اور آخر کار حکومت ہند کو کمسن لڑکیوں کے ساتھ زنابالجبر کے مرتکبین کے لئے سزائے موت کی تجویز کے لئے آرڈیننس منظور کرنا ہی پڑا۔ ہندوستانی عوام کی اکثریت نے اس کا خیر مقدم کیا ہے جب کہ ہیومن رائٹس واچ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے سزائے موت کی بجائے قانون میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔ ہیومن رائٹس واچ بھی ایک عجیب ادارہ ہے‘ اسے اب بھی ان بے رحم درندوں سے ہمدردی ہے جن کی وجہ سے کئی زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں۔ حکومت ہند نے یہ آرڈیننس خوشی سے نہیں بلکہ عوامی احتجاج کے پیش نظر منظور کیا ہے جس کے تحت 12سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی اجتماعی عصمت دری کے لئے کم سے کم سزاء بیس سال کی یا پھر موت کی تجویز ہے۔ سولہ سالہ سے کم عمر کی لڑکیوں کے ’’ریپ‘‘ کے لئے بیس سالہ قید یا ساری زندگی جیل میں گزارنے کی سزا۔ سولہ سال سے زائد عمرکی لڑکیوں یا خواتین کی عصمت دری کے لئے سزا کو سات سال کی قید سے بڑھا کر دس سال کردیا گیا ہے۔
یوں تو 16دسمبر 2012ء کی سیاہ رات کو دہلی میں ایک چلتی بس میں جیوتی سنگھ پانڈے ( عرف دامنی )نامی میڈیکل اسٹوڈنٹ کے وحشیانہ انداز میں گینگ ریپ کے بعد جس کے نتیجہ میں اس لڑکی کی موت واقع ہوگئی تھی۔ ملک گیر احتجاج کے بعد کریمنل لاء (ترمیمی) ایکٹ 2013میں ترمیمات کی گئی تھیں جن میں عادی مجرمین کے لئے سزائے موت کے بشمول قوانین کو سخت ترین کردیا گیا تھا۔ پولیس اور عدالتوں کو رہنمایانہ ہدایات جاری کی گئیں۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ تب سے لے کر آج تک لڑکیوں‘ خواتین کے خلاف تشدد آمیز جنسی جرائم میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا گیا۔ ایک واقعہ پر جتنا عوامی احتجاج ہوتا اس کے جواب میں مزید نئے جرائم کی خبریں منظر عام پر آنے لگتیں۔ ان نئے جرائم میں وہی طریقہ اختیار کئے جاتے ہیں جو پچھلے جرائم میں اختیار کئے گئے ہوں۔ کشمیر کی آصفہ کو ’’ریپ ڈرگ‘‘ دی گئی گویا دوسرے مجرمین کو راہ دکھائی گئی کہ اگر تمہیں جرم کرنا ہے تو تم بھی اس ڈرگ کا مظلوم لڑکی یا خاتون کے لئے استعمال کرو۔
ہندوستان میں آئے دن ہونے والے خواتین کے خلاف جنسی جرائم سے ارباب اقتدار کی پریشانی واجبی ہے‘ کیوں کہ اپوزیشن کے لئے یہ سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو خواہ وہ حکمراں ہو یا اپوزیشن انہیں متاثرین سے کوئی ہمدردی نہیں۔ حالیہ عرصہ میں کئی واقعات پیش آئیں جس میں برسر اقتدار جماعت کے ارکان بھی ان جرائم میں ملوث ہیں جیسا کہ ا ُنائو میں ہوا۔ ہر جماعت ان بدترین واقعات کے استحصال کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔ ویسے شعبہ سیاست میں بھی ایسے جرائم عام ہیں۔ خود رینوکا چودھری سابق ایم پی نے یہ کہا ہے کہ پارلیمان میں بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ اس کا جنسی استحصال ہر جگہ ہوتا ہے۔
کمسن لڑکیوں کی عصمت دری ہو یا شادی شدہ خواتین کے ساتھ زنابالجبر یہاں شرمندہ اور مظلوم یہی رہتی ہیں۔ انہیں اپنے اور پرائے سبھی دھتکار دیتے ہیں۔ ایسی مظلوم خواتین لڑکیوں کی بازآبادکاری کے لئے اگرچہ 2013ء میں مرکزی حکومت نے نربھیا فنڈ قائم کیا اور اس کے لئے ہزاروں کروڑ کے فنڈز مختص کئے مگر یہ فنڈز استعمال نہیں ہوئے۔ کیوں کہ بہت ہی کم متاثرین ان بازآبادکاری کے مراکز سے رجوع ہوتی ہیں۔ ’’اپرچیتا‘‘ حکومت کا ایک ایسا کونسلنگ سنٹر ہے جو جئے پور میں ہے اور جہاں متاثرین کو پولیس میں ایف آئی آر درج کرنے اور دیگر قانونی معاملات میں رہنمائی کی جاتی ہے۔ مگر یہ پراجکٹ فیل ثابت ہوچکا ہے۔
بہرکیف یہ حقائق اپنی جگہ ہیں۔ اب حکومت ہند کے نئے آرڈیننس پر مختلف گوشوں میں مباحث جاری ہیں۔ اس نئے آرڈیننس میں بھی ترمیم کی ضرورت ہے۔ لڑکی کمسن ہو یا بالغ، دوشیزہ ہو یا شادی شدہ خاتون اگر اس کے ساتھ زنا بالجبر ہوتا ہے تو خاطیوں کو سزائے موت ہی دی جانی چاہئے۔ بالکل عرب ممالک کی طرح برسر عام کوڑے مار مار کر جان نکالی جائے اور سنگسار کیا جائے۔ جب تک قانون کا ڈر نہ ہو جرائم پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔
حال ہی میں راج ٹھاکرے نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’’ریپ‘‘ کے واقعات پر قابو پانے کے لئے اسلامی قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہئے۔ بلاشبہ اسلامی ممالک کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ باوجود حالیہ عرصہ کے دوران بیشتر عرب ممالک میں بہت سارے گناہ اور جرائم نئی تہذیب ، نئے فیشن کے طور پر اختیار کئے جارہے ہیں۔ اس کے باوجود اب بھی اسلامی ممالک میں (مراقش، پاکستان، بنگلہ دیش کے سوا) جرائم کی شرح بہت کم ہے جن اسلامی ممالک میں شرعی قوانین نافذ ہیں وہاں یہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ برسوں میں ایسا کوئی واقعہ منظر عام پر آتا ہے تو یہ درس عبرت بن جاتا ہے۔ زنابالجبر کے واقعات تو بہت کم پیش آتے ہیں۔ مرد یا عورت کی بے وفائی کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں تو انہیں بھی عبرتناک سزا ملتی ہے۔ وہ دیکھنے والوں کو اس قسم کے جرائم یا گناہ سے باز رکھتی ہے۔ عرب یا اسلامی ممالک میں شرعی عدالت اس وقت سزا دیتی ہے جب باقاعدہ گواہوں کے ساتھ ثبوت پیش ہو۔ قانون کا ڈر، خوف الٰہی سب سے بڑی وجہ ہے جنسی جرائم کے روکنے کے لئے ۔ جہاں تک زنابالجبرکے واقعات کا تعلق ہے‘ اسلامی ممالک میں مظلوم متاثرہ لڑکی یا عورت کے ساتھ پوری ہمدردی کی جاتی ہے۔ اگر حمل قرار پاتا ہے تو ہونے والے بچے کی نگہداشت پر توجہ دینے کے لئے کہا جاتا ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے جنگ سے متاثرہ ممالک میں زنابالجبر کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم مظلوم خواتین کے ساتھ یہ جبر حرامی سپاہیوں کا ہے جو عوام کو نفسیاتی طور پر دبائو کا شکار بناتے ہوئے ان کی ہمتوں کو پست کرنا چاہتے ہیں۔ مغربی ممالک کے سپاہی جو عراق، شام، مصر، یمن، قطر، فلسطین، مراقش، تیونس، شمالیہ اور سوڈان میں ہے‘ سرکاری افواج کے ساتھ مل کر خواتین، دوشیزائوں اور معصوم بچوں کی عصمتوں سے کھیلتے ہیں۔ ان ممالک میں اَن بیاہی مائوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مرد مظلوم بھی ہے مجبور بھی ہے اور جب ان کی بیویاں، بہنیں یا بیٹیاں بے آبرو کی جاتی ہیں تو یہ ان کی اور خود اپنی نظروں سے گرجاتے ہیں۔ داعش کے کارکنوں پر یہ الزام ہے کہ وہ بھی اجتماعی عصمت ریزی کے واقعات میں ملوث ہیں‘ بیرونی دنیا یہی سمجھی ہے کہ مسلمان ان جرائم میں ملوث ہیں‘ حالانکہ داعش یا ان جیسے تنظیموں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور کوئی بھی سچا مسلمان زنابالجبر جیسے جرائم کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں میں فوجی جوان لڑکیوں اور خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی کرتے ہیں اور انہیں قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ کشمیر میں بھی ایسے واقعات پیش آئے۔ مظفرنگر میں حال ہی میں ایسا ہوا ہے افسوس اور شرم کی بات ہے کہ آدتیہ ناتھ مظفرنگر کے انسانیت دشمن مجرمین کے خلاف مقدمات سے دستبرداری اختیار کرنے والے ہیں۔ گجرات میں کتنی لڑکیوں اور خواتین کو اس ملک کے سیکولر کردار کے دشمن حرامیوں نے اپنی ہوس کا شکار بنایا۔ بلقیس بیگم اس کی ایک زندہ مثال ہے۔ نئے قوانین میں اس حد تک ترمیم کی جائے کہ جن مجرمین کو ماضی میں عدالتوں نے ہلکی سزائیں دی تھی انہیں نئے قوانین کے تحت سزا دی جائے۔
یوروپی ممالک کے سروے کے مطابق اسلامی ممالک ہر ایک جرم میں دوسرے ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ اغواء کے معاملات میں ہوں یا ریپ کے واقعات دوسرے ممالک کے مقابلہ میں یہ جرائم نہ ہونے کے مماثل ہیں۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ عرب ممالک میں ایک سے زائد شادیوں کا رواج عام ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک شوہر ایک سے زائد منکوحہ بیویوں کے ساتھ زندگی گزارتا ہے تو اس کا ذہن پراگندگی سے پاک ہی رہتا ہے۔ حکومت ہند نے مجبوری کے تحت ہی سہی‘ ایک معقول آرڈیننس تو منظور کیا۔ حالانکہ کل تک ان ہی اسلامی قوانین کی مخالفت کی جاتی رہی۔ سزائے موت کو مہذب سماج میں ناقابل عمل سمجھا گیا۔ افغانستان، ایران یا کسی عرب ملک میں زناکاری پر سنگسار کرنے پر واویلا مچایا گیا۔ سزائے موت کو طالبانی سزا کہا جانے لگا۔ آج راج ٹھاکرے جیسے عناصر بھی اسلام کی حقانیت‘ اس کے قوانین کے معترف ہیں۔ حکومت اگرچہ این ڈی اے کی ہے مگر اسے بھی یقین ہے کہ امن و امان‘ سکون اسلام کی آغوش میں ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے۔۔۔ اسلام کی خاصیت ہے کہ اس کے دشمن بھی دل کی گہرائیوں سے اس کی عظمت کا عتراف کرتے ہیں۔شاید اسی لئے شاعر نے کہا ہے ؎
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا تم دبائو گے
رابطہ :ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔ فون9395381226