عام طور پرعلامتی افسانوں میں کردار کے داخلی کرب اور خارجی انتشار کا تصادم ظاہر کیا جاتا ہے۔یہ نفسیاتی کشمکش کاایک ایسافن کارانہ اظہار ہوتا ہے جس میں وجودی کرب ‘ احتساب یاداخلی بحران کے پیش نظر انسان یا کردار کے ذہنی مسائل یا تناؤ کو تخلیق کا حصہ بنایا جاتا ہے۔افسانہ علامتی ہو یا تجریدی‘ اس کے متن میں الفاظ کے لغوی ‘ظاہری اورمنطقی معنی کے علاوہ کئی اور معنی بھی پوشیدہ ہوتے ہیں جو افسانے کی مجموعی فضا کو سمجھنے سے ہی قاری کے سامنے کھل جاتے ہیں لیکن اس قسم کی فضا سازی کاپورا انکشاف قاری کے لئے سخت ذہنی چیلنج کے مترادف ہوتا ہے۔اردو میں اس قسم کی صورت حال انتظار حسین ‘خالدہ اصغر‘انور سجاد ‘منشا یاد‘غلام الثقلین ‘عبدالصمد‘سلام بن رزاق‘ دیوندرا سرا‘بلراج مینرا ‘ سریندر پرکاش‘کمار پاشی ‘احمد ہمیش ‘مظہرالزمان وغیرہ کے بیشتر افسانوں نظر آتی ہے۔اب اس تمہید کے تناظر میں جناب زاہد مختار کے افسانے''پہلا چہرہ '' پربات کریں توفنی اعتبار سے یہ افسانہ ایک ایسے تخلیقی کینوس میں بنا گیا ہے جو علامتی اظہار کے توسط سے جدید انسان کے دوہرے معیار کے داخلی کرب اور خارجی انتشار کا افسانوی مرقع بن جاتا ہے۔افسانے کا مرکزی کردار نفسیاتی دباؤ اور ذہنی کشمکش کا شکار ہوکر بااختیار ہونے کے باوجود بے اختیار یا بے بس دکھائی دیتا ہے۔ افسانہ استفہامیہ انداز سے شروع ہوتے ہی قاری کو سوچنے پر اکساتا ہے:
’’وہ بول رہا تھا اور میں خاموش تھا۔۔۔‘‘
یہاں پر بظاہر دو کردار نظر آتے ہیں یعنی ’وہ‘اور ’میں‘اور پھر پوری کہانی میںیہی دو کردار ابہامی انداز سے موجود بھی ہوتے ہیں ۔کہانی میں’میں‘ مرکزی کردار کی حیثیت سے موجود ہے اور یہی کردار دوسرے کردار یعنی ’وہ ‘کی نمائندگی بھی کرتا رہتا ہے اور کہانی کے کلائمکس پر پتہ چلتا ہے کہ اصل میں یہ دوسرا ابہامی کردار کون ہوتا ہے۔یہی ابہامی کیفیت افسانے کی قرأت کو جاندار بناتی ہے۔ اس کے بعدمرکزی کردار خود کلامی میںاپنی بے بسی کو یوں ظاہر کرتا ہے:
’’وہ بول رہا تھا اور میں خاموش تھا لیکن میرے اندر جو نامعلوم شخص اُس کی ہر بات کا جواب دینے کے لئے مچل رہا تھا وہ بھی گونگا تھا یا پھر اُس کی زبان کاٹ دی گئی تھی بالکل اُسی طرح جس طرح میری زبان پر تالے لگا دئے گئے تھے۔ میں پچھلے کئی دنوں سے اپنے ہی گھر میں مقید اُس اجنبی کی باتیں سُننے کیلئے مجبور تھا۔ اُس کا ہر حکم ماننے پر مجبور تھا۔ وہ جو چاہتا‘ کر لیتا تھا ۔‘‘
کردار کے اس بیانیہ منظرکی قرات کے دوران ایک غیر محسوس سا سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ اگر کردار دو ہیں یعنی مرکزی کردار اور دوسرا چہرا تویہ تیسرا یعنی اندر والا نامعلوم شخص کون ہے؟یہاں پر راوی نے دوبارہ ابہامی کیفیت پیدا کی ہے اور معنی قاری کی سوچ کے لئے التوا میں رکھ دیاہے۔ دراصل یہ کردار انسان کا ضمیر ہوتاہے جو برائی پر کھبی نہ کبھی انسان کی ملامت کرتا رہتا ہے۔ افسانہ نگار نے افسانے کی ابتدا ڈرامائی انداز سے کی ہے کیونکہ افسانہ شروع کرتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مرکزی کردار کو کسی ڈاکو یا چور وغیرہ نے اغوا کرلیا ہواور وہ بے بس ہوکر نہ کچھ بول سکتا ہے اور نہ ہی اس قید تنہائی سے نکل سکتا ہے۔ اس کے بعد افسانہ نگار مرکزی کردار کے حریف کردار یعنی'' دوسرا چہرہ''کے داخلی دوغلے پن اور خارجی مصنوعی پن کی عکاسی کچھ اس انداز سے کرتا ہے:
’’وہ کوئی عام انسان نہیں تھا بلکہ مجھے تو وہ کوئی بہت بڑا ساحر، کرتب باز دکھائی دیتا تھا کیونکہ ہر روز جب وہ میرے منہ پر ایک نیا تالا لگا کر قد آدم آئینے کے سامنے استادہ ہو کر اپنے اصلی چہرے پر ایک اور چہرا لگا کر باہر جانے کے لئے تیار ہوتا تھا تومیرے دل میں ایک ہی خواہش اُبھرتی تھی کہ کاش میں اُس کا اصلی چہرہ دیکھ پاوٗں ‘لیکن میری یہ آرزو کبھی پوری نہ ہوئی۔‘‘
افسانہ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مرکزی کردار کی بے بسی اور مجبوری کی وجہ اس طرح سے ظاہر کرتا ہے:
’’اور میں شدّت کے ساتھ اُس دن کے اپنے فیصلے پر افسوس کرنے پر مجبور ہو جاتا جس کے طفیل میں نے اپنی ’انٹی لیکچول فطرت‘کے زیر اثر پہلگام کے ایک پہاڑی سر سبز علاقے میں ایک زمین کے ٹکڑے پر ایک چھوٹی سی ہٹ (HUT) تعمیر کر کے بظاہر اپنے تمام شناساؤں سے دور ایک پُر سکون تنہائی کا اہتمام ِخشک و تر کر دیا تھا۔ اب یہاں دور دور تک کوئی نہ تھا جو میری مددکوآسکتا۔‘‘
یہاں پر راوی مرکزی کردار کی کرب انگیز تنہائی والی مقید زندگی کی وجہ’ انٹلیکچول فطرت‘ کوقراردیا ہے ‘اور یہی’ انٹلیکچول فطرت ‘ پوری کہانی کا بنیادی ڈسکورس بن جاتا ہے ‘کیونکہ اب افسانہ نیا موڈ اختیار کرجاتاہے ۔مرکزی کردار کے بنیادی تناؤ کی نفسیاتی اور سماجی وجوہات کا احاطہ یوں ہوسکتاہے کہ مرکزی کردار جدید دور کے مصنوعی رکھ رکھاؤ اور مادیت پرستی کا اتنا اسیر ہوگیا تھا کہ اس کے سامنے انسانی قدروں اور باہمی رشتوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی تھی ‘اسی لئے اس نے اپنوں سے دور ایک ایسے دلکش صحت افزا مقام یعنی پہلگام (پہلگام ‘کشمیر کا ایک خوب صورت صحت افزا مقام جہاں پر دنیا بھر کے سیلانی آتے ہیں) کو سکونت کے لئے بہتر سمجھالیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی فطری سکون کی تڑپ اسے بے قرار کرتی ہے اور وہ اپنوں سے بچھڑنے کے کرب سے دوچار ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد افسانے میں ابہام کی کیفیت اس وقت عیاں ہوجاتی ہے جب مرکزی کو رہائی کی خوش خبری ملتی ہے لیکن وہ خوش نہیں ہوجاتا ہے۔وہ اپنے حریف کردار کا چہرہ دیکھتے ہی دنگ رہ جاتا ہے:
’’وہ چند لمحوں میں اپنا نیا چہرہ لگا کر جب میری جانب مڑا تو میرے منہ سے ایک دبی دبی سی چیخ نکل گئی۔ میرے سامنے ’میں‘ کھڑا تھا۔۔۔ ہاں ’میں‘۔۔۔بالکل میری صورت۔ اُس نے آج میری صورت کا چہرہ اپنے اجنبی چہرے پر لگا لیا تھا۔ اچانک میری حیرت اُسکی مکروہ ہنسی میں دفن ہوگئی۔‘‘
یہاں پر اب سارا ابہام کھل کر سامنے آتا ہے کہ دوسرا چہرہ اصل میں مرکزی کردار کا ہی چہرہ ہوتا ہے جو خودپسند سوچ کی وجہ سے انسانی سماج سے الگ تھلگ ہوکر رہ گیا تھا۔اس طرح سے افسانہ نگار نے بڑی فنی مہارت سے جدید دور کی چمک دھمک اور مصنوعی عیش وآرام کو پانے کی خاطر مکاری ‘حد سے زیادہ مادیت پرستی وغیرہ جیسے نفسیاتی مسائل کو انسان کے ادھورے پن کی توجیہ بنا کر پیش کیا ہے ۔
اس افسانے کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ پورا افسانہ علامتی ہونے کے باوجود اپنی تفہیم میں کوئی خاص اڑچن پیدا نہیں کررہا ہے لیکن اس کے باوجود فنی طور پر کہانی کے اختتامی حصہ میں چند باتوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔افسانے کی ابہامی کیفیت اس جملے پر ختم ہوجاتی ہے جب راوی کہتا ہے کہ’’وہ چند لمحوں میں اپنا نیا چہرہ لگا کر جب میری جانب مڑا تو میرے منہ سے ایک دبی دبی سی چیخ نکل گئی ۔میرے سامنے’’ میں ‘‘کھڑا تھا ۔ہاں ’’میں‘‘۔اس تعلق سے مناسب یہ رہتا کہ یہاں پر بھی ابہامی کیفیت بھی جاری رہتی تاکہ افسانے کا جاندار کلائمکس متاثر ہونے سے بچ جاتا۔
وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر193221
موبائل نمبر؛7006544358