میر شوکت پونچھی
ہمالہ کی برف سے چھن کر آتی ہوا جب ڈل کی لہروں کو تھپکی دیتی ہے تو پانی کی سطح پر ایسے ہونکے بنتے ہیں جیسے کسی نے لفظوں کی مالا بکھیر دی ہو۔ مگر یہ لفظ کس زبان کے ہیں؟ چبوترے پر بیٹھا سموسہ فروش کہتا ہے:’’صاحب، یہ تو ہوا کی زبان ہے۔‘‘چنار کی لال پتی سرسراہتی ہے:’’یہ موسم کی گفتگو ہے۔‘‘اور سیاست؟ وہ پاس سے گزرتی ہے تو اپنی چادر کے پلو میں ایسے خفیہ اشارے چھپا لیتی ہے کہ سننے والا سنتا رہ جائے، سمجھنے والا سمجھنے کو ترسے۔ یہاں سیاست کی محبوبہ ہر روز نئی بولی بولتی ہے اور عاشقِ دیرینہ ،عوام روز نئی دکان سے لغت خریدنے نکلتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پرانا مصرعہ معنی کی نئی قبا پہنتا ہے کہ یارِ سیاست کی زبان کبھی فرمانی، کبھی بیانی، کبھی معانی میں ملفوف اور ہم عشّاقِ خاک بسر ہر صبح نئی ابجد سیکھنے کو مجبور۔
لال چوک پر بیٹھے بزرگ نے کہا:’’بیٹا! سیاست کی زبان کے لفظ سن لو اور ان کا ترجمہ ہم سے سمجھ لو۔‘‘
نارملسی: دربار کہتا ہے چائے کے کھوکھے کھلے ہیں، امن ہے۔ بستی کہتی ہے چائے میں دھواں زیادہ ہے، خبر کم۔
ڈیولپمنٹ: دربار کے نزدیک ربن کٹنے اور تصاویر چھپنے کا نام۔ بستی کے نزدیک وہ سڑک جو بارش سے پہلے بنے اور بعد میں بھی باقی رہے۔
اسٹیک ہولڈر: دربار کے نزدیک قلم والے، بستی کے نزدیک بیلچہ والے۔ دربار کی زبان میں مائیک کی آواز، بستی کی زبان میں کان کی شنید۔
بہالی: دربار کے نزدیک پرانی تصویر پر نیا فریم، بستی کے نزدیک نیا سورج۔
بوڑھا بولا:’’جب وہ کہیں سب اچھا ہے، سمجھ لو کہ سوال نہ کرو۔ جب کہیں آگے دیکھتے ہیں، سمجھ لو پیچھے مت جھانکو۔ یہ ہم نے برسوں میں سیکھا ہے۔‘‘
بغل میں بیٹھے نوجوان نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ کہا:’’بابا! ہم سے تو بہتر وہ پرندے ہیں جو کم از کم ایک ہی زبان میں چہچہاتے ہیں۔ ہم روز ایک نئی زبان سیکھنے پر مجبور ہیں اور آخر میں خالی ہاتھ۔‘‘بوڑھے نے گردن جھکائی اور آہستہ کہا:’’زباں بریدہ بہ صد فغاں نمی رسد‘‘(زبان کٹ جائے تو صدائیں بھی نہیں پہنچتیں)
یہاں سیاست کبھی شہزادی کی طرح متکبر، کبھی صوفی کی طرح ملفوف، کبھی دلہن کی طرح شرمائی اور کبھی جوکر کی طرح چہکتی نظر آتی ہے۔ اس کا ہر روپ ایک نئی بولی لاتا ہے۔ کبھی کہتی ہے’’یکجہتی‘‘، بستی پوچھتی ہے’’کہاں؟‘‘ جواب آتا ہے’’رپورٹ میں‘‘۔ کبھی کہتی ہے’’انتظامی آسانی‘‘، بستی پوچھتی ہے’’کس کی؟‘‘ جواب آتا ہے’’فائل کی‘‘۔ کبھی کہتی ہے ’’خوشحالی‘‘، بستی پوچھتی ہے’’کس قیمت پر؟‘‘ جواب آتا ہے’’خاموشی کی قیمت پر‘‘۔یوں لگتا ہے کہ سیاست کو صنعتِ ایہامسے غیر معمولی شغف ہے، ایک لفظ، دو مطلب ایک دربار کے لیے، دوسرا بازار کے لیے۔انتخاب ہو یا اس کی تیاری، یہاں صندوق معنی سے زیادہ وزنی رہا ہے۔ پرچی کی سیاہی اکثر آنکھ کی نمی پر غالب آ گئی۔ یارِ سیاست نے کہا:’’شمولیت!‘‘عاشقِ عوام نے پوچھا:’’شرطیں؟‘‘جواب آیا:’’وقت بتائے گا۔‘‘
یوں انتخاب محفلِ تماشا بن جاتے ہیں۔ جلسوں کی خطابت میں خط کھینچے جاتے ہیں اور حد بندی کی قینچی سے کپڑا تراشا جاتا ہے۔ درزی کی قینچی تیز ہو تو قبا عوام کے جسم پر نہیں، دربار کے کاغذ پر فٹ آتی ہے۔میڈیا کا ڈھولچی اکثر یارِ سیاست کی تال پر بجتا ہے۔ وہ کہتا ہے:’’آج فضا پرسکون ہے۔‘‘اسی لمحے ایک گاؤں میں بچہ اپنی کاپی پر لکھتا ہے:’’پرسکون کا مطلب کیا ہے؟ آیا جب سوال نہ ہوں یا جب جواب ہوں؟‘‘
کبھی کبھار کوئی بانسری والا سچ کی دھن چھیڑ دیتا ہے تو تالیاں بجتی ہیں، مگر ڈھول کی آواز اتنی بڑھا دی جاتی ہے کہ بانسری کی دھن ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔یہاں ترقی کبھی ربن کی طرح کٹتی ہے، کبھی پتنگ کی طرح اڑتی ہے، کبھی ریت کی طرح ہاتھ سے پھسل جاتی ہے۔ایک چرواہا ہنستے ہوئے کہتا ہے:
’’صاحب! ہمارے پہاڑ پر سڑک آئی تصویر میں، ربن بھی کٹا، خبر بھی چھپی، مگر ہماری بکری اب بھی اسی ڈھلوان سے پھسلتی ہے جہاں میری دادی پھسلتی تھیں۔‘‘
دفتروں کی الماریوں میں بند قانون کی جلدیں چنار کے خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بھاری اور خاموش ہیں۔ صفحے موٹے، معنی پتلے۔ایک افسر نے کہا:’’لوگ کہتے ہیں عبارت مشکل ہے، مگر مشکل ہی میں بندوبست ہے۔ صاف لکھ دیں تو ہر کوئی پڑھ لے گا، پھر دفتر کا رعب کہاں جائے گا؟‘‘
میں نے کہا:’’قانون کی زبان جب عوام کی زبان نہ ہو تو اپیلیں بڑھ جاتی ہیں۔ عوام کی زبان میں لکھیں تاکہ قانون دربار کا نوکر نہ رہے، بستی کا خادم ہو جائے۔‘‘
یہاں خوف بزرگ کی طرح لاٹھی ٹیکتا ہے اور خاموشی دلہن کی طرح آنکھ نیچی رکھتی ہے۔ جب خوف کی لاٹھی زمین پر داغ بناتی ہے تو خاموشی اپنی اوڑھنی اس پر بچھا دیتی ہے۔ یوں نشان بھی رہتا ہے اور نظر بھی نہیں آتا۔یہاں امن ایسا ہے کہ جھگڑا بھی چائے پی کر ہوتا ہے۔ ترقی ایسی ہے کہ فیتہ کئی بار کٹتا ہے مگر راستہ وہی رہتا ہے۔ سوال ایسا ہے کہ جواب سے پہلے اس کی پیدائش کی سند مانگی جاتی ہے۔ جمہور ایسا ہے کہ ووٹ سے پہلے گوگل میپ دیکھتا ہے کہ صندوق کہاں رکھا ہے۔ یہ طنز کے پھول ہیں جو پتھر کی دراڑ سے نکلے ہیں، خوشبو دیر تک رہتی ہے اور کانٹے دیر تک چبھتے ہیں۔
کشمیر کی بولی صرف ایک وادی کی بولی نہیں، یہ پیر پنجال کی برف، چناب کے پتھر، کشن گنگا کی بے قراری ،سب کی مترنمیت ہے۔ جب مرکز کی زبان دستوری لہجے میں بولتی ہے تو سرحد کی آہ جبلّی لہجے میں جواب دیتی ہے۔ درمیان کا ترجمہ اکثر گم ہو جاتا ہے۔
اب اصل نکتہ یہ ہے کہ یار کون ہے؟ اگر یار صرف سیاست ہے تو زبان اس کی ہوگی، اگر یار عوام ہیں تو زبان ان کی ہوگی۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب سیاست عوام سے محبت کا دعویٰ کرے مگر ان کی زبان میں اقرار لکھنے کے بجائے نیت کا بیان اجنبی لہجے میں چھوڑ دے۔ہر حکم کا خلاصہ عوامی زبان میں ہو۔ ہر وعدے کے ساتھ تاریخ واضح ہو۔ تصویر کم، فاصلہ کم ہو۔ لغت کم، لہجہ زیادہ ہو۔ یہی زبانِ یار کا دستور ہے جو ترکی کو تر و تازہ اور کیف آور بنا سکتا ہے۔
ایک گاؤں میں بڑے صندوق آئے۔ ان پر لکھا تھا: ’’بیجِ فرداصرف اس مٹی کے لیے جو سوال کرتی ہے۔’’ گاؤں والوں نے عبارت پڑھے بغیر بیج بو دیے۔ فصل نکلی خوبصورت مگر ذائقہ غائب۔ بزرگ نے کہا:’’بیٹا! ذائقہ سوال سے آتا ہے؛ ہم نے سوالوں کی مٹی کو پتھر سمجھ کر پھینک دیا تھا۔‘‘اب لوگ زبان سیکھ رہے ہیں، نئی ترکی صاف بات، سیدھا وعدہ۔کشمیر کی سیاست کی محبوبہ جب گلِ لالہ کا دوپٹہ اوڑھ کر نکلتی ہے تو دل چاہتا ہے کہ اس کے لہجے کے پھول سونگھ لیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ پھول پر لکھا نام پڑھا جا سکے۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ’’یار خود سمجھ لے گا‘‘ تو عاشق تھک جائے گا۔ عاشق کی تھکن کا علاج فصاحت کی دوا اور بلاغت کی ہوا ہے، صاف لفظ، سیدھی راہ، کھری نیت۔
آخر میں بس اتنا کہ نہ رسمِ تماشا باقی رہے نہ طرزِ فریب۔ زبان ہو کہ چراغ ،دونوں میں گرمیِ نصیب ہو اور اگر کبھی سیاست اپنی ترکی لے آئے تو عاشق بس یہ کہے کہ خدا کرے ہمارے حصے میں ایسا مترجم آئے جو جیب نہیں، دل سے بولے اور ایسی لغت ہو جس میں پہلا لفظ’’ہم‘‘ ہو اور آخری لفظ ’’سب‘‘۔
[email protected]>