کشمیر میں زندگی کے مدعا و مقصد میں جس پیمانے کی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں، ایک مہذب قوم میں اسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ آج ہر طرف حالات کی ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں جو زندگی کے بنیادی مقاصد یعنی امن ، تحفظ اور بلا خوف جینے سےعبارت ہیں،سے قطعی طور پر عاری نہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہوگا، جب ہلاکتیں پیش نہ آرہی ہوں، نہتے شہری زخموں کے سیلاب سے نہ جوجھ رہے ہوں اور املاک کو نقصان نہ پہنچ رہا ہوں ۔ اس کے بعد ہڑتالوں اور احتجاج سے اقتصادی محاز پر جو بدحالی پید اہو رہی ہے، وہ الگ ہے۔ایک جانب دہلی سے لیکر اسلام آباد اور پھر سرینگر تک سبھی حلقے کشمیر میں امن و امان کو فروغ دینے کے لئے ضبط وتحمل اور افہام و تفہیم کی باتیں کر رہے ہیں لیکن زمینی سطح پر انکا شائبہ بھی کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔ ریاست میں ایک منتخب حکومت کی ناکامی اور اسکے خاتمے کے بعد گورنر راج کےنفاذ سے ایک اُمید پیدا ہو چلی تھی کہ عام لوگوں کی زندگی میں قابل لحاظ حد تک مثبت تبدیلی رونما ہو گی اور جسکے بارے میں وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے یقین دہانیاں کراتے ہوئے قیام امن اور تعمیر و ترقی کےلئے نئے انتظام کو کلیدی ٹھہرایا تھا اور عوام کی طرف سے بھی اس حوالے سے مثبت اُمیدوں کا اظہار کیا جارہا ہے۔ تاہم جہاں سابق عوام سرکاروں کی جانب سے انتظامی معاملات میں سیاسی بنیادوں پر کی گئی بے ضابطگیوں اور وقت وقت پر لئے گئے غلط فیصلوں کے سدھار کی ایک مہم شروع کی گئی ہے اور جسے عوامی سطح پر سراہا جا رہا ہے، وہیں امن و امان کی صورتحال کو فروغ دینے کے نام پر شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہورہا ہے اور زخمی ہونے والوں کے گراف میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، وہ نہ صرف اولذکر پیش رفت کی اہمیت کو زائیل کرنے کا سبب بن رہا ہے بلکہ بدظنی اور بے اطمینانی کے ماحول میں مزید فروغ کا سب بننے کا پختہ امکان اپنے اندر رکھتا ہے۔ گزشتہ دنوں شوپیان میں ایک ہی دن میں ایک سو سے زائد افراد کا زخمی ہونا، زخمیوں کی ایک نئی نسل تیار ہونے کا انتباہ ہے، جو یقینی طور پر مستقبل کی مجموعی زندگی کا ایک حصہ ہوگی۔موجودہ انتظامیہ اگر اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہے گی تو یقینی طور پر آنے الے ایام کے دوران ابتری میںمزید اضافہ ہونے کا اندیشہ پیدا ہوسکتا ہے۔ہلاکتیں جنگجوئوں کی ہوں، فورسز اہلکاروں کی ہوں یا نہتے شہریوں کی ، بہر حال گھروں کی تباہی پر منتج ہو رہی ہیں۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ہمارے سماج میں زندگی جس عنوان سے بے مقصد بنتی جارہی ہے وہ انسانوں کےلئے فرو غ شدہ دنیا میں ایک صدمے اور اندوہ سے کچھ کم نہیں، گزشتہ بیس برسوں کے حالات میں آج دوسری نسل کو اپنی آل واولاد سے محروم ہونے کے ایسےزخم برداشت کرنے پڑ رہے ہیں، جنکا تصور بھی حقیقی زندگی سے تعلق نہیں رکھتا۔ لیکن آج یہ ماحول ہر طرف بن رہا ہے اور عام انسان کو یہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے ۔ موت اور تباہی کا یہ سلسلہ کیسے رک سکتا ہے، اس کےلئے سبھی حلقوںکوسنجیدگی اور دردمندی سے سوچنا پڑیگا،نئی دہلی سے لیکر اسلام آباد اور پھرسرینگر تک۔وگرنہ مستقبل میں زندگی روایتی اصولوں سے ہٹ کر تباہی اور بربادی سے عبارت ہوگی۔