مولانا پیر شبیر احمد
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بے شمار نعمتوں سے نواز ہے، ان میں سے زبان ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ زبان قلوب واذہان کی ترجمان ہے جیسی انسانوں کی سوچ ہوگی ویسا ہی زبان بولے گی۔ زبان کا صحیح استعمال ذریعہ حصول ثواب ہے اور غلط استعمال وعید عذاب ہے۔یہ انسانی جسم کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے لیکن اس کے کرشمے بہت بڑے بڑے ہیں اس کی خوبیاں بھی بہت ہیں اور خامیاں بھی بہت۔ اس کے ذریعے انسان چاہے تو اپنی آخرت برباد کر سکتا ہے اور چاہے تو اپنی آخرت کے لئے نیکیاں بھی جمع کر سکتا ہے۔ اگر ایک انسان کافر سے مسلمان ہوتا ہے تو اسی زبان کی بدولت ہوتا ہے زبان سے کلمہ شہادت پڑھتا ہے اس کلمے سے پہلے جہنمی تھا تواب جنتی بن گیا۔ اس کے برعکس اگر اس زبان کا ناجائز استعمال ہو تو پھر یہی زبان انسا ن کو جہنم میں کھینچ کر لے جاتی ہے، اسی وجہ سے کثرت کلام سے بھی منع کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسان کو ہمیشہ سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے۔ ایسے ہی بلاوجہ فضول میں بولتے رہنے سے ایک انسان کی شخصیت متاثر ہوتی ہے عقل مند انسان کی یہ صفت ہوتی ہے کے وہ ہمیشہ سو چ کر بولتا ہے جبکہ بیوقوف بول کر سوچتا ہے۔زبان کی حفاظت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ سوچ سمجھ کر بولے۔ کوشش کر ے کم سے کم بولے اور بامقصد بولے۔ جہاں اس کو معلوم ہوکہ اس جگہ پر میری بات کی قدر نہیں ہے تو وہاں خاموشی اختیار کئے رکھے، کیونکہ زبان سے نکلی ہوئی بات اور کمان سے نکلا ہوا تیر کبھی واپس نہیں آ سکتے، لہٰذا احتیاط افسوس سے بہتر ہے کے اصول کو ہر جگہ مد نظر رکھیں۔اوریہ بات بھی طے ہے کہ ہمارے مْنہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ ہمار ے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے۔ نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص مجھے دوچیزوں کی ضمانت دے دے تو میں اْس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ ایک زبان اور دوسری شرم گا ہ ۔ آ ب ذرا سوچئے کے ہماری محفلیں، اجتماعات، گلی محلوں میں دوستوں کی میٹنگیں، بازاروں میں عامہ الناس اور بالخصوص خواتین باہمی گفتگو کیسے کرتی ہیں؟
زبان کا نشتر (لوہے کے) نیزے سے زیادہ گہرا زخم کرتا ہے،لہٰذا بہترین مسلمان بننے کے لئے اپنی زبان پر کنڑول اور دوسر ے مسلمانوں کی عزت نفس کا خیال بہت ضروری ہے۔ اِدھر اْدھر کی فضول باتوں سے بہتر ہے کہ اپنی زبان کو سلام کرنے کا عادی بنائیں اِس سے دوست بڑھتے ہیں اور دشمن کم ہوتے ہیں۔ آدمی جب زبان کو ذکر الٰہی سے تر رکھے گا تو اس کو فضولیات کا موقع ہی نہیں ملے گا۔ زبان اور آنکھ کاروزہ پورا سال رکھنے کا حکم آیا ہے۔ زبان کا روزہ یہی ہے کہ زبان صرف اور صرف نیک اور جائز باتوں کے لئے حرکت میں آ ئے۔ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں مگر آ ج صورت حال بالکل اس کے مخالف ہے۔ ہمارا پڑوسی ہمارے شر سے محفوظ نہیں ہے، کوئی اگر زیادتی کر جائے تو برداشت کا مادہ نہیں ہے۔ انسانیت کا خون اس قدر سستا کہ قتل عام معمول بن چکا ہے۔ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے۔ان تمام معاشرتی، معاشی اور سیاسی مسائل کا حل صرف اسی ایک چیز کے اندر ہے کہ ہم اپنے آ پ کو مکمل اسلام کے مطابق ڈھال لیں اور اپنی زبان کا ہمیشہ درست استعمال کریں کیوں کہ یہ زبان ہی انسان کے جنت اور جہنم میں جا نے کا سبب ہے۔ اللہ تعالی ہم کو صحیح علم اور علم کی توفیق عطافرمائے۔ آمین