تجارت
شوکت الحق كهورو
کشمیر میں ہر ایک سرکاری ملازم نہیں ہے، نہ ہی ہر کسی کے پاس اپنا کاروبار ہے۔ یہاں ہزاروں لوگ محنت کے عوض چھوٹی چھوٹی روزی کماتے ہیں — ،اپنی ریڈی ، کھانے پینے کی چھوٹی دکانیںیا گلی کوچوں میں چھوٹے چھوٹے کام۔ یہ وہ طبقہ ہے جو صبح سویرے اٹھ کر محنت میں نکلتا ہے اور شام کو اپنی کمائی سے اپنے بچوں کو پلانے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہمیشہ وہی ناانصافی اسی طبقے کے ساتھ کیوں ہوتی ہے؟حال ہی میں سوپور کے ایک علاقے میں ایک ریڈ کی خبر آئی۔ سرکاری اہلکار آئے، کئی ریڈی والوں کا سامان ضبط کیا گیا۔ ان اہلکاروں میں کوئی بیرونی نہ تھا — وہ بھی کشمیری تھے۔ کیا ان اہلکاروں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ بھائی لوگو! تم سرکاری ملازم ہو، تمہاری تنخواہ مقررہ وقت پر آتی ہے، تمہارے بچے سکون سے کھاتے پیتے ہیں۔ جس غریب کی ریڈی تم نے اٹھائی، کیا تم نے سوچا کہ وہ اُسی روزی کے ذریعے شام کو اپنے بچوں کا پیٹ بھر رہا تھا؟ کیا تم نے سوچا کہ شاید آج وہی بچے رات بھوکے سوئیں گے؟یہ کوئی واحد واقعہ نہیں۔ کشمیر کے کئی شہروں اور قصبوںسری نگر، بانڈی پورہ، بارہمولہ، پلوامہ وغیرہ میں ایسی ریڈز معمول بن چکی ہیں۔ صبح کی محنت شام کو مٹی میں مل جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ اس ظلم کا نشانہ وہ لوگ بنتے ہیں جو قانون توڑنے کے لیے نہیں، بلکہ زندہ رہنے کے لیے محنت کرنے کے لیے وہاں کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ فردِ واحد کا نہیں، پورے محنت کش طبقے کا ہے۔
حکومت کا مؤقف سمجھنا ضروری ہے — ،شہر کی روٹ چکنائیاں، ٹریفک اور عوامی نظم و ضبط کا معاملہ سنجیدہ ہے۔ مگر ان مسائل کا مطلب یہ نہیں کہ روزی کمانے والوں کی عزت اور روزگار چھین لیا جائے۔ حل یہ نہیں کہ سختی صرف سزا کے طور پر برتی جائے، حل یہ ہونا چاہیے کہ متوازن اور انسانی پالیسیاں بنائی جائیں۔پھر سوال اٹھتا ہے کہ حکومت کیا کرے؟ چند عملی تجاویز : مخصوص مقامات کا تعین کیا جائے،جہاں ممکن ہو، ریڈی والے اور چھوٹے فروشوں کے لیے مشخص، محفوظ اور باوقار جگہیں مقرر کی جائیں۔ یہ مقامات ٹریفک اور عوامی تحفظ کو متاثر کیے بغیر طے کیے جائیں۔لائسنس و رجسٹریشن میں آسانی فراہم کی جائےاور چھوٹے تاجروں کو سادہ، کم فیس والی رجسٹریشن کا موقع دیا جائے تاکہ وہ قانونی طور پر اپنی دکانیں چلا سکیں۔ انہیںمتبادل روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں،انہیںمقامی سطح پر چھوٹے قرضے دیئے جائیں اور ہنر مندی کی تربیت اور تعاون یافتہ منڈیوں کے ذریعے انہیں خود مختار کیا جائے۔ جب پابندی لازم ہو تو پہلے وارننگ، مشاورت اور متبادل راستہ دینا چاہیے، ضبطی اور چالان اولین حل نہ ہوں۔مقامی این جی اوز، تجارتی ایسوسی ایشنز اور ضلعی انتظامیہ مل کر ایسے پروگرام چلائیں جو عارضی مشکلات میں خاندانوں کی مدد کریں۔
ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ ظلم اور غصے کے جذبات کبھی کبھار انتہا پسندانہ سوچ کو جنم دیتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ کہیں گے کہ اگر سرکار کچھ نہیں کرتی تو امیر مل کر غریبوں کو ختم کر دیں، — یہ بیان نفرت اور تشدد کی طرف مائل کرتا ہے اور کسی بھی معاشرے کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ غریبوں کو نکال پھینک دینے یا ان کے خلاف تشدد کی بات کرنا انسانیت کے خلاف ہے اور آئین و قانون کے مطابق بھی غیرقانونی ہے۔ اگر مسئلہ واقعی حل کرنا ہے تو نفرت کے بجائے ہمدردی، مشترکہ سوچ اور منظم حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے۔
کشمیر کی خوبصورتی صرف درختوں اور پہاڑوں میں نہیں بلکہ ان محنت کش ہاتھوں میں بھی ہے جو روزانہ زندگی کی مشکل سے جوجھ کر اس وادی کو چلائے رکھتے ہیں۔ ایک مضبوط سماج وہی ہے جو اپنی کمزور رکنوں کا خیال رکھے۔ جب انصاف کمزور کے ساتھ ہوگا تبھی معاشرہ مضبوط ہوگا۔آخر میں حکومت، ضلعی انتظامیہ اور عوام — تینوں سے اپیل ہے کہ سزا یا بے رحم کنٹرول کافی نہیں۔ رہنمائی، جگہ اور مواقع پیدا کرکے اس ظلم کو روکا جا سکتا ہے۔ آئیے، ہم سب مل کر ایک ایسا کشمیر بنائیں جہاں ہر محنت کش کو نہ صرف جینا ہو بلکہ عزت سے جینے کا حق بھی ملے۔
رابطہ۔7006528042
[email protected]