سرینگر// ریاست میں گورنر راج کے دوران این ایچ پی سی اور جموں و کشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے درمیان شراکت داری کے تحت850میگاواٹ ریٹلے ہائیڈل پاور پروجیکٹ کی تعمیر کیلئے ایک مشترکہ کمپنی قائم کرنے میں حائل رکاوٹوں کو دور کردیا گیا ہے۔ اس مقصد کیلئے جو منصوبہ تیار کیا گیا ہے ، جسے وزیر اعظم آفس اور مرکزی وزارت بجلی کی حمایت بھی حاصل ہے،میں کہا گیا ہے کہ این ایچ پی سی کو کپمنی میں 51فیصد اور پی ڈی سی کو49فیصد حصص حاصل ہونگے۔ایک اعلیٰ آفیسر نے بتایا کہ گورنر انتظامیہ میں موجود حکام ایک مخصوص سطح پراس بات کے متمنی تھے کہ اس منصوبہ کو ریاستی سطح پر منظور کیا جائے۔عام طور پرپی ڈی سی سے متعلق کوئی بھی پالیسی معاملہ کارپوریشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرس کے سامنے حتمی فیصلے کیلئے رکھاجاتا ہے ۔
افسر کے مطابق لیکن ریتلے ،جو ایک نہایت ہی ’ ’پرکشش،قابل عمل اورقابل کار‘‘ پروجیکٹ تصور کیاجاتا ہے، کاایجنڈا بورڈ ممبران میں انفرادی طورتقسیم کیا گیاتھا۔تازہ ترین تجویز ریاستی انتظامیہ کی طرف سے گزشتہ نومبر میں مرکزی وزارت بجلی کے ساتھ اُٹھائی گئی تجویز کے برعکس ہے ۔اُس وقت ریاست نے پروجیکٹ کیلئے مشترکہ شراکت داری(جوائنٹ وینچر) کے پانچ ماڈل رکھے تھے جن کے تحت ریاست جموں کشمیر کو15سے25فیصد بجلی مفت فراہم ہوتی ۔ ریاست اور وزارت بجلی کے درمیان پروجیکٹ کی مجوزہ ملکیت کا تناسب بھی ریاست کے حق میں تھا -90:10،75:25،اور51:49۔ 90:10کے تحت ریاست کو15فیصد مفت بجلی ملتی،جبکہ75:25اور51:49ماڈلوں کے تحت ریاست کو بالترتیب15اور25فیصد مفت بجلی فراہم ہوتی ۔ان میں سے کسی بھی ماڈل کے تحت ریاست کو پروجیکٹ کمیشن ہونے کے7برس کے بعدواپس ملنا تھا۔ حکام کے مطابق نئی تجویز کے مطابق نہ صرف پروجیکٹ کی ملکیت کے حصص تبدیل کئے گئے،بلکہ یہ بھی تجویزکیاگیا کہ پروجیکٹ ریاست کو25سال بعد واپس ملے گا۔تاہم اس میں ایک شق یہ رکھی گئی ہے کہ ریاست این ایچ پی سی سے پروجیکٹ چالو ہونے کے پانچ سال بعد حصص واپس خرید سکتی ہے ۔لیکن ریاست کی مالی حالت جو آمدنی کے کسی بڑے وسیلے کے بغیر ہے ،مسلسل کمزور ہوتی جارہی ہے، یہ شق صرف کاغذات تک ہی محدود رہے گی ۔
ایک اور افسر نے بتایا کہ اگر چہ ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا گیالیکن مرکزی وزارت کی طرف سے این ایچ پی سی کو اس پورجیکٹ کی تعمیر میں شامل کرنے کی شاید ہی کوئی مزاحمت ہوگی،جبکہ ریاست اس وقت براہ راست نئی دلی کے راج میں ہے ۔حکام کے مطابق اس حوالے سے صورتحال اگلے ہفتے وزیراعظم کے دورہ ریاست کے دوران واضح ہوجائے گی جب وہ یہاں کئی بجلی منصوبوں کاافتتاح کریں گے ۔حکومت ہند کی بجلی پیدواری کمپنیوںاور پائور ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی اشتراکیت سے ریاست میں قائم کی گئی دوسری کمپنی ،جو جموں کشمیر میں پن بجلی کا استحصال کرنے کیلئے قائم کی گئی ہے۔چناب ویلی پائو پروجیکٹس لمیٹیڈ جوکہ این ایچ پی سی اور پائو رتھرمل کارپوریشن کے علاوہ پی ڈی سی کی شراکت دار کمپنی ہے نے2100میگاواٹ حجم کے3 پروجیکٹس سونپ دئیے ہیں۔ این ایچ پی سی کی اس کمپنی میں51فیصد حصص ہیں،جبکہ پی ڈی سی کے پاس49فیصد حصص ہیں۔ یہ پروجیکٹ آغاز کے ساتھ ہی متنازعہ رہے ہیں،جبکہ ریتلے بجلی پروجیکٹ کی عمل درآمدگی حیدر آباد کی کمپنی جی وی کے پائور انفراسٹریکچر لمیٹیڈ کو2010میں حصے میں آئی،جبکہ2014میں اس نے یہ پروجیکٹ’’ زیادہ قیمتوں کی شرح پر اٹھے تنازعہ کی وجہ سے بیچ میں ہی چھوڑ دیا۔ جی وی کے پائور انفراسٹریکچر لمیٹیڈ نے’’بوٹ‘‘ کی بنیاد پر یہ ٹھیکہ35برسوں کیلئے لیا تھا۔کشتوار کے دریاے چناب پر درب شالہ میں ریتلے پروجیکٹ جموں کشمیر میں قابل کشش اور پرکشش پروجیکٹ سمجھا جاتا ہے،اور یہ 6 ہزار کروڑ روپے سے2017میں مکمل ہونا تھا،تاہم4 برسوں کی تاخیر سے نہ صرف پروجیکٹ کی قیمت میں اضافہ ہوا،بلکہ اس سے توانائی کے حصول کا بھی نقصان ہوا،جبکہ اس کی تکمیل اب2022 تک ہی ممکن ہے۔