محمدعمر ندوی لداخی
کشمیر میں سے پہلے حضرت سید عبد الرحمن ترکستانی تشریف لائے، وہ رینچن شاہ کے دور حکومت میں تشریف لائے۔کشمیر کا راجہ حضرت کے دست مبارک پر ایمان لایا اور وہ کشمیر کا پہلامسلمان بادشاہ قرار پایا۔اس کے ایمان لانے سے اسلام کو حکومت کی سر پرستی حاصل ہو گئی۔ حضرت بلبل شاہؒ، اُن کے دوست حضرت ملا احمد اور رنچن شاہ کی قبریں عالی کدل سرینگر میں دریائے جہلم کے کنارہ آج بھی موجود ہیں۔ میں وہاں ۲۰۱۸-۲۰۱۹ دوران جا چکا ہوں اور وہاں ان کے لئے دعا ئے مغفرت کی، وہاں حضرت بلبل شاہؒ کی بنائی ہوئی کشمیر کی سب سے پہلی مسجد دیکھی، مسجد بہت ہی سادہ اور با برکت تھی، افسوس ہے کہ میں خواہش کے با وجود اس مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکا کیونکہ مسجد کی مرمت ہو رہی تھی ۔مسجد کا مینار نہیں ہے۔میں اس وقت چاڈورہ و ناگام بڈگام کشمیر میں بحیثیتZonal Education Officer ڈیوٹی دے رہا تھا۔یاد رہے کہ حضرت بلبل شاہ صاحبؒمسلکاً حنفی اور مشرباً سہروردی تھے،اُن کا روحانی سلسلہ مشہور صوفی بزرگ شاہ نعمت اللہ فارسی شیرازیؒ سے تھااور اپنے مرشد کی ایما پر کشمیر دعوتِ دین کے لئے آئے تھے۔حضرت عبد الرحمن بلبل شاہ رحمة الله عليه کےچند سال بعد حضرت شاہِ ہمدان سید علی ثانی ہمدانی رحمة الله عليه(۱۳۸۴-۱۳۱۴) سات سو سادات کے ساتھ ہمدان ایران سے کشمیر تشریف لائے ،وہ مسلکاًشافعی اور مشرباً کبروی تھے، انہوں نے کشمیر والوں کو ادع الی سبیل ربك بالحکمة( سورة النحل 125) پر عمل کرتے ہوئے صرف دین خالص اور اسلام کی دعوت دی، اپنے مسلک کی تبلیغ نہیں کی، یہ حکمت کا تقاضہ تھا، اسی پر انہوں نے اور ان کے ساتھ آئے ہوئے سات سو سادات کرام نے حکمت و دانشمندی سے اسلام پھیلایا، آپ ؒ تین بار ( ۷۷۴ھ، ۷۸۱،۷۸۵ھ) کشمیر آئے۔وادی کشمیر کی موجودہ خانقاہ معلی جو سرینگر شہر میں دریائے جہلم کے کنارہ واقع ہے، اُنہیں کی طرف منسوب ہے، جہاں وہ عبادت کرتے تھے اور ان کی دینی دعوت کا مرکز بھی وہی تھا۔آج کشمیر میں انہیں بزرگوں کی محنت کی بدولت نوے پچانوے فیصد ایمان والے ہیں۔حضرت شاہ ہمدانؒ بلتستان اور لداخ بھی دعوت و تبلیغ کے لئے گئے، اُن کی کوششوں سے بلتستان و گلگت و سکردو، دراس، کرگل، بوغدانگ اور طور طوک لیہہ لداخ میں سو فیصد مسلمان ہیں۔
حضرت شاہ ہمدان ؒاپنے ساتھ مختلف کاریگر بھی لائے، ان میں علماء، اہل فن، ماہرین طب و حکمت اور ماہرین زراعت بھی تھے۔ اس کے علاوہ قالین بافی،نمدہ سازی، پیپر ماشی ، گتہ سازی، عمارتی تزیین و آرائش، نقاشی اور ماہرین خطاطی بھی اپنے ساتھ لائے،ان سے اہل کشمیر نے بہت کچھ سیکھا۔ حضرت شاہ ہمدانؒ کے رفقاء اپنےہاتھ کی کمائی کھاتے تھے، انہوں نے لوگوں کے لئے بہت اچھے نمونے پیش کئے۔یاد رہے کہ حضرت بلبل شاہؒنے اپنے پیر مرشد، شاہ نعمت اللہ فارسی شیرازیؒ کی ایما پر دعوتِ دین کے لئے کشمیر آئے تھے۔حضرت عبد الرحمن بلبل شاہؒ کےچند سال بعد حضرت شاہِ ہمدان سید علی ثانی ہمدانی ؒ سات سو سادات کے ساتھ ہمدان ایران سے کشمیر تشریف لائے اور انہوں نے اسلام کو بحیثیت مجموعی پیش کیا،گویا وہ کشمیر میں Polytechnic پولٹکنیک کے بانی قرار پائے۔غیر مسلموں میں دعوت و تبلیغ کے لئے ان کے مذاہب و کلچر اور رہن سہن کا مطالعہ بہت ضروری ہے، ہندؤوں اور بودھ مت کا مطالعہ اور ان کے اہم مراکز کی جانکاری نہایت کار آمد ہے۔میں مثال کے طور پر بودھ دھرم کے اہم مقامات کا ذکر کروں گا تاکہ ان میں کام کرنا آسان ہو۔
(Lumbini Nepal Budh’s birth place گیا( بہار) ( Budh Gaya where he attained Budhhood) سارناتھ بنارس( Sarnath where Budh gave sermons to his five disciples) کوشی نگر گورکھپو( Kushinagar Gorakhpur where he died he died یہ بودھ دھرم کے مشہور تیرتھ مقام ہیں ،جہاں بودھ مت کے ہزاروں پیروکار آتے ہیں ان میں دعوت کا کام کیا جا سکتا ہے۔
میرے عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سوق عكاظ، سوق ذی المجاز اور سوق مجنة وغیرہ جاکر دین و اسلام کی تبلیغ کرتے تھے، ہم بھی غیروں کے مذہبی مقامات جاکر حکمت کے ساتھ دین کی تبلیغ کر سکتے ہیں۔جب میں ۲۰۰۷ع میں سارناتھ بنارس گیا تو وہاں مجھے یہی خیال ہوا، میں نے بعض اسلامی تنظیموں کے ذمہ داروں کو اس طرف توجہ دلائی تھی ۔وارانسی BHU میں بھی کام کے بہت مواقع دیکھے، میں عربک، پالی اور سنسکرت ڈیپارٹمنٹ گیا، عربی ڈپارٹمنٹ کا حال بہت خستہ دیکھا،میں نے وہاں عربی میں بات کی تو وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں نے معذرت کی کہ ہم عربی بول نہیں سکتے، میں نے تعجب سے کہا کہ آپ عربک department کے ہیں اور عربی بول نہیں سکتے، یہ تعجب کی بات ہے۔ میں پالی اور سنسکرت محکمہ میں گیا، وہاں پروفیسرز بڑے مہذب اور ملنسار تھے۔
مجھے حضرت مولانا محمد فاروق خان صاحبؒ کی بات بہت پسند آئی ،انہوں نے فرمایا کہ جس قوم میں تبلیغ کرنی ہو، اس قوم کے مذہب اور اس کی تہذیب و ثقافت سے واقفیت ہونابہت ضروری ہے۔مولانا ہندو دھرم کے دھرم گروں میں خوب تبلیغ کرتے تھے، انہوں نے قرآن پاک ہندی میں ترجمہ کیا۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒه کی تفسیر تفہیم القرآن کا ہندی میں ترجمہ کیا اور اس کی تفسیر بھی لکھی، وہ کتابیں کلامِ نبوت کےنام سے سات جلدوں میں موجود ہیں، اور ہندو دھرم کی جدید شخصیتیں لکھی، میں نے یہ کتاب ۱۹۸۳ میں خرید کر پڑھی۔الغرض علماء کرام کو حکمت و موعظہ حسنہ اور جادلہم بالتی هي احسن کے ساتھ دینی دعوت کو اپنا مرکز و محور بنانا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔