کیڑے انسانی زندگی کے رکھ رکھائو ، لائف اسٹائل اور بود وباش میں کتنے معاون ہوتے ہیں۔ کیڑے انسان کے لیے لذیذ غذائیں، دوائیں اور آرائش و زیبائش کے لیے وسائل بھی فراہم کرتے ہیں۔انہیں میں سے ایک قدیم ترین اور کار آمد کیڑا ’’ریشم کا کیڑا‘‘ ہے۔ اس سے کِرم کش انتہائی خوب صورت ، نفیس اور نرم و نازک ریشہ نکالتے ہیں اور اس سے لباس فاخرہ اور زرقد برق والا پوشاک تیار کیا جاتا ہے۔ ریشم کے حسن و جمال اور خوب صورتی کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر کے لوگوں نے اس جانب توجہ کی اور ریشم پیدا کرنے کے نت نئے سائنسی طریقوں اور مختلف قسموں کو دریافت کیا۔ ریشم کا کیڑا تتلی کی مانند ہوتا ہے جولیپی ڈاپ ٹیرا (Lepidoptera ) کے تحت آتا ہے ۔ اس کے دوخاندان اہم ہیں ایک بامبی سی ڈائی(Bombycidae ) اور دوسراسٹرنی ڈائی( Saturniidae ) ۔ یہ اپنی اہمیت و افادیت کی بنیاد پر ایک باقاعدہ صنعت کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ جسے Sericulture کا نام دیا گیاہے۔ نیز اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے Queen of Textiles بھی کہا جاتا ہے۔ ان سے پیدا ہونے والے ریشم کو تجارتی نقطہ نظر سے چار اہم خانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ مال بیری(Mulberry)، ٹسار(Tasar)، اری (Eri)اور مونگا(Monga)۔ر یشم سازی کا شمار گھریلو صنعت میں ہوتا ہے جس کے ذریعے کم لاگت میں بہتر منافع حاصل کیا جاسکتا ہے اور معیشت کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ حکومت ہند نے اس صنعت کے فروغ کے لیے سنٹرل سلک بورڈ کے علاوہ علاقائی سطح پر بہت سے مراکز قائم کر رکھے ہیں جہاں اس صنعت کے تعلق سے ضروری معلومات اور مالی امداد بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
ریشم کی دریافت کے سلسلے میں کئی روایتیں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق سب سے پہلے ہندوستان میں ہمالیہ کی ترائی میںاس کی دریافت ہوئی اور یہیں سے پوری دنیا میں پھیل گئی۔ دوسری روایت کے مطابق تقریبا 2697 قبل مسیح ہی چین کی شہزادی سی لنگ چی (si ling chi) نے دریافت کیا۔ جوکیڑے کے اندر سے نہایت باریک ، نازک اور نفیس ریشے کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس کا کیڑا شہتوت کے پتوں پر پرورش پاتا ہے ، جس سے کوکون (Cocoon ) تیار ہوتا ہے اور اس سے ریشمی دھاگا بنتا ہے پھر اس سے کپڑا تیار ہوتا ہے۔ اس طرح کئی مراحل کے بعدایک نہایت ہی نرم و نازک ، نفیس، قیمتی اور زرق برق والا لباس تیار ہوتا ہے ۔ جسے راجا ، مہاراجے، امراء اور نواب زیب تن کرکے اپنی جاہ وحشمت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان کی بیگمات ریشمی لباس میں ملبوس ہوکر اپنے حسن وجمال میں چار چاند لگاتی ہیں ۔جب کہ عام آدمی کے بجٹ سے یہ آج بھی باہر ہے۔ ر یشم کی صنعت سے کیڑوں کی اہمیت و افادیت اور قدر وقیمت سمجھ میں آتی ہے۔ ڈاکٹر ایم ایم شیخ کے مطابق ریشم کو سب سے پہلے چین میں دریافت کیا گیا۔ ہزاروں سال پہلے ہوانگ تی نامی بادشاہ کی ملکہ نے کم عمری میں ہی اس کیڑے کو دریافت کرلیا اور پھر اس سے کپڑے بنانے کا آغاز کردیا۔چوںکہ چین نے اس صنعت کوعرصہ دراز تک پوشیدہ رکھا تھا ،اس لئے 555ء میں دو راہبوں نے جاسوسی کے ذریعے اس کا علم حاصل کیا اور یورپ کو اس سے آشنا کرایا۔ پھر اہل یورپ نے ریشم سازی کا آغاز کردیا۔
ہندوستان میں ریشم کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔تاہم اس کی صنعت کے آغاز کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ البتہ اس صنعت پر پہلی بار پوسا انسٹی ٹیوٹ دہلی میں 1905ء سے 1918ء تک برطانوی ماہر حشرات الارض Lefroyکی نگرانی میں تحقیقی کام ہوتا رہا جسے ’’سلک ہائوس‘‘ کا نام دیا گیااور بعد میں یہ بھاگلپورمنتقل ہوگیا اور یہاں مسلسل اس پر تحقیقی کام ہوتا رہا۔ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں ریشم کی کاشت کی جاتی ہے اور بے شمار لوگوں کاذریعہ معاش ریشم سازی ریشم سازی سے وابستہ ہے۔
ریشم سازی عام لوگوں کو بہتر روزگار مہیا کرنے والی صنعت ہے ۔اسے آغاز کرنے والوں کو حکومت کی طرف سے مالی امداد بھی دی جاتی ہے۔ ریشم کے کیڑوں کی مختلف قسمیں ہیں۔ ان کی ہیئت ، رنگت اورخاصیت بھی جداجداہے۔ ریشم کے کیڑوں کو موسمی آب و ہوا اور دھوپ و بارش سے بچانا ضروری ہے ۔ ریشم کا کیڑا چوںکہ شہتوت کے پتوں پر ہی زیادہ تر پرورش پاتا ہے اس لیے اس صنعت کا انحصار بھی شہتوت کی کاشت پر ہی ہے۔ اس کیڑے کی پیدائش، افزائش اور نشو و نماانتہائی نگہداشت کے ساتھ کی جاتی ہے ۔ کھیتوں میں اس کے لیے مخصوص قسم کا گھر بنایا جاتا ہے اور اس میں کیڑوں کی پرورش اور غذا کے لیے ضروری اشیا بھی فراہم کرنے ہوتے ہیں۔ مختلف قسم کے آلات یعنی ڈبے، ٹرے ، اسفنج کی پیٹیاں، ٹوکریاں ، جالیاں، معتدل درجہ حرارت اور غذا تیار کرنے کی چیزیں وغیرہ ۔ اتنی محنت و مشقت کے بعد وہ کیڑا ریشم بنانے کے قابل ہوتا ہے۔پھر اس سے مختلف طریقوں سے ریشم حاصل کیا جاتا ہے۔
ریشم کی صنعت پر مختلف زبانوں میںبہت سی کتابیں دستیاب ہیں ۔ تاہم اردو میںکم یاب تو دور نایاب ہیں ۔راقم کی نظر میں ڈاکٹر ایم ایم شیخ (ماہرحشرات الارض) کی کتاب ’’ریشم سازی‘‘ اردو زبان میں ریشم سازی کے حوالے سے نہایت اہم اور معلوماتی ہے۔اس میں سادہ اور سلیس زبان میں شرح و بسط کے ساتھ ریشم سازی کے جملہ لوازمات اور ضروریات کو بیان کردیاگیا ہے۔ نیز اس مضمون میں بھی زیادہ تر اسی کتاب سے مدد لی گئی ہے۔ڈاکٹر ایم ایم شیخ کا تعلق بنیادی طورپر سائنس سے ہے اور ماہر حشرات ہیں،تاہم انہیں اردو زبان و ادب ، صحافت اور قانون سے بھی گہرا لگائو ہے۔ ان کی ریڈیائی تقریروں کا مجموعہ ’’سائنسی شعائیں‘‘ کے نام سے شائع ہوکر پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔ غرض ریشم سازی نہایت ہی قدیم ترین اور بہت ہی نفع بخش صنعت ہے جو کہ کیڑوں کی پیدائش اور اس کی نشو ونماء پر منحصرہے۔ جدید دور کے ساتھ ساتھ اس میں بھی نت نئے تجربات ہورہے ہیں۔ ریشم سازی کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ گائوں دیہات اور کم سے کم لاگت میں بھی اس کو شروع کیا جاسکتا ہے اور بہتر منافع حاصل کیا جاسکتا ہے۔
رابطہ :جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
فون نمبر9810945177