مومن فہیم احمد عبدالباری
زبانیں معاشرتی، تہذیبی اور تعلیمی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ رابطہ قائم کرنے، خیالات کے تبادلے اور تصورات کو بامعنی بنانے کا بنیادی ذریعہ ہیں ۔ اس کے ذریعے قوم کی تہذیب، ثقافت اور سوچ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
تعلیم اور ترقی: ابتدائی تعلیم میں زبان کی بنیاد بہت اہم ہے، اور یہ بچے کی ذہنی ترقی اور دنیا کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
تہذیب و ثقافت:زبان کسی بھی معاشرے کی تہذیب، ثقافت، اور روایات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ زبان کے بغیر دنیا کی ہر چیز کو معنی دینا ناممکن ہے۔
رابطہ اور ابلاغ:زبان معلومات، خیالات اور جذبات کے تبادلے کا ایک بنیادی نظام ہے، جس میں تحریری، اشاراتی یا زبانی صورت شامل ہو سکتی ہے۔
ذہنی اور فکری نشوونما:زبان خیالات کی تعمیر اور شعور کی ترقی کے لیے لازمی ہے۔ تصورات کو نام دینے اور ان پر عمل کرنے کا پورا عمل زبان ہی کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔
معاشرتی ارتقا:ایک زندہ زبان کا مطلب ہے کہ معاشرہ ترقی کر رہا ہے، کیونکہ نئی زبانیں اور نئے الفاظ معاشرے کی ترقی کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر زبان میں نئے الفاظ نہ آئیں، تو یہ زوال کی نشانی ہے۔سوال قائم کیا جائے کہ ’’آپ کی شخصیت کی بہترین تعریف کیا ہے؟‘‘ جواب ہوسکتا ہے کہ ہمارا علم، کردار، رکھ رکھاؤ اور زبان کی مہارت ہماری شخصیت کی حقیقی غماز ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمارا علم ہے جو بات چیت، گفت و شنید، انٹرویوز اور دیگر مواقع کے دوران ہماری بات چیت کی مہارتوں کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے۔ جو ہماری اصل شخصیت کی وضاحت کرتا ہے۔ یہ یقیناً کوئی خارجی وصف نہیں ہے اور چند دنوں میں ترقی نہیں کرتا۔ درحقیقت یہ کئی برسوں کے مطالعے، سیکھنے اور تجربے سے حاصل ہوتا ہے۔لیکن اس مہارت کا حصول کیسے ممکن ہے؟ یہ لاکھوں کا سوال ہے۔ اس مہارت کو حاصل کرنے کے کئی طریقے ہیں لیکن زبانوں کا مطالعہ اس کے جواب میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ زبان کا مطالعہ شخصیت کو سنوارنے اور کرئیر کے مواقع فراہم کرنے میں بھی ہمارا ممد ومعاون ثابت ہوتا ہے ۔ دنیا میں ہزاروں زبانیں ہیں اور ہندوستان ان میں سے کئی کا گھر ہے۔ ان میں سے کئی ملک کی سرکاری زبان کے طور پر درج ہیں۔ ہندوستان کے آئین میں آرٹیکل 344(1) اور 351 جو زبانوں سے متعلق ہیں ، یہ آٹھویں شیڈول میں شامل ہیں جو 22 زبانوں کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ زبانیں آسامی، بنگالی، بوڈو، ڈوگری، گجراتی، ہندی، کنڑ، کشمیری، کونکنی، میتھلی، ملیالم، منی پوری، مراٹھی، نیپالی، اوڈیا، پنجابی، سنسکرت، سنتالی، سندھی، تامل، تیلگو اور اُردو ہیں۔ان زبانوں کے علاوہ سات ہزار سے زیادہ بولیاں ہیں جو ملک کے مختلف حصوں میں رائج ہیں۔ لیکن بولی (Dialects) اور زبانوں (Languages) میں بڑا فرق ہے۔ بولی غیر ساختہ اور عام طور پر گرامر کی پیروی نہیں کرتی ہے، جبکہ زبان اچھی طرح سے ترتیب دی گئی ،اصول و ضوابط سے مزین اور گرامر کے اصولوں کی پابند ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی زبان کے معاملے میں ہو سکتا ہے خواہ ہندوستانی ہو یا غیر ملکی۔
زبان اور مواصلات (کمیونکیشن) کی مہارت سیکھنے کی ابتداء کنڈرگارٹن یا نرسری سے شروع ہوجاتی ہے اور اعلیٰ تعلیم کےحصول تک جاری رہتی ہے۔ تاہم زبانوں میں خصوصی مطالعہ کے لیےآپ کو عام بول چال میں استعمال ہونے والی زبانوں کے مقابلے گرامر اور الفاظ کا ایک مربوط نظم سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ زبان کے مطالعے سے کئی اجزاء وابستہ ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق زبان ابلاغ کی علامت کے سوا کچھ نہیں ہے جسے حروف تہجی، جملوں یا مواصلات کی دیگر مختلف شکلوں کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے یا اس کی نمائندگی کی جاتی ہے۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ زبان کے بغیر علم کی ترسیل یا ابلاغ ممکن نہیں۔ لہٰذا زبان کی مہارت کا حصول کسی بھی معاشرے میں تعلیم کا اولین مقصد ہے۔ یہاں تک کہ سماعت اور گویائی سے محروم افراد نے بھی سیکھنے اور مطالعہ کے عمل میں زبان کے آلات کا خصوصی سیٹ استعمال کیا۔ ہندوستان کی تقریباً تمام بڑی یونیورسٹیاں انڈرگریجویٹ سطح سے لے کر پوسٹ گریجویٹ سطح تک زبانیں پڑھاتی ہیں اور کچھ میں تحقیقی سطح کی سہولیات بھی ہیں۔پچھلے کچھ برسوں میں، ماہرین لسانیات کی مانگ میں نئے میڈیا اور معلوماتی پلیٹ فارمز کی آمد اور تدریس اور تعلیم کی توسیع کے ساتھ ملازمت کے بازار میں گہرا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
زبان کے مطالعہ میں اعلیٰ تعلیم نہ صرف ملازمتیں حاصل کرنے کے امکانات کو بڑھاتی ہے بلکہ ایسے شعبوں میں براہ راست ملازمت کی راہیں بھی کھولتی ہیں جہاں زبان میں مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال میںیہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ زبان کی تعلیم کے لیے مشہور کچھ بہترین ادارے اور کالج داخلے کے لیے کوالیفائنگ (اہلیتی) امتحان میں اعلیٰ مارکس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن CUET (کامن یونیورسٹی انٹرنس ٹیسٹ) کے آغاز کے ساتھ، امیدوار جنہوں نے کوالیفائنگ امتحان میں کم نمبر حاصل کیے ہیں، وہ بھی لینگویج کورسز میں داخلہ حاصل کر سکتے ہیں اگر وہ CUET میں اچھے نمبر حاصل کرتے ہیں۔
کرئیر کے مواقع ۔تدریس(Teaching)
زبان کی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے زبان کی تعلیم دینا بہترین موقع ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، ہندوستان میں سرکاری اور نجی شعبے کے اداروں میں تقریباً 20 لاکھ اساتذہ میں سے کم از کم 20 فیصد زبان کے اساتذہ ہیں، جو زیادہ تر انگریزی، ہندی، سنسکرت، اردو اور دیگر مقامی زبانیں پڑھاتے ہیں۔ ماہرین لسانیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی ایک اچھی تعداد کو ریسرچ فیلوشپ کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ متعلقہ زبان میں ڈگری/ڈپلومہ حاصل کرنے کے علاوہ، ایک امیدوار کو ٹیچر ٹریننگ یا بیچلر آف ایجوکیشن (B.Ed.) مکمل کرنے کی ضرورت ہے، اگر وہ اسکول کی سطح پر تدریسی کرئیر کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ کالج یا یونیورسٹی کی سطح پر پڑھانے کے لیےکسی کو جونیئر ریسرچ فیلوشپ حاصل کرنا ہوگی یا قومی اہلیت کا امتحان (NET) پاس کرنا ہوگا۔
IITs، IIMs جیسے اداروں کے ساتھ ساتھ تکنیکی علوم کے دیگر ادارے بھی بنیادی طور پر انگریزی میں، تکنیکی مواصلات اور کاروباری مواصلات سمیت مواصلاتی مہارتوں کی تعلیم کے لیے انسانی علوم (Humanities) کے اساتذہ کا تقرر کرتے ہیں۔ کچھ ادارے ہندی، انگریزی، اردو دیگر ملکی زبانیوں اور غیر ملکی زبانوں کے ماہرین کا تقرر بھی کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے طلبہ کی مواصلاتی (کمیونکیشن) صلاحیتوں میں اضافہ کریں۔
ترجمہ ، تشریح و توضیحات (Translation & Interpretation)
ترجمہ زبان کے طلباء کے لیے کرئیر کا ایک اہم انتخاب ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی وزارتوں اور PSUs کے ساتھ ساتھ مختلف محکموں سمیت متعدد اداروں کو وقتاً فوقتاً مترجمین کی خدمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پبلشنگ ہاؤس، نصابی کتابوں کے نجی مترجمین اور دیگر ادارے جیسے UPSC، لوک سبھا اور راجیہ سبھا سکریٹریٹ بھی مترجم کا تقرر کرتے ہیں۔ UPSC ہر سال مختلف محکموں اور وزارتوں میں مترجمین کی خالی آسامیوں کو پُر کرنے کے لیے جونیئر مترجم کا امتحان منعقد کرتا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ امیدوار کئی زبانوں پر عبور رکھتا ہو۔
راج بھاشا ادھیکاری(Raj Bhasha Adhikaari)
یہ ایک ایسی پوسٹ ہے جو زیادہ تر وزارتوں، سرکاری محکموں، بینکوں، PSUs میں پائی جاتی ہے۔ راج بھاشا ادھیکاری، جیسا کہ نام ظاہر کرتا ہے، ہندی میں مہارت کی ضرورت ہے۔ لیکن ساتھ ہی اسے انگریزی میں بھی مہارت کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے فرائض کی ایک بڑی تعداد انگریزی سے ہندی میں ترجمہ اور ہندی سے انگریزی میں ترجمہ پر مشتمل ہوتے ہیں۔
میڈیا (Media):میڈیا ایک اور اہم شعبہ ہے جس میں لینگویج اسٹڈیز کے طلباء کے لیے وسیع مواقع موجود ہیں۔ اگرچہ صحافت یا ماس کمیونیکیشن میں اہلیت اس شعبے کے لیے لازمی شرط ہے، لیکن میڈیا پرسن بننے کے لیے زبان کی مہارت بھی اتنا ہی اہم پہلو اور ضرورت ہے۔ میڈیا چاہے وہ پرنٹ ہو، الیکٹرانک ہو یا ڈیجیٹل، زبان کے ذریعے معلومات پہنچاتا ہے۔ ایک میڈیا ہاؤس میں زیادہ تر عہدوں پر جو افراد فائز ہوتے ہیں ، جن میں کانٹینٹ رائٹر، سب ایڈیٹر، اسسٹنٹ ایڈیٹر، ایڈیٹر کے ساتھ ساتھ کانٹینٹ مینیجر، رپورٹر، پروڈیوسر اور نامہ نگار، سبھی کو متعلقہ زبان کا اچھا اور معیاری علم ہونا ضروری ہے۔
پبلیکیشن (Publication):کتاب اور اشاعت کی صنعت زبان کے ماہرین کے لیے ایک اور اہم شعبہ ہے۔ مصنفین مشہور شخصیات سے کم نہیں ہوتے۔ لیکن کتاب اور اشاعت کی صنعت کے پاس زبان کے طالب علم کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ ان میں پروف ریڈر، ایڈیٹر، مترجم اور ایسی بہت سی نوکریاں شامل ہیں۔ پبلشنگ انڈسٹری جز وقتی ملازمت کے متلاشیوں کے لیے ایک بہترین جگہ ہے جو اپنی زبان کی مہارت کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔
تخلیقی تحریر(Creative Writing) :یہ زبان کے طلباء کے لیے ایک اہم صنف ہے۔ تفریحی صنعت میں تخلیقی مصنفین کے لیے کئی مواقع ہیں جن میں فلمیں، اشتہارات، تھیٹر، ڈیجیٹل پلیٹ فارم، ویب سائٹس، بلاگز، اور دیگر شعبوں میں مواد کی ضرورت ہوتی ہے۔
رابطہ عامہ (Public Relations):یہ ایک اور اہم شعبہ ہے جہاں زبان کے ماہر ین کی خدمات درکار ہیں۔ روایتی PR مہارتیں، جیسے ترغیبی تحریر اور میڈیا تعلقات ہمیشہ قیمتی ہوتے ہیں۔ لیکن ٹیکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے، اضافی مہارت جیسے سوشل میڈیا مواد کی تخلیق نے بھی اہمیت حاصل کر لی ہے۔ تعلقات عامہ کے ماہرین مختلف تنظیموں کے لیے کام کرتے ہیں، بشمول حکومت، کارپوریشنز، کالجز اور یونیورسٹیاں، اسکول، میڈیا ، اور پیشہ ورانہ انجمنیں۔کئی ادارے ہیں جو زبانوں اور اس سے منسلک علوم کے مختلف کورسز فراہم کرتے ہیں۔ چند ممتاز اداروں کی فہرست یہ ہے: دہلی یونیورسٹی، نئی دہلی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن، نئی دہلی، مہاتما گاندھی انٹرنیشنل ہندی یونیورسٹی، وردھا، مہاراشٹر، اندرا گاندھی اوپن یونیورسٹی، دہلی ، کیندریہ انواد سنستھان، آگرہ، مکھن لال چترویدی پترکاریتا وشو ودیالیہ، بھوپال، بنارس ہندو یونیورسٹی، وارانسی، این سی ای آر ٹی (بی ایڈ کے لیے)، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ، ٹی ایم بھاگلپور یونیورسٹی، بھاگلپور، الہ آباد یونیورسٹی، پریاگ راج، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، کروکشیتر یونیورسٹی، کروکشیتر، مدراس یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ۔
رابطہ۔9970809093
[email protected]