔وہ درد سے بلبلا اُٹھا تھا لیکن کچھ ہی وقت کے بعد اُس کے درد اور جلن میں کمی آگئی تھی ۔پھر اُس کی امّاں نے سُوتی کپڑے کی دوتین ٹاکیوں سے اُس کے پیر کو باندھ دیا تھا اور کہا تھا
’’جا پُتر ! اندر سوجا‘‘
وہ کمرے میں جاکر سو گیا تھا ۔کچھ دن کے بعد آہستہ آہستہ اُس کے زخم میں گھاؤ آنا شروع ہوگیا تھا۔اُس کے زخم پر معمولی ساکھرنڈ بن گیا تھااور میٹھی میٹھی خارش کا اُسے احساس ہونے لگا تھا۔اُس کا زخم دس دن کے بعد غائب ہوگیا تھا۔لیکن آج پچپن سال کی عمر میں جب وہ بڑے شہر کے کنارے پر بنائے اپنے مکان سے نکل کر باہر کسی ضروری کام سے سڑک پر پیدل چلنے لگا تو چند ہی لمحوں کے بعد دُور سے کوئی اجنبی شخص موٹر سائیکل پر سوار اُسے اپنی جانب آتا نظر آیا۔اُس نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے رُکنے کو کہا۔اجنبی شخص نے موٹر سائکل روک لیا اور وہ اُس کی پشت کی جانب موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا۔ابھی وہ آدھا کیلو میٹر کا فاصلہ بھی طے نہیں کرپایا تھا کہ موٹرسائکل والے نے اُسے کہا’’بس میں یہاں سے آگے نہیں جاؤں گا۔آپ یہاں اُتر جائیے‘‘یہ کہتے ہوئے اُس نے موٹر سائکل کی رفتار دھیمی کردی تو تب تک ایک کُتّا پیچھے سے جونہی اُسے کھانے کو آیا تو وہ کُتّے سے ڈر گیا۔وہ کُتّے سے بچنے کے لئے موٹر سائیکل اسٹینڈ سے اپنا بایاں پیر اُٹھا کے زمین پہ رکھنے ہی والا تھا کہ اُسے موٹر سائیکل کے اسٹینڈ سے ٹخنے کے ساتھ ہی ایک گہرا کٹ لگ گیا۔موٹر سائیکل والے نے موٹر سائیکل روک لیا لیکن ادھر سلامت بابا کی زخم خوردہ ٹانگ سے خون بہنے لگا۔موٹر سائیکل والے نے کہا
’’اسی لئے میں کسی کو لفٹ نہیں دیتا لیکن آج نہ معلوم مجھے بھی کیا ہوگیا تھا کہ آپ کو دیکھتے ہی موٹر سائکل روک لی‘‘یہ کہتے ہوئے اُس نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کیا اور چلا گیا۔سڑک کے ساتھ ہی ایک دُکاندار نے فوراً کپڑے سے اُس کے زخم کو باندھ دیا ۔اسی دوران ایک آٹو والے نے اُسے دیکھا تو پوچھا
’’کہاں جانا چاہتے ہیں ؟‘‘
سلامت بابا نے کہا
’’میں اسپتال جانا چاہتا ہوں‘‘
آٹو والے نے کہا
’’بیٹھ جائیے‘‘
سلامت بابا لنگڑاتا ہوا آٹو میں بیٹھ گیااور کچھ ہی وقت کے بعد وہ اسپتال جاپہنچا۔اسپتال میں سب سے پہلے اُسے انجکشن لگایا گیا۔پھر اُس کے زخم کو دھونے کے بعد اُس پہ دوائی لگائی ۔زخم پر پانچ ٹانکے لگائے گئے ۔اوپر سے اچھی طرح پٹی باندھ دی گئی ۔ڈاکٹر نے اُس کے لئے نسخہ لکھا۔اُس نے چھ سو روپے کی دوائی خریدی ۔پھر ایک اور آٹو میں بیٹھ کے گھر پہنچا ۔بیوی ،بچّے اُسے اس حال میں دیکھ کر مایوس ہوئے ۔اُس کی بیوی حنا نے افسردہ لہجے میں کہا
’’آپ کو گھر سے باہر جانے کی کیا ضرورت پڑی تھی ؟اور اگر کوئی بہت ہی ضروری کام تھا تو اپنی گاڑی میں جاتے‘‘
سلامت بابا نے کہا
’’حنا!میں تمہاری ذیابیطس کی دوائی خریدنے ہی تو گیا تھا۔میں نے سوچا قریب میں میڈیکل شاپ ہے ،وہاں سے خرید لوں گا۔پیدل چل رہا تھا کہ اچانک ایک موٹر سائیکل نظر آیا تو میں نے چاہا کہ موٹر سائیکل والے سے لفٹ لے لوں لیکن مجھے یہ کہاں معلوم تھا کہ میرے نصیب میں لکھنے والے یہ بھی لکھ دیا ہے‘‘
سلامت بابا کے زخم کو ٹھیس پہنچتی تو وہ کراہ اُٹھتا ۔اب ہر تیسرے دن اُس کے زخم پر پٹی باندھی جانے لگی لیکن جب اُسے اپنے پیر اور ٹخنے کے ساتھ سوزش جیسی دکھائی دینے لگی تو وہ پریشان سا ہوا ۔اُس نے فوری طور پر ڈاکٹر کو فون کیا۔شام کو وہ ایک پرائیویٹ اسپتال میں ڈاکٹر کے پاس چلا گیا۔ڈاکٹر نے دیکھا۔زخم کا معائنہ کیا۔نئی پٹی کروائی ،دوائیاں لکھیں ۔اُس نے اسپتال سے باہر آکر دوائیوں کی دُکان سے گیارہ سو روپے کی دوائی خریدی اور گھر چلا آیا۔کئی دن تک وہ دوائیاں کھاتا رہا اور پٹیاں کرواتا رہا لیکن اُس کے زخم میں گھاؤ نہیں آیا ۔وہ کافی پریشان ہوا ۔وہ جب بھی ڈاکٹر کے پاس جاتا تو ڈاکٹر اُس سے پوچھتا’’آپ کو شوگر تو نہیں ہے؟‘‘
تقریباً ایک مہینہ اسی طرح بیت گیا ۔اسی دوران اُس کے زخم میں انفیکشن پیدا ہوگیا ۔وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا جس طرح محبت اب تجارت بن گئی ہے یا تجارت اب محبت بن گئی ہے اُسی طرح بیماریاں اب تجارت بن گئی ہیں ۔آخر کار اُس نے دوسرے ڈاکٹر کو اپنا زخم دکھایا ۔ڈاکٹر نے زخم دیکھتے ہی کہا
’’میں آپ کو ایک ایسے پٹی کرنے والے کے پاس بھیجتا ہوں جو اس طرح کے کئی زخم بہ فضل اللہ ٹھیک کرچکا ہے۔ ساتھ ہی یہ دوائی بھی لکھ رہا ہوں ۔اس کے علاوہ آپ اپنا شوگر ٹیسٹ بھی کروایئے‘‘
دوسرے دن وہ ایک پرائیویٹ اسپتال میں کام کرنے والے آدمی کے پاس چلا گیا۔اُس کانام عقل دین تھا ۔اُس نے سلامت بابا کا زخم دیکھا تو کہا
’’اس میں انفیکشن ہوگیا ہے ۔اندر تھیٹر میں آیئے ‘‘
سلامت بابا اندر تھیٹر میں داخل ہوا۔عقل دین نے اُس کے زخم پر چیر لگایا ،اندر سے گندہ مواد باہر نکالا۔زخم کو اچھی طرح دھویا،دوائی لگائی اور اچھی طرح پٹی باندھ دی۔اُسی دن سلامت بابا شوگر والے ڈاکٹر کے پاس اپنی رپورٹ لے کر چلا گیا۔کلینک میں شوگر کے مریضوں کی ایک بھیڑ تھی۔وہ اپنی باری کا انتظار کرتا رہا۔جب وہ ڈاکٹر کے پاس پہنچا تو اُس نے کہا
’’آپ کے جسم میں معمولی سی شوگر داخل ہوگئی ہے ۔تمام میٹھی مشروبات سے پرہیز کیجیے ۔اسی لئے آپ کے زخم میں گھاؤ نہیں آرہا ہے ۔یاد رکھیئے انسان کا جسم ایک جیسا نہیں رہتا ہے ‘‘
سلامت بابا، ڈاکٹر کی باتیں سُن کر مایوس ہوگیا۔اُس نے پوچھا
’’ڈاکٹر صاحب !یہ شوگر انسان کے جسم میں کیسے داخل ہوتی ہے ؟
ڈاکٹر نے کہا
’’ٹینشن سے پریشان رہنے سے اور خاص کر جب آدمی چلنا پھرنا چھوڑدیتا ہے ۔اس لئے صبح شام سیر کریں ۔ہاں چاول،گوشت،آلو،تیل اور تلی ہوئی چیزیں بھی نہ کھائیں‘‘
ڈاکٹر نے دوائی لکھی ۔اُس نے دوائی خریدی اور اپنے گھر چلا آیا۔اب وہ دو طرح کی دوائیاں کھاتا ہے ۔ایک زخم کو ٹھیک کرنے والی اور دوسری شوگر والی۔عقل دین ہرروز اُس کے گھر پر آتا ہے ۔زخم پر دوائی لگاتا ہے ،پٹی کرتا ہے ۔پانچ سو روپے کا نوٹ جیب میں رکھ کر واپس چلا جاتا ہے ۔ادھر سلامت بابا کو باربار یہ احساس ہورہا ہے کہ تندرستی واقعی ہزار نعمت ہے ۔تندرستی کے ساتھ ہی زندگی کے سارے مزے ہیں ۔اُسے اس بات کا بھی یقین ہے کہ تمام امراض کی دوائیوں میں شفا اللہ کے حکم سے آتی ہے ،کیونکہ اللہ کی مرضی کے بغیر پتّا بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتا ہے ۔لیکن جب اُس کے کچھ اپنے اور پرائے اُسے یہ بات کہتے ہیں کہ اُسے موٹر سائکل پر سوار نہیں ہونا چاہیے تھا تو تب وہ اُن کی کفریہ وشرکیہ باتیں سُن کر مایوس ہوجاتا ہے ۔اب تو اللہ کے فضل وکرم سے سلامت بابا یہ محسوس کررہا ہے کہ اُس کا زخم دھیرے دھیرے ٹھیک ہورہا ہے۔ہاں وہ دُنیا میں بسنے والوں کو یہ پیغام بھی دینا چاہتا ہے کہ بیمار ہونے سے پہلے تندرستی کی قدر کریں اور مرنے سے پہلے توشۂ آخرت کی تیاری میں لگ جائیں۔
���
سابق صدر شعبۂ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری( جموں وکشمیر)
موبائل نمبر؛7889952532