کسی بھی سرکاری اور غیر سرکاری سیکٹر میں جب کوئی ملازم عمر کی ایک خاص مقرر حد تک پہنچ جاتا ہے تو اسے ملازمت سے سبکدوش کیا جاتا ہے اور متعلقہ محکمہ اسے کئی مراعات جیسے گریجوٹی ، لیوسیلری اور پینشن وغیرہ واگذار کرتا ہے تاکہ ملازمت سے فارغ شدہ ملازم اپنی زندگی آسانی سے گزار سکے ۔ ہمارے یہاں جوں جوں ریٹائرمنٹ کی تاریخ نزدیک آتی ہے توں توں کئی ایک ملازمین ریٹائرمنٹ کے خوف سے نفسیاتی طور پریشان ہوجاتے ہیں بلکہ چند ایک مختلف بیماریوں کے شکار ہوجاتے ہیں ۔ یہاں پر سبکدوشی کے متعلق عام طور یہی تصور پایاجاتا ہے کہ ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد آدمی کسی کام کا نہیں رہتا،اس کے قوائے عقلی اور جسمانی کمزور پڑجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریٹائر ہونے والے بعض ملازم اپنی ریٹائر منٹ کی تاریخ کوچھپانے کی لاکھ کوشش کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی یہ کھلاراز پوشیدہ رکھتے ہیں۔ماہرین نفسیات کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد بہت جلد انسان ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہونا شروع ہوجاتا ہے اور فعال بننا تو درکنار وہ خود دوسرے افراد خانہ کے لئے بے شمار مسائل کاموجب بنتا ہے ۔ ایک ایسا انسان جس نے باقاعدگی سے کئی سال سرکاری نوکری کی ہو ، دفتر جانے کے لئے روز تیار ہونے کا عادی ہو،گھر سے دھوم سے نکلتا ہو۔ جب ریٹائرمنٹ کے سبب یہ سب نہیں کر پائے تو وہ ا پنے ذہن کو پیغام بھیج دیتا ہے کہ اب تم بے کار ہو، تمہیں مرنے کی تیاری کرنی چاہئے، دنیا سے اب تمہارا کوئی واسطہ نہیں وغیرہ وغیرہ ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب انسان کو کرنے کے لئے کوئی کام نہ ہو تو بے کاری کے نتیجے میں اس کے دماغ میں مختلف قسم کے منفی خیالات گھومتے پھر تے ہیں جن کے مضر اثرات اس کی زندگی پر پڑتے ہیں ۔ اس کے بجائے ایک مصروف آدمی اپنے کام کے ساتھ مشغول ہونے کی وجہ سے کچھ اور سوچنے کا موقع ہی نہیں پاتا۔ بہرصورت ہمارے دین میں چھٹی یابے کاری کا کوئی تصور ہی نہیں ۔ وقت گذاری ، تفریح اور چھٹیوں کا تصور عیسا ئیت میں ہے ۔ عیسائی عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں کا ئنات کو بنایا اور پھر ایک دن آرام کیا۔ اسی دن کو انھوں نےHolidayقرار دیا۔ اتوار کو چرچ جانا اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ اسلام دین فطرت ہے جو ہمیں زندگی کے ہر معاملے اور مرحلے میں مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن پاک میں کام کرنے اور نماز ادا کرنے کا ذکر ساتھ ساتھ آیا ہے۔جمعہ کی نماز کے لئے حکم ہے کہ کام روک کر نماز ادا کی جائے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ وہ لوگ جو ایمان لائے ہو،جب جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑدو ۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ پھر جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پالو‘‘ ۔ ( الجمعہ ۹تا۱۰) ۔اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نہایت ہی واضح ہے کہ ہمیں اس آیت کے ان دونوں حصوں پر عمل کرنا چاہئے یعنی پہلے حصہ پر عمل کرتے ہوئے کام روک دینا چاہیے اور دوسرے حصے کے مطابق دوبارہ کار و بار سنبھا لنا چاہئے ۔اس لحاظ سے جمعتہ المبارک کو چھٹی منانا حکم خداوندی کے خلاف ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ’’ اور دن کو ہم نے ( وقت ) روزگار بنایا ‘‘۔ ( النباء : ۱۱ ) اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بہت ساری آیات میں دنیا کو اپنا فضل اور اپنی امداد اور خیر سے تعبیرکیا ہے ۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جو شخص دنیا اس لئے طلب کرتا ہے کہ ذِلت سوال سے اپنی آبرو بچائے، اہل و عیال کا تکفل کرے اور ہمسائے پر مہربان ہو ،وہ قیامت میں اس طرح پیش ہوگا کہ اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن ہوگا۔ ‘‘ حلال ذرائع سے معاشی جدوجہد اسلام کی نظر میں اعلیٰ وارفع کام ہے ۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’ عبادت کے ستر(۷۰) جز ہیں ،ان میں سب سے افضل طلب رزقِ حلال ہے ‘‘۔ ایک حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے : عیال کے لئے مشقت سے روزی کمانے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ‘‘۔ آپ ؐنے ایک اور جگہ فرمایا : مومن کی موت آتی ہے تو اس کی پیشانی پرپسینہ ہوتا ہے ‘‘ ۔یہ وہ معاشی تصور ہے جو اسلام ہمیں دیتا ہے کہ آدمی پر لازم ہے کہ تمام عمر محنت کرے اور کمائے، خود کھائے اوروں کو کھلائے ۔ اسلام کے نزدیک تکاثر سے بچ کر دنیا کمانا کوئی معیوب یا حرام چیز نہیں۔ البتہ کمائی کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ جائز طریقوں سے حاصل کی جائے اور بعد میںبخل اور اسراف سے بچتے ہوئے اعتدال سے خرچ کی جائے ۔ دولت یقینا ایک نعمت ہے اگر اس نعمت سے دوسروں کو فائدہ پہنچایاجائے اور یہ لعنت ہے اگر اسے نمود ونمائش ، دکھاوے یا اسراف میں اُڑایا جائے ۔ جب ہم پیغمبروں ؑکی پاک سیر توں پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ تمام پیغمبران کرام ؑ کسی نہ کسی طرح کے پیشہ سے وابستہ تھے ۔ ان میں سے زیادہ تر نے زندگی کے کسی نہ کسی موڑپر مویشی ضرور چرائے ہیں ۔ حضرت داؤد ؑزرہ بناتے تھے جب کہ حضرت یوسف ؑ نے عمر کا پہلا حصہ غلامی میں کاٹا اور بعد میںصاحب اقتدار ہوئے۔ تمام صحابہ کرام ؓ محنت کی روزی کماتے تھے اورشرعی قوانین کے تحت خرچ کرتے تھے ۔ نبی پاک ﷺ کسی کو دیکھتے اور وہ آپ ﷺ کو بھلا آدمی معلوم ہوتا تو پوچھتے تھے کہ یہ کوئی صنعت و حرفت کرتا ہے ؟ اگر لوگ یہ کہتے کہ نہیں تو آپﷺ بیزاری کا اظہار کرتے ۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیوںہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرما یا : ’’ اس لئے کہ جب مومن صاحبِ حرفت اور پیشہ ور نہیں ہوتا تو وہ اپنے دین ہی کو ذریعۂ معاش بناتا ہے ‘‘ ۔ حضرت عمر فاروق ؓ کو بے کاری ، تعطل، جمود اور وقت ضائع کرنا سخت ناپسند تھا۔ آپ ؓ نے فرمایا : ’’ مجھے اِس سے نفرت ہے کہ تم کو بے کار دیکھوں کہ نہ کوئی دنیا وی کام کرو۔ نہ آخرت کا عمل تمہیں مصروف رکھے ۔ ‘‘
الغرض دین میں مومن کیلئے بے کاری ، وقت گذاری اور آرام طلبی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ۔ بقول علامہ اقبال ؒ فرصت اور فراغت صرف غلاموں کا خاصہ ہے ؎
میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندہ ٔحُر کے لئے جہاں میں فراغ
مومن دنیا کے اس امتحان گاہ میں جب ایک مرحلہ طے کرتا ہے تو وہ دوسرے مرحلے کی تیاری میں مصروف عمل رہتا ہے ۔ اس کی فطرت میں آرام اور عیش پسندی نہیں ہوتی ۔اس کی مثال چمکتے ہوئے سورج کی ہے جو کبھی ایک خطے کو اپنی روشنی سے منور کرتا ہے اور کبھی دوسرے علاقوں کو روشنی اور گرمی فراہم کرتا ہے ۔عصر حاضر میں اُمت مسلمہ کی بے بسی ، بے کسی اور زوال وپستی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم مسلمانان ِ عالم وقت کی صحیح قدر قیمت سے آشنا نہیں۔ ہم اپنا قیمتی وقت بے مقصد کھیل کود ، تفریحی مشاغل اور بے کاری میں گذارتے ہیں ۔ ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ ہم لوگ کسی شعبے یا محکمے میں اپنی سروس کے بیس تیس سال گزارنے کے بعد اس طرح گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں جیسے ہم نے کوئی بڑا کار نامہ انجام دیاہو۔ اس کے برعکس غیر مسلم اقوام کی تعمیر و ترقی کا راز یہی ہے کہ ان کے افراد مرتے دم تک اپنے آپ کو مختلف کاموں میں وقف رکھتے ہیں ۔چند سال قبل امریکہ کے بل کلنٹن جب عہد ہ ٔ صدرارت سے سبکدوش ہوئے تو انھوں نے امریکہ کے اسکو ل آف اکنامکس میںدرس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ اگر کوئی ہمارے یہاں ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی کاروبار یا پیشہ اختیار کرتا ہے تو سماج میں اُسے طرح طرح کے طعنے دئے جاتے ہیں کہ اللہ اللہ کر نے کے بجائے یہ کس جنجال میں پھنس گیا،اگر زندگی کے بقیہ ایام گذارنے کیلئے اسے معقول پنشن ملتی ہے تو اسے کام کرنے کی کیا ضرورت ؟چلئے ٹھیک ہے کہ اگر اس کے پاس گزر اوقات کے لئے آمدنی کامعقول ذریعہ ہے تو بھی وہ کیونکر بے کاربیٹھا رہے ، اسے چاہیے کہ اپنا وقت رضاکارانہ طور مختلف شعبوں جیسے دعوت ، تعلیم و تربیت ، سماجی خدمت ، تجار ت وغیرہ میں بے لوث خدمات پیش کر کے ملت کو فائدہ پہنچا ئے۔
ایک ریٹائرڈ ملازم کو ملازمت سے اپنی سبکدوشی کو زندگی سے فرار کے بجائے اسے اپنی صلاحیت اور تجربے کے مطابق سماج کی بہتری کے لئے زریں موقع تصور کرنا چاہیے۔ علامہ نے اسی تصور کو اجاگر کر تے ہو ئے بجا طور فرمایا ہے ؎
توُاسے پیمانہ ٔامروزفردا سے نہ ناپ
جاوداں ، پیہم رواں ،ہر دم جواں ہے زند گی