سرینگر // این ایچ پی سی اور ریاستی سرکار کے درمیان ریٹلے بجلی پروجیکٹ کے معاہدے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے عوامی اتحاد پارٹی صدر انجینئر رشید نے کہا ہے کہ ریاست کے لوگوں کو اٹانومی ملی نہ سیلف رول دیا گیا، آزادی اور رائے شماری کا خواب بھی ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ہے، لیکن اب جو ریاست کے پاس بچا ہے اُس کو بھی ایک ایک کر کے لیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے مین اسٹریم اور مزاحمتی خیمہ کی سبھی پارٹیوں کو مشترکہ موقف اختیار کرنے کی اپیل کی ہے ۔سوموار کو پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انجینئر رشید نے کہا کہ انہیںگھر سے گھسیٹ کر ان کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ انجینئر رشید نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ریاستی سرکار اور این ایچ پی سی کے درمیان ریٹلے پاور پروجیکٹ کی تعمیر کے حوالے سے معاہدے پر دستخط کرائے ہیں اور کسی کو خبر دیئے بغیر یہ بجلی پروجیکٹ این ایچ پی سی کو دیا گیا ۔
انہوں نے سوال کیا کہ اوڑی اول اور دوم، سلال، ڈ ول ہستی، کشن کنگا، سیوا دوم اور دیگر پاورپروجیکٹوں کی واپسی کے اس کمپنی کے سابق وعدوں کا کیا ہوا۔ انہوں نے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ جولائی 2000میں کئے گئے معاہدے کو کوڈ ے دان میں پھینکا گیا حالانکہ نہ صرف مرکزی سرکار کے مختلف ورکنگ گروپوں نے بلکہ رنگا راجن کمیٹی نے بھی جموں کشمیر کو، معاشی طور مضبوط بنانے کے لئے، اسے اسکے پاور پروجیکٹ واپس لوٹانے کی سفارشات کی تھی۔انہوں نے کہا کہ پرانے بجلی پروجیکٹ تو ریاست کو واپس دئے نہیں گئے اب ریٹلے بجلی پروجیکٹ بھی این ایچ پی سی کو دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی پاور ڈولپمنٹ کارپوریشن نے بگلیار ،فسٹ اور سکینڈ بنا یا اور ریاستی کارپوریشن نے کہا تھا کہ ریٹلے پروجیکٹ بھی وہ خود ہی اپنی شرائط پر بنائیگی لیکن نئی دہلی یہاں کے آبی ذخائر کو لوٹ رہی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ کل جب وزیر اعظم وادی آئے تو انہوں نے چوری سے اس پروجیکٹ کے ایم یو ایس ریاستی سرکار اور این ایچ پی سی کے درمیان دستخط کرائے اور اس کی کس کو بھنک تک نہیں لگنے دی ۔انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ انہیں معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ریٹل کے بعد 3200 میگاواٹ والے کرتھائی اول و دوم اور ساولاکوٹ کے پاور پروجیکٹ بھی این ایچ پی سی کو تحفے میں دئے جانے والے ہیں جبکہ خود جموں کشمیر کو ان بڑے منصوبوں میں سے کچھ نہیں ملنے والا ہے ۔
انہوں نے اس مین اسٹریم اور مزاحمتی پارٹیاں سے اپیل کی ہے کہ وہ ریٹل پاور پروجیکٹ پر سنجیدگی سے سوچیں اور جہاں کہیں بھی انہیں اُن کی ضرورت پڑے گی وہ اُس کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں کیونکہ کشمیر کے آبی زخائر کی ایک ایک کر کے نیلامی ہو رہی ہے ۔