صدائے کمراز
اِکز اِقبال
وہ ایک سرد اور خاموش سی شام تھی۔ سورج پہاڑوں کے پیچھے چھپنے کو تھا، جب میں اپنے پرانے استاد جناب خلیل احمد صاحب کے گاؤں گیا۔ برسوں بعد ان کی خیریت معلوم کرنے کا ارادہ تھا۔ خلیل صاحب ایک نرم گوباوقار اور دانشور انسان تھے جن کے الفاظ اکثر میرے قلم کا عنوان بنتے تھے۔ ان کے کچے مگر صاف ستھرے آنگن میں قدم رکھتے ہی ایک مانوس خوشبو نے میرا استقبال کیا۔ لیکن ایک انجانی کسک بھی فضا میں تھی۔کونے میں بنی ایک جھونپڑی نما کمرہ — جس کے دروازے پر مضبوط زنجیریں پڑی تھیں ، نے مجھے ٹھٹھکا دیا۔ اس میں سے وقفے وقفے سے کسی کے کراہنے، بڑبڑانے اور دیواروں سے سر ٹکرانے کی آواز آ رہی تھی۔ میرے سوالیہ نگاہوں کے جواب میں خلیل صاحب کا چہرہ بجھ گیا۔ ان کی آواز شکست خوردہ سی تھی،’’یہ میرا بیٹا اذان ہے۔ جو کبھی آسمان چھونے کے خواب دیکھا کرتا تھا، آج اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا آپ برباد کر چکا ہے۔‘‘
اذان — وہی اذان، جو کبھی پورے علاقے میں اپنی ذہانت اور شائستگی کے لیے جانا جاتا تھا، جس نے ضلع بھر میں دسویں جماعت میں نمایاں پوزیشن حاصل کی تھی، آج زنجیروں میں جکڑا پڑا تھا۔ خلیل صاحب نے آنکھوں کے گوشے پونچھتے ہوئے بتایا:
’’پہلے پہل تو وہ کالج جانے لگا، مگر جلد ہی کچھ بگڑے ہوئے دوستوں کے نرغے میں آ گیا۔ نشہ، آوارہ گردی، بدکلامی۔۔۔ سب کچھ بدل گیا۔ سمجھایا، روکا، مدرسہ بھیجا، بزرگوں سے دم کروایا، مگر وہ دن بہ دن ہمارے لئے اجنبی بنتا گیا۔ ایک دن ماں پر ہاتھ اٹھایا اور اگلے روز مجھے دھکا دے کر باہر نکال دیا۔‘‘میں سنتا گیا، دل جیسے ساکت ہوتا گیا۔
یہ کہانی صرف خلیل صاحب کی نہیں، نہ ہی صرف اذان کی — بلکہ ہمارے اس پورے معاشرے کی ہے جہاں بچوں کی ذہانت کو پرکھا تو جاتا ہے، مگر ان کی صحبت، ان کی روح، ان کے خوابوں کی حفاظت نہیں کی جاتی۔ ہم ان کے جسموں کو تو لباس پہنا دیتے ہیں، مگر ان کے خیالات کو ننگا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم انہیں مہنگی تعلیم دلاتے ہیں، مگر اخلاقی تربیت کے نام پر خاموش ہو جاتے ہیں۔
اذان جیسے نوجوان صرف نشہ نہیں کرتے، وہ اپنے ماں باپ کی امیدیں، خواب اور عزت بھی سلگاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں جلتی سگریٹوں سے زیادہ خطرناک وہ بے لگام آزادی ہوتی ہے جو ہم انہیں ‘اعتماد کے نام پر دے دیتے ہیں۔
اس سانحے کے بعد میں نے خود سے ایک سوال کیا —،’’کیا ہم نے اپنے بچوں کو اس دنیا کے لیے تیار کیا ہے، یا اس دنیا کی تباہ کاریوں کے حوالے کر دیا ہے؟‘‘
تعلیم اگر کردار نہ تراشے، تو وہ صرف کاغذوں کا بوجھ ہے،آزادی اگر ذمہ داری سے خالی ہو تو وہ صرف بربادی کا پیش خیمہ ہےاور محبت اگر اندھی ہو جائے تو وہ تباہی کا دوسرا نام ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بطور والدین، اساتذہ اور سماجی رہنما اپنی ذمہ داریوں کا صحیح ادراک کریں۔ بچوں کی تربیت صرف اسکول تک محدود نہ ہوبلکہ گھر کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ بچے کے اخلاق، عادات، اور صحبت پر گہری نظر رکھے۔ انہیں صرف دنیوی تعلیم نہیں بلکہ دینی و اخلاقی شعور بھی دیا جائے تاکہ ان کی شخصیت کا ہر پہلو متوازن اور مکمل ہو۔
یاد رکھیں، آزادی اور بے راہ روی میں فرق ہے۔ بچوں کو سوچنے، سوال کرنے اور سیکھنے کا موقع دیں مگر ان پر نگاہ رکھیں کہ وہ کن محفلوں میں جا رہے ہیں، کن سے دوستی کر رہے ہیں اور کس سمت جا رہے ہیں۔ یہ محض ایک وقتی پریشانی نہیں بلکہ ایک پوری نسل کا سوال ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ صرف نرمی سے پیش نہ آئیں بلکہ ان کے مزاج، دوستیوں، سوالوں اور بدلتے رویوں کو باریکی سے دیکھیں۔ انہیں صرف ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی نہیں، ایک باوقار انسان بننے کی راہ دکھائیں۔ انہیں مسجد کی اذان سے آشنا رکھیں، تاکہ وہ زندگی کی اذیتوں میں بھی اللہ کو نہ بھولیں۔
قرآن ہمیں خبردار کرتا ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا ترجمہ:’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔‘‘
اذان کی کوٹھری کا دروازہ بند تھا، مگر شاید ہمارا دل، ہماری آنکھیں اور ہماری سوچیں بھی بند ہو چکی ہیں۔ ہمیں ان دروازوں کو کھولنا ہوگا — قبل اس کے کہ ہر گھر میں ایک اذان قید ہونے لگے، اور ہر ماں کی گود خالی ہو جائے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں کو قلعے سمجھتے ہیں مگر ان کی دیواروں میں روزانہ بے شمار دراڑیں ڈالتے رہتے ہیں۔ ماں باپ بچوں کو جدید لباس اور مہنگے گیجٹس تو خرید کر دیتے ہیں مگر ان کے دل و دماغ کو خالی چھوڑ دیتے ہیں۔ اساتذہ امتحان کے نمبر گننے میں لگے ہیں، مگر شاگرد کے کردار اور صحبت پر ان کی نگاہ نہیں۔ سماج اپنے بگڑے نوجوانوں کو ’فیشن‘ کا نام دے کر داد دیتا ہے اور پھر انہی کی لاشوں پر نوحہ پڑھتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ہمارے بچے کہاں جا رہے ہیں، اصل سوال یہ ہے کہ ہم انہیں کہاں چھوڑ آئے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ اذان جیسا نوجوان کیوں تباہ ہوا، سوال یہ ہے کہ کتنے اذان ابھی ہماری آنکھوں کے سامنے تباہ ہو رہے ہیں اور ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟ اگر ہم نے آج اپنے رویوں کو نہ بدلا تو کل ہر گلی کوچے میں زنجیروں کی جھنکار سنائی دے گی اور ہر دروازے کے پیچھے ایک باپ آنسو بہاتا ہوگا۔ وقت ہے کہ ہم جاگ جائیں، ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
وقت کے دامن میں چھپی یہ کہانیاں محض کسی ایک گھر کی الم ناک روداد نہیں ہوتیں، یہ تو پورے معاشرے کے ضمیر پر لکھی ہوئی وہ سیاہ لکیریں ہیں جو ہمیں بار بار آئینہ دکھاتی ہیں۔ اولاد کی تربیت ایک مقدس امانت ہے، جسے اگر ہم نے زمانے کی دوڑ دھوپ، عیش پرستی اور اندھی تقلید کی نذر کر دیا تو پھر نہ گھروں کی رونق باقی رہے گی، نہ ماؤں کے آنچل کی خوشبو۔ یاد رکھیے! خواب صرف کتابوں اور ڈگریوں سے نہیں، بلکہ دعا، تربیت اور صالح صحبت سے پروان چڑھتے ہیں۔ اگر ہم نے اپنے بچوں کو محبت کے ساتھ ساتھ شعور اور کردار کا زادِ راہ نہ دیا تو آنے والا کل ہمیں صرف حسرت اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں دے گا۔ یہی وقت ہے کہ ہم اپنے گھروں کو پھر سے علم و اخلاق کی چراغ گاہ بنائیں اور اپنی نسلوں کو ایسی راہ دکھائیں جہاں ان کی جوانی پر کوئی داغ نہ لگے، اور ان کے خواب پھر سے شاہین کی پرواز کی صورت میں آسمان کو چھو سکیں۔
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت ِ زاغ
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تیری رہے بے داغ
( اقبال )
(مضمون نگار، مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورہ قاضی آباد میں پرنسپل ہیں)
رابطہ ۔ 7006857283
[email protected]