جرسِ ہمالہ
میر شوکت پونچھی
شام کے نرم جھونکوں میں افق کی زردی ریشمی پردوں کی طرح فضاؤں پر جھول رہی تھی۔ پہاڑوں کے سائے یوں پھیلتے تھے جیسے نیلگوں کاغذ پر سیاہی کی روشنائی بے قابو ہو کر بہنے لگے۔ وادی میں چھائی خاموشی ایسی تھی جیسے وقت نے سانس روک لی ہو اور لمحے ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھ کر سستانے لگے ہوں۔ مگر اس خاموشی کے بطن میں ایک ہنگامہ دفن تھا—وہ ہنگامہ جو زبان اور اقتدار کے بیچ ازل سے جاری ہے۔ اس ہنگامے کو سمجھنے کے لیے اگر آپ سیاست کی گلیوں کا در کھولیں تو وہاں ایک پرانی حویلی ملتی ہے؛ شکستہ مگر زبان دار، جس کے صحن میں نعرے بازوں کی گونج ہے، دالان میں فیصلوں کی سرگوشیاں، اور ایک ایسا کمرہ جہاں لفظوں کو قید کیا جاتا ہے اور زبانوں کو زنجیر پہنائی جاتی ہے۔ یہی وہ کمرہ ہے جہاں کہانی معراج ملک سے جڑتی ہے۔معراج ملک، وہی شخص جس کی زبان ندی کے شور کی مانند بہتی ہے، جس کے جملے بجلی کے کوندوں کی طرح اندھیروں کو چیر دیتے ہیں۔ چاہنے والے کہتے ہیں کہ اس کی گفتار میں شجاعت کا رس ہے، مخالفین شکوہ کرتے ہیں کہ اس کی زبان میں خنجر کی دھار ہے۔ اس کے الفاظ دہکتے انگارے کی طرح ہیں: روشنی بھی دیتے ہیں اور چھالے بھی ڈال دیتے ہیں۔ معراج کی شخصیت اُس گنے کے کھیت جیسی ہے جہاں رس بھی ہے اور ہاتھ لگتے ہی خراش بھی۔ وہی زبان جسے شعرا ’’کڑوی حقیقت‘‘ کہتے ہیں، مگر کبھی اس قدر تیز ہو جاتی ہے کہ چائے کی شکر بھی اس کے سامنے شرما جائے۔
کہا جاتا ہے کہ جسم کے زخم بھر جاتے ہیں لیکن زبان کے زخم روح کو چھلنی کر دیتے ہیں۔ افسرانِ حکومت اس حقیقت کا چلتا پھرتا ثبوت ہیں؛ کسی نے ان کے بدن کو نہیں چھوا مگر دل کے پردے لرز گئے۔سرکار نے اس زلزلہ خیز زبان کا علاج PSA میں ڈھونڈ نکالا۔ زبان کو تو روکا نہیں جا سکتا، مگر زبان کے مالک کو قید کیا جا سکتا ہے۔ یوں ’’محفوظ حراست‘‘ کے نام پر معراج کو حراست میں لے لیا گیا۔ یہ وہی PSA ہے جو عوام کے لیے قفلِ ستم اور حکمرانوں کے لیے سکونِ جاں کا مرہم ہے۔ مقدمہ نہیں، وکیل نہیں، جج نہیں—بس ایک حکم نامہ اور گرفتاری۔ سرکار نے اعلان کیا: ’’ہم نے معراج کو عوام کی حفاظت کے لیے گرفتار کیا ہے۔‘‘ گویا وہ شخص جس کی زبان نے ظلم کے اندھیروں میں روشنی ڈالی، اچانک عوام کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار پایا۔ جیسے اس کے الفاظ ندی کا سیلاب ہوں جو بستیاں بہا لے جائیں گے، جیسے اس کی گفتار بجلی کی کڑک ہو جو بستیوں کے چراغ بجھا دے۔لیکن تماشہ یہ ہوا کہ جن عوام کے تحفظ کے نام پر یہ گرفتاری کی گئی، وہی عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں میں نعرے گونجنے لگے: ’’معراج کو رہا کرو!‘‘ ’’یہ ہماری زبان ہے، ہماری آواز ہے!‘‘ بزرگ اپنے عصا پر جھکتے ہوئے بھی جلوس میں شریک تھے، نوجوان مٹھیوں کو آسمان کی طرف بلند کر کے للکار رہے تھے، عورتیں گھروں کی کھڑکیوں سے آوازیں دے رہی تھیں۔ گویا شہر کے ہر کونے میں ایک ہی صدا تھی کہ یہ گرفتاری ہماری سلامتی نہیں بلکہ ہماری آواز کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔حکومت اپنی جگہ پر مطمئن ہے۔
ان کے نزدیک معراج کو قید کرنا نظم قائم کرنے کے مترادف ہے۔ ایک افسر نے کہا: ’’ہم نے شور کو خاموش کر دیا، اب امن ہے۔‘‘ لیکن عوام کا شور سڑکوں پر اور زیادہ بڑھ گیا۔ وہ پوچھتے ہیں: ’’اگر معراج خطرہ ہے تو ہمیں کس سے بچا رہے ہو؟ اس سے جو ہماری امید ہے یا اس سے جو ہماری زبان ہے؟‘‘ سرکار کے بیانیے اور عوام کے جذبات میں اتنا گہرا خلا ہے کہ کوئی پل اس فاصلے کو پاٹ نہیں پا رہا۔یہ صورتِ حال کسی مشاعرے کی سی لگتی ہے۔ ہال میں سب غزل کی نرمی سن رہے ہوں اور اچانک کوئی شاعر اعلان کر دے: ’’جناب، یہ سب دھوکہ ہے!‘‘ محفل میں شور بھی اٹھتا ہے اور خاموشی بھی چھا جاتی ہے۔ معراج کے جملے بھی کچھ ایسے ہی ہیں، وہ محفلوں کو بکھیر دیتے ہیں مگر تاریخ کے حافظے میں ثبت ہو جاتے ہیں۔PSA کا نفاذ محض ایک قانونی قدم نہیں بلکہ علامت ہے اُس قدیم کشمکش کی جو زبان اور طاقت کے درمیان جاری ہے۔ زبان چاہتی ہے کہ سچائی کو بیان کرے، طاقت چاہتی ہے کہ سکوت قائم رہے۔ جب زبان سکوت کو توڑتی ہے تو طاقت حرکت میں آتی ہے، اور جب طاقت حرکت میں آتی ہے تو زبان مزید تیز ہو جاتی ہے۔ صدیوں سے یہی کھیل جاری ہے: کبھی زبان آگے، کبھی قوت۔ کبھی عوام مطمئن، کبھی عوام مضطرب۔یہ بھی حقیقت ہے کہ معراج کے چاہنے والے ان کی زبان کو مردانگی کہتے ہیں اور مخالفین اسے بدزبانی۔ جیسے شیر کی دہاڑ جنگل کے جانوروں کو سہما دیتی ہے لیکن اس کے چاہنے والے تالیاں بجاتے ہیں کہ ’’واہ، کیا جاہ و جلال ہے۔‘‘
معراج کے جملے بھی کسی کے لیے قند ہیں، کسی کے لیے زہراب۔ زبان اگر شعلہ ہے تو روشنی بھی دیتی ہے اور جلانے کی طاقت بھی رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس روشنی کو چراغ بنایا جائے یا الاؤ؟اب کشمکش یہ ہے کہ کس کی سنی جائے۔ سرکار کہتی ہے: ’’ہم نے عوام کو محفوظ کیا۔‘‘ عوام چیخ رہے ہیں: ’’ہمارا رہنما واپس کرو۔‘‘ ہم صحافی اور قلم کار سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ آخر انصاف کا پلڑا کس طرف جھکے گا۔ عوامی احتجاج کو طاقت کے بل پر کب تک دبایا جا سکتا ہے؟ سڑکوں پر کھڑا ہجوم یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ کیا PSA کی زنجیر واقعی ان کے تحفظ کے لیے ہے یا صرف اقتدار کی دیواروں کو محفوظ رکھنے کے لیے؟آخر میں ایک معصومانہ مشورہ—معراج صاحب کو بھی اور حکومت کو بھی۔ معراج صاحب! سچ کہیے ضرور، لیکن کبھی کبھی ریختہ کے شاعر کی طرح زبان پر شکر کی چٹکی بھی چھڑک لیجیے تاکہ تلخی میں بھی مٹھاس باقی رہے۔ اور حکومت! نظم قائم رکھیے ضرور، مگر کبھی کبھی صداقت کو برداشت کر لیجیے۔ کیونکہ سچ بھی ایک دن اقتدار کے لیے ڈھال ثابت ہو سکتا ہے۔ یوں سب خوش رہیں گے: افسران کی روحیں بھی مطمئن، عوام بھی مطمئن، اور ہم قلم کاروں کو بھی تحریر کے لیے نئے موضوعات ملتے رہیں گے۔یہ قصہ ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ سیاست کی دنیا میں زبان، زنجیر اور زبردستی کی حفاظت تین ہمزاد کردار ہیں۔ کوئی زبان کی آگ سے جھلس رہا ہے، کوئی زنجیر کی جھنکار سے مطمئن ہے، اور کوئی زبردستی کو امن کا دوسرا نام مانتا ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ زبان کو زنجیر سے ہمیشہ نہیں باندھا جا سکتا۔ یہ وہ پرندہ ہے جو پنجرے میں بھی گیت گا لیتا ہے، اور کبھی کبھی وہ گیت دیواریں بھی گرا دیتے ہیں۔
کہا جو سچ تو سزا یہ ملی کہ قید ہوا
مگر سکوت کی دیوار بھی ہلائی گئی