Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

زخمی دُلہن

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 31, 2019 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
15 Min Read
SHARE
قدرت کا کتنا انمول تحفہ ہے یہ ،بے مثال کاریگری اور مصوری کا نادر شاہکارجس کے نام پر لاکھوں دل دھڑکتے ہیں۔اگر فردوس بریں کے نام سے موسوم یہ وادی ایک دلہن ہے تو یہ خوب صورت جھیل بلا شبہ اس دلہن کے ماتھے کا جھو مر ہے ۔ نہیں ۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔۔ یہ پر کشش جھیل تو خود ایک دلہن کے مانند ہے ،جس کے حسن و جمال اور دلکشی کا کوئی ثانی نہیں ۔۔۔۔۔۔
’’بھائی صاحب ۔۔۔۔۔۔ آپ ذرا وہاں جا کر شکار! روک لیجئے‘‘۔
شکارے میں بیٹھا ڈل جھیل کی سیر کے دوران میں دل ہی دل میں قدرت کی اس بے مثال کاریگری کی داد دے رہا تھا کہ دفعتاً راجا، جو میرے ساتھ تھا ، نے ڈل کے بیچوں بیچ ایک جزیرہ نما جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شکارے والے سے کہا، جس نے بغیر کسی تامل کے وہاں جا کر شکارہ روکا اور ہم شکارے سے اتر کر اس دلکش جزیرہ نما جگہ پر بیٹھ کر ڈل جھیل کی سحر انگیز خوب صورتی سے لطف انداز ہونے لگے ۔در اصل آج بہت دنوں بعد ایک ادبی تقریب پر راجا سے ملاقات ہوئی تھی ،چونکہ بہار اپنے جوبن پر تھی اسلئے ہم نے تقریب کے دوران ہی ڈل جھیل کی سیر کا پرگرام بنایا تھا اور تقریب ختم ہوتے ہی ہم سیر کے لئے نکلے ۔بہر حال کچھ دیر گپ شپ مارنے اور تصویریں کھینچنے کے بعد راجا خاموشی سے ایک جگہ بیٹھ کر گہری سوچوں میں ڈوب گیا ۔
’’ راجا صاحب ۔۔۔۔۔۔ کہاں کھو گئے آپ ؟‘‘
میں نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا ۔
’’ طارق ۔۔۔۔۔۔  کچھ دیر مجھے ڈسٹرب نہ کرو ، جی بھر کے قدرت کے ان خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہونے دو‘‘ ۔   
اس نے سنجیدہ انداز میں کہا ۔ اس کی سنجیدگی کو دیکھ میں یہ سوچ کر، کہ مشہور کہانی کار راجا شاید کسی کہانی کا تانا بانا بن رہا ہے، خاموشی سے اٹھ کر ادھر اُدھر گھومتے ہوئے خوب صورت نظاروں میں کھو گیا ۔ زبرون کی خوبصورت پہاڑیوں کی طرف ٹک ٹکی باندھے ڈل کنارے تعمیر ہوئی فلک بوس ہوٹل عمارتوں کو دیکھتے ہوئے میرے دل میں خیال آیا کہ کسی زمانے میں تخت سلیمان کی پہاڑی کی جھاڑیوں میں بسنے والے جانور ڈل کنارے اپنی پیاس بجھانے آتے تھے جو اب ممکن نہیں رہا ۔
  ’’یہ پانی اب ان کے استعمال کے قابل بھی کہاں رہا‘‘ ۔
میرے اندر سے آواز آئی ا ور ڈل جھیل کی موجودہ صورتحال میرے ذہن کے پردے پر گھومنے لگی ۔ان پانچ ستارہ ہوٹلوں ،دلکش ہاوس بوٹوںاور نجی گھروں،جن میں مقامی آبادی کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح ٹھہرتے ہیں ،سے جتنا بھی کوڑا کرکٹ ،فضلہ وغیرہ نکلتا ہے اسے اسی ڈل میں بہایا جاتا ہے ۔۔۔۔۔لیکن مجھے اس سے کیا لینا دینا ہے۔ میں نے ایک دم منفی سمجھ کر اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیا اور ارد گرد کے نظاروں میں کھو گیا۔ڈل کے شفاف و گداز سینے پر ہر طرف ان گنت مسحور کن کنول کے پھول کھلے ہوئے تھے۔مقامی اور غیر مقامی سیا حوں کی ایک کثیر تعداد، جن میں فرنگی بابو گوری میمیںاور دیگر رنگ و نسل کے مرد وزن اور بچے شامل تھے، اپنی روحوں کو سکون پہنچانے کے لئے مختلف اندازوں سے ڈل کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے میں محو تھے ،جن کے سبب اس کی رونق دوبالا ہو جاتی تھی ۔کچھ دیر ادھر اُدھر گھومنے کے بعد مجھے تھکاوٹ سی محسوس ہوئی اور میں ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔راجا ابھی بھی سنجیدہ غور فکر میں محو تھا، اس لئے میں نے اس کی سوچوں میں خلل ڈالنا مناسب نہیں سمجھا اور آنکھیں بند کرکے پتہ نہیں کیا سوچنے لگا ۔دفعتًا ہوا کا ایک لطیف جھونکا آیااور مجھے میرے انگ انگ میں راحت محسوس ہوئی ۔۔۔۔۔۔ 
اچانک مجھے احساس ہوا کہ کوئی دبے قدموں میرے قریب آرہا ہے ۔ایک لمحہ بعد ہی میرے سامنے نہایت ہی حسین و جمیل دلہن کا لباس زیب تن کئے ایک دوشیزہ کھڑی ہوگئی ،جس کے بے مثال حسن کو دیکھ کر میں نہ صرف حیرت زدہ ہوگیا بلکہ میرے جسم سے پسینے کے قطرے پھوٹنے لگے ۔اس کے وجود سے شبنم کی سے تازگی اور ستاروں کی سی پاکیزگی چھلتی تھی ۔۔۔۔۔۔آنکھوں میں نیلی نیلی جھیلوں کی اتھاہ گہرائیاں ڈوبی ہوئی اور بال بادلوں کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔ اس کی آمد سے پورے ڈل جھیل پر قوس قزح کے رنگ ایسے بھر گئے جیسے چاندنی نے ڈل میں چھلانگ ماری ہو ۔ 
’’کیا ہو رہا ہے حضور۔۔۔۔۔۔؟‘‘
میں ابھی اپنے آپ کو سنبھال ہی رہا تھا کہ ایک خواب دیدہ آواز ترنم ریز ہوئی ۔
’’ک۔۔۔ ک۔۔۔ کچھ نہیں بس یوں ہی ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
میری زبان ایسے گنگ ہو رہی تھی جیسے میری کوئی چوری پکڑی گئی ہو ۔
’’کہانی کار ہو ؟‘‘
’’جی ہاں ۔۔۔۔۔۔ پر آپ کو کیسے معلوم؟‘‘
’’مجھے سب معلوم ہے ۔۔۔۔۔۔ بہت سے کہانی کار ،شعرا اور مصور یہاں آکر لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں ۔حبہ خاتوں اسی ڈل جھیل کو اپنا دکھڑا سناتی تھی ۔۔۔۔۔۔ مہجور اسی جھیل کی آغوش میں بیٹھ کر اپنے ہجر کی داستانیں دہراتا تھا ۔۔۔۔۔۔ لل عارفہ کے واکھ یہیں گنگنائے جاتے تھے ۔۔۔۔۔۔ رسول میر اپنی محبوبائوں کی شکایت اسی ڈل سے کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔ آزاد ؔ انقلاب کے نغمے اسی ڈل کی گود میں بیٹھ کر تر تیب دیتا تھا ۔۔۔۔۔۔ کلہن نے راج ترنگی اور جونراج نے جونر اج ترنگی یہی بیٹھ کر تا لیف کی ہیں ۔۔۔۔۔۔ بہارستان شاہی بھی یہیں ایک ڈونگے میں لکھی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ تاریخ دانوں، جن میں عزت اللہ،پادری جیروم) Father Jerom (لارنس((Lawarance  شامل ہیں، کی تحریروں میںاسی ڈل کے وجود سے جوش پیدا ہو گیا اور جِلا ملی ۔اسی ڈل کی مجلس میں بیٹھ کر رشیوں ،منیوںنے تپسیا کی،  صوفیوں نے وضائف دہر ائے ،کویوں نے کویتائیںکہیں اور شعرا نے دل کے تاروں کو چھیڑنے والے رسیلے نغنے تخلیق کئے ۔۔۔۔۔۔‘‘۔ 
’’پر آپ ہو کون محترمہ ؟‘‘
وہ بغیر کسی توقف کے بے باک انداز میںبولے جا رہی تھی تو میں نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا کیوں کہ میں اس پر اسرار حسینہ کے بارے میں جاننے کے لئے بے تاب ہو رہا تھا ۔
’’بتائونگی ۔۔۔۔۔۔ آپ اتنے اُتاولے کیوں ہو رہے ہو ،پہلے پوری داستان تو سن لو‘‘ ۔
اس نے ایک ادا سے کہا تو میرے دل و دماغ میں خوشیوں کے رباب بجنے لگے کیوں کہ میں کسی بھی قمیت پر اس خوب رو حسینہ سے شنا سائی کرنا چاہتا تھا ۔ 
اسی وقت کہیں سے گانے کی سریلی پر دردآوازیں آنے لگیں تو میں نے اُسے پوچھ لیا۔
’’ یہ گانے کی آوازیں کہاں سے آرہی ہیں‘‘ ۔
’’یہ آوازیں اسی دوشیزہ ڈل کے وجود سے آرہی ہیں ۔تمہیں نہیں معلوم کہ پیار کرنے والے اس کے کانوں کے پاس سر گوشیاں کرتے ہیں ،لڑکیاں گاتی ہیں ،حوریں ناچتی ہیں ،سہاگنیں اونچے گھنے چناروں کی چھائوں میں اپنے پیار کا انتظار کرتی ہیں ۔پیار محبت کی کتنی داستانیں اس ڈل کی نظروں کے سامنے پروان چڑھتی ہیں اور کتنی دم توڑتی ہیں ۔ ڈل کی یہ جھیل بے شمار رازوں کی امین ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘۔
کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر بیسوں چیچک کے داغ اور جسم کے کئی حصوں سے خون بہہ رہا تھا جسے دیکھ کر مجھے یہ سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی کہ اس رنگین دیدہ زیب لباس سے اس نے زخموں سے چور بدن کو ڈھکا ہوا ہے ۔
’’الٰہی یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘
میں دل ہی دل میں سوچنے لگا۔
’’ محترمہ ۔۔۔۔ آپ کے چہرے پر یہ چیچک کے داغ اور جسم پر یہ زخم ۔۔۔۔ ‘‘۔
’’ میری چھوڑو ،آپ کو معلوم ہے کہ جس ڈل کی آغوش میں تم بیٹھے ہو اس کے خوب صورت چہرے پر کتنے چیچک کے داغ اور جسم پر کتنے گہرے زخم دئے ہیں آپ لوگوں نے‘‘ ۔
’’ اس نے اپنے لہجے میں برف کی سی کھنکی ڈال کر کہا‘‘ ۔
ہم نے ؟؟؟
’’ہاں ہاں ۔۔۔۔۔ آپ نے ‘‘۔
اس نے چیخنے کے انداز میں کہا اور کچھ توقف کے بعد اپنی بات جاری رکھی ۔
’’ اگلے وقتوں میں اس ڈل کے خوب صورت جسم کی بے داغ چادر پچیس کلو میٹر تک پھیلی ہوئی تھی، جسے مادیت اور حیوانیت کے ظالم پجاریوں نے ظلم و جبر سے نہ صرف داغدار کردیا بلکہ کاٹ کاٹ کر بارہ کلو میٹر سے بھی کم کردیا ۔ اس جھیل کے شفاف و گدازسینے پر مونگ دلتے ہوئے اونچی اونچی عمارتیں ہوٹل اور دیگر تجاوزات و تعمیرات کھڑی کردی گئی ۔جتنی بھی گندگی ان ہوٹلوں ہاوس بوٹوں اور مکانوں سے نکلتی ہے اسے تلف نہیں کیا جاتا بلکہ بڑی بے دردی سے ڈل کے سینے پر تھومپ دیا جاتا ہے ۔جس وجہ سے اس عالمی شہرت یافتہ جھیل کو طرح طرح کی جان لیوا بیماریوں نے گھیر لیا اور یہ سکڑ کے رہ گئی۔ ہمدردی کے پردے میں دشمنی نبھانے والے ہمدردوں ،جو ڈل کی خوبصورتی کے گن گاتے اور اس کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کے لئے بلند بانگ دعوے کرتے تھکتے نہیں، کی تان ہمیشہ اپنی تجوریاں بھرنے پر ہی ٹوٹتی ہے ۔ وہ اپنے چوڑے جسموں کو صاف رکھتے ہیں لیکن ساری غلاظت کالک کی طرح اسی جھیل کے چہرے پر پوت دیتے ہیں۔آپ سے بہتر تو سات سمندر پار کے غیر لوگ ہیں جنہیں اس جھیل سے جنون کی حد تک محبت ہے، جو اس کو بچانا چاہتے ہیں اور از سر نو زندگی کی نعمتوں سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ‘‘
’’ محترمہ ۔۔۔۔۔۔ آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا ،آخر آپ ہو کون ؟‘‘
میں نے پھر اس کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔
میرا سوال سن کر اس کے چہر ے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی لیکن یہ دلنواز مسکراہٹ، جس کے پردے میں ایک بے نام سا حزن و ملال پوشیدہ تھا ،ایک پل بعد ہی غائب ہوگئی اور وہ سنجیدہ انداز میں گویا ہوئی ۔
’’میں کون ہوں ؟ ۔۔۔۔۔۔آپ خود ہی سمجھ جائو گے ۔ لیکن ایک بات غور سے سنو ،آپ لوگوں کی خود غرضیوں اور نا قدریوںسے مجھے اپنے مٹنے یا فنا ہونے کا غم نہیںلیکن جب مستقبل میں آنے والی نسلیں اور دنیا کے کونے کونے سے آنے والے سیاح لوگ میرے بارے میں پوچھیں گے تو آپ کیا جواب دوگے۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘
کہتے ہوئے وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی ، اس کی آنکھوں میں درد کا بیکراں سمندر سا اتر آیا اور موٹے موٹے آنسوں ایسے گرنے لگے جیسے جلتی ہوئی شمع سے پگھلتے ہوئے موم کے گرم گرم قطرے تیز تیز قطار در قطار ٹپکتے ہیں۔
’’آپ اپنے جذبات پر قابو رکھئے اور اپنی پوری کہانی اطمینان سے سنائے‘‘ ۔
اس کی اصلیت جان کر میرا تجسس بڑھ گیا ۔
’’  میں کہانیاں سنتے اور سناتے بوڑھی ہو گئی ہوںلیکن یاد رکھنا میری کہانی کبھی بوڑھی یا پرانی نہیں ہوگی۔۔۔۔۔۔‘‘ 
کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں 
ہزاروں ہیں شکوے میں کیا کیا بتائوں 
شعر کہتے ہوئے اس کے ہونٹ خشک ہو کر یوں پھڑ پھڑانے لگے جیسے شدید دمے میں مبتلا کوئی مریض بے بسی سے سسک سسک کر سانس لینے کے لئے تڑپتا ہے،کچھ لمحے اس حالت میں رہنے کے بعد دفعتًا اس کا وجود پگھل کربوسیدہ ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہوگیا ، اسی حالت میں وہ یکدم اٹھی اور بے پروائی سے ڈل کے پانیوں کی طرف چلنے لگی، چند قدم چل کراس کا ریزہ ریزہ وجود دھیرے دھیرے ڈل کے پانیوں میں تحلیل ہوگیا اور میں دیکھتا  ہی رہ گیا ۔۔۔۔۔۔ خفت اور خجالت کے سبب مجھے لگا کہ ڈل کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطے کھا رہا ہوں اور بے شمار سانپ اور بچھو میرے بدن پر رینگ رہے ہیں ۔
’’چلو طارق ۔۔۔۔۔۔۔ دیر ہوگئی ‘‘۔
اسی لمحے راجا یوسف کی آواز سے میں چونک گیا اور ہم نے شکارے میں بیٹھ کر واپسی کی راہ لی۔
٭٭٭
رابطہ؛ اجس بانڈی پورہ (193502 ) کشمیر
ای میل؛ [email protected]  
موبائل  نمبر;9906526432
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Elvis The new Queen Lifetime Video slot Enjoy Totally free WMS Online slots
Nordicbet Nordens största spelbolag med gambling enterprise och possibility 2024
blog
Elvis the new king Gambling establishment Online game Courses
Find Better On the web Bingo Web sites and you may Exclusive Also provides in the 2025

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

July 12, 2025
ادب نامافسانے

ماسٹر جی کہانی

July 12, 2025
ادب نامافسانے

ضد کا سفر کہانی

July 12, 2025

وہ میں ہی ہوں…! افسانہ

July 12, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?