خطوں کے درمیان زمینی روابط بڑھانے کیلئے حالیہ برسوں میںکئی کوششیں شروع کی گئی ہیں اوراسی کے تحت جموں اور کشمیر کے درمیان رابطےکےلئے ریلوے پروجیکٹ کا بھی آغاز ہواجس کی تعمیر جاری ہے ۔یقینا اس پروجیکٹ سے ان دونوں خطوں کے درمیان دوریاں کافی حد تک مٹ جائیںگی اور جموںسے سرینگر تک سڑک کے پُرخطراور تھکادینے والے سفر سے لوگوں کو نجات ملے گی ۔ریاست کی جدید خطوط پر ترقی کیلئے ایسے پروجیکٹ اہمیت کے حامل ہیں اور ان پر مزید تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن ان پروجیکٹوں کی تعمیر کی زد میں آنے والی زمین اور مکانات کے مالکان کو ہر گز نظر انداز نہیں کیاجاناچاہئے اور ان کو نقصان کے برابر معاوضہ دیاجاناچاہئے تاکہ وہ اجڑے ہوئے گھروں کی بدلے نئے گھر تعمیر کرکے پھر سے زندگی شروع کرسکیں ۔ابھی تک یہ دیکھاگیاہے کہ تعمیراتی کمپنیاں کام کی فراہمی کے معاملے میں جہاںمقامی نوجوانوں کو نظراندا ز کرکے بیرون ریاست سے تعلق رکھنے والے نوجوانوںسے کام کراتی ہیں وہیں زمین اور مکان مالکان کے جائز مطالبات بھی پورے نہیں کئے جاتے، جس کے نتیجہ میں وقت وقت پر مقامی نوجوان اور متاثرین سراپا احتجاج ہوجاتے ہیں اور کام میں رخنہ پڑتاہے ۔ضلع رام بن کے آڑپنچلہ کھڑی سے سمبڑ تک کشمیر ریل پروجیکٹ پر13 کلومیٹر طویل ریلوے ٹنل زیر تعمیر ہے اور اس کے پہلے مرحلے میں آڑپنچلہ کے سرن علاقے میں کھدائی کا کام مکمل کرلیا گیا ہے تاہم تعمیراتی کمپنی مزدوری فراہم کرنے کے معاملے میں متاثرہ زمینداروں اور مستحق افراد کو یکسر نظر انداز کررہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے اس ریلوے ٹنل کا کام بطور احتجاج پچھلے دس روز سے روکے رکھا ہے۔ مقامی لوگ شکایت کررہے ہیں کہ ان کے کھیت ، کھلیان ، مکان اور باغات اس ریلوے ٹنل کی زد میں آکر تباہ ہوگئے اور متعلقہ تعمیراتی کمپنی متاثرہ زمینداروں اور مقامی ہنر مند افراد کے بجائے بیرون ریاست کے لوگوں کو روزگارفراہم کرکے ان کے حق پر شب خون مار رہی ہے۔ متاثرین کو اگر معاوضہ ملابھی ہے تو وہ ان کی زمینوں اور مکانات کے عوض بہت ہی کم ہے اور اس سے ان کی زندگی آگے نہیں بڑھ سکے گی ۔ مقامی لوگ پریشان ہیں لیکن حکام اور کمپنی مالکان کو ان کے مسائل کے حل کی کوئی فکرنہیں ۔صرف اسی ٹنل کی تعمیر کے وقت ایسے مسائل کا سامنانہیں ہورہا بلکہ اس سے قبل اسی ریلوے پروجیکٹ اور جموں سرینگر چہار گلیار اسڑک کی تعمیر کے دوران کئی ایسے معاملات سامنے آئے ہیںجب مقامی لوگوں خاص کر زمین و مکان مالکان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہو ۔ ان پروجیکٹوں کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن لوگوں کو انکی ملکیتوں سے بے دخل کرنا بھی کہاں کاانصاف ہے ۔جہاں ان پروجیکٹوں کی تعمیر میں سرعت لانے کی ضرورت ہے وہیں ان کی زد میں آکر اجڑ جانے والے افراد کی مناسب بحالی کےلئے مالی امداد کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ دربدر ہونے پر مجبور نہ ہوں اور یہ پروجیکٹ ان کیلئے تکلیف دہ نہیں بلکہ سود مند ثابت ہوں ۔حکام اور کمپنی مالکان کو اس بات کو یقینی بناناچاہئے کہ مقامی نوجوانوں کو روزگار دلانے کے ساتھ ساتھ متاثرین کے جائز مطالبات بھی پورے ہوں تاکہ تعمیراتی کام میںرکاوٹیں کھڑی نہ ہوں اور پروجیکٹ کی تکمیل طے شدہ ہدف کے مطابق ہو۔