رئیس احمد کمار
ترنم ریاض بیک وقت ایک معروف شاعرہ، افسانہ نگار، مترجم اور تنقید نگار کی حیثیت سے ادبی دنیا میں جانی جاتی ہے۔ جن خواتین ادباء نے ادبی دنیا میں برق رفتاری سے ترقی کے منازل طے کرکے اپنی خاص پہنچان بنائی ہے، ان میں ایک نام ترنم ریاض کا بھی ہے۔ اردو زبان و ادب کی خدمت ترنم ریاض میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے جذبات و احساسات کو ادب کی مختلف اصناف کے ذریعے اظہار کرتی ہے۔ متعدد مواقعے ملنے کے باوجود انہوں نے کہیں باضابطہ ملازمت نہیں کی۔ کئی قومی و بین الاقوامی سمیناروں میں شرکت کی۔ 2014 میں انہیں سارک لٹریری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ترنم ریاض بیس تصنیفات کی مصنفہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہمدرد دل رکھنے والی شخصیت کا نام ہے۔ ان کے کئی ناول بھی منظر عام پر آئے ہیں اور جس ناول کی وجہ سے وہ دنیا بھر میں مشہور ہوگئی، وہ ’’برف آشنا پرندے‘‘ ہے۔ مرا رخت سفر، ابابیلیں لوٹ آئیں گی، یمبرزل اور یہ تنگ زمین ان کے معروف افسانوی مجموعے ہیں۔ کئی ادباء اور نوجوان اسکالر اُن کے ادبی خدمات پر مختلف جامعات میں تحقیق کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، انُہی میں ایک ہونہار اسکالر زاہد ظفر بھی قبل ِ ذکر ہے۔ شوپیاں کے کیلر گاؤں سے تعلق رکھنے والے زاہد ظفر نے ترنم ریاض پر اچھا خاصا کام کیا ہے اور ان کا پی ایچ ڈی بھی موصوفہ کے افسانوں پر جاری ہے۔ زیر نظر تصنیف ’’ترنم ریاض کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ ‘‘زاہد ظفر نے کافی محنت اور لگن سے ترتیب دی ہے۔ 365 صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب وادی کے مشہور پبلشر جی این کے پبلیکیشنز کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے۔ کتاب میں ترنم ریاض کے پندرہ افسانے درج ہیں جن کا تجزیاتی مطالعہ بھی افسانے کے آخر میں دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے جو ممتاز ادیبوں نے تحریر کئے ہیں۔ مزید اس کتاب میں ڈاکٹر ریاض توحیدی کا پیش لفظ، زاہد ظفر کی اپنی بات اور پروفیسر قدوس جاوید، ڈاکٹر ریاض توحیدی، عشرت ناہید اور ڈاکٹر قسیم اختر کے چار مضامین بھی شامل ہیں۔ زاہد ظفر نے اس تصنیف کو جموں کشمیر کے تمام افسانہ نگاروں کے نام کیا ہے۔ کتاب کا پیش لفظ لکھتے ہوئے ڈاکٹر ریاض توحیدی مانتے ہیں کہ ان افسانوں کے ساتھ ساتھ ترنم ریاض کی افسانہ نگاری کی فنی خوبیاں بھی اجاگر ہوگئی ہیں۔ بقول زاہد ظفر، ترنم ریاض نے اپنی تنقیدی اور تحقیقی کتابیں بھی یادگار چھوڑی ہیں۔ ڈاکٹر قدوس جاوید کے مطابق ترنم ریاض کو ان کے شہکار ناول ’’برف آشنا پرندے‘‘ کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ترنم ریاض کا فن کشمیری سائیکی کا بے باک ترجمان ہے۔ ترنم ریاض کی فکشن نگاری پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ریاض توحیدی لکھتے ہیں کہ ترنم ریاض کی تخلیقات میں وادی کشمیر کے درد کے ساتھ ساتھ یہاں کے فطری مناظر اور سماجی زندگی کی فنی عکاسی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ عشرت ناہید ترنم ریاض کے بارے میں رقمطراز ہیں ’’ترنم ریاض کے افسانے انسانیت کے سبق کو بھلا دینے والے انسانوں کی داستانیں معلوم ہوتے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر قسیم اختر لکھتے ہیں کہ ترنم ریاض نے نہ صرف خواتین تخلیق کاروں میں اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے بلکہ انہوں نے نوے کی دہائی کے بعد کی نسل کے افسانہ نگاروں میں اپنا دبدبہ قائم کیا ہے۔’’ ہم تو ڈوبے ہیں صنم‘‘ کتاب میں شامل پندرہ میں سے یہ پہلا افسانہ ہے جس کا تجزیاتی مطالعہ ڈاکٹر عالیہ کوثر نے تحریر کیا ہے۔ ’’بی بی‘‘ کتاب میں شامل دوسرا افسانہ ہے جس کا تجزیاتی مطالعہ رفیع الدین انجم نے لکھا ہے۔ یہ افسانہ ترنم ریاض نے کمال فنکاری سے تخلیق کیا ہے۔ اس کی کہانی ہماری زندگی کی دیکھی بھالی کہانی ہے۔ ’’ ماں صاحب‘‘ کتاب میں شامل ایک اور افسانہ جس کا بہترین اور خوبصورت تجزیاتی مطالعہ دانش اثری نے لکھا ہے۔ اس افسانے میںہمارے معاشرے میں جہاں بزرگوں کو نظرانداز کرکے انہیں اولڈ ایج ہوموں میں رہنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے وہیں کچھ باضمیر بیٹے بھی سماج کا حصہ ہیں ،جو اپنے والدین خاص کر بیوہ ماں کی فرمانبرداری انجام دینے میں کسی کوتاہی کا شکار نہیں ہوتے ہیں بلکہ انہیں ہرطرح کی سہولت و آرام کا سامان مہیا رکھنے میں ہی اپنی خوشی سمجھتے ہیں۔’’ برآمدہ‘‘افسانے کا تجزیہ معروف مصنفہ و فکشن نگار پروفیسر نیلوفر ناز نحوی نے تحریر کیا ہے۔ جس میں مردوں کی اپنی بیوی کے تئیں بے وفائی کو بڑی فنکاری اور ماہرانہ طریقے سے دکھایا گیا ہے جو معاشرے میں ایک ناسور کی طرح پھیل چکا ہے۔’’ برف گرنے والی ہے‘‘ اس افسانے کا تجزیاتی مطالعہ زاہد ظفر نے خود ہی لکھا ہے۔ یہ وادی کشمیر کے ایک انتہائی غریب گھر کی کہانی سنارہا ہےکہ جسے دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے ممکن ہوپاتی ہے اور سرکار بچہ مزدور ی پر روک لگاتی ہے۔ایک اور افسانہ ’’تعبیر ‘‘جس کا تجزیاتی مطالعہ معروف انشایہ نگار ایس معشوق نے بڑی عرق ریزی سے تحریر کیا ہے۔
ترنم ریاض فکشن کا ایک اہم نام ہے، جس کے بغیر اردو فکشن نامکمل ہے، ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف برصغیر کے بڑے بڑے ناقدین ِادب نے بھی کیا ہے۔