ایک دن ٹھٹھرتی سردی میں میں اپنے چچیرے بھائیوں کے ساتھ گھر میں ایک الاؤ کے پاس بیٹھا تھا ۔ہمسب خوشی اور مستی میں زور زور سے باتیں کررہے تھے اور ایک دوسرے کو مکے ماررہے تھے ۔اتنےمیں چاچا جان آگئے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے ۔ہم نے سر تو جھکائے لیکن چوری چوری ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے اور اشاروں ہی اشاروں میں چاچا جی کا مذاق اڑانے لگے ۔
کافی کوششوں کے باوجود ہم ہنسی کو دبا نہ سکے اور زور سے قہقہ نکل گیا۔چچا جان کا چہرہ لال ہوگیا ۔اس نے طیش میں آکر ہمیں حکماً دادا جی کے کمرے میں جانے کو کہہ دیا ۔ ہم سب تیزی سے ایک دوسرے کو دھکے مارتے مارتے دادا جی کے کمرے میں گھس کر اس کی چادر میں سمٹ گئے ۔پیچھے پیچھے چاچا جان بھی آگئے۔
دادا جی نے بیچ بچاؤ کر کے ہم سب کو پٹائی سے بچا لیا ۔
چاچا جی نے دادا جی سےکہا ۔۔۔اباجان ان کو کسی طرح مصروف رکھو ۔ان بچوں نے جینا حرام کر دیا ۔
ہم مسکرا رہے تھے۔۔چاچا جان۔۔۔لال چہرہ لے کر چلے گئے۔
دادا جی نے کہا ٹھیک ہے ۔۔۔
ہم نے دادا جی سے کہا ۔۔ دادا جی کوئی کہانی سنائو ۔
دادا جی نے رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔سب لوگ خاموشی سے سنو۔
وادی گلستان پرندوں کی ایک خوبصورت وادی تھی۔اس گلستان کے ارد گرد سرسبز جنگلات اور برف کی سفید چادر سے ڈھکے اونچے اونچے پہاڑ تھے۔صاف ستھرا اور صحت افزا ماحول ،دلکش مناظر ،میٹھے پانی کے چشمے اور بڑے بڑے سبز مخملی میدان دور دور تک پھیلے ہوئے تھے ۔اس وادی میں کوئے ،کبوتر ،بلبل ،چیل ،گدھ ،الو ، فاختہ ،چڑیاں اور کوئل رہتے تھے ۔ چیل اور گدھ تعداد میں کم لیکن بہت طاقتور تھے ۔ان کو اپنی طاقت پر گھمنڈتھا ۔پرندے ان سے ڈرتے تھے۔کبوتروں کی تعداد اگر چہ زیادہ تھی۔ لیکن ان میں اتفاق نہیں تھا ۔نا اتفاقی کی وجہ سے انکا نمائندہ الیکشن میں ہار گیا۔ کوے ،چیل ،چند کبوتراور گدھ الو کے حامی تھے ۔ اس لئے وادی کے الیکشن میں الو نے شاندار جیت حاصل کر کے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔۔۔۔۔
الو پہلے ہی نفرت کے گپ اندھیرے میں ڈوبا تھا ..وہ عصبیت کے گپ اندھیرے کامہاراجہ تھا۔۔۔ ۔چیل اور گدھ پیٹ کے لئے کسی کو بھی زبح کرتے تھے۔۔ ۔کوئے خود غرض اور موقعہ پرست ہونے کی وجہ سے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے تھے۔۔۔وہ خود بھی مردہ خور تھے اور دوسروں کو بھی کھانے کی دعوت دیتے تھے ۔۔ حکومت میں چیل ،گدھ اور کوؤں کو وزارت کے اہم شعبے مل گئے۔حکومت نے پہلی مجلس میں ایک نیا قانون بنایا۔۔۔نئے قانون نے سب پرندوں کو حیران و پریشان کردیا ۔۔۔۔ قانون کے مطابق تمام پرندوں کو دن بھر آرام اور رات کو کام کرنے کا حکم صادر کیا گیا ۔اس قانون نے سب پرندوں میں کھلبلی مچا دی ۔لیکن چیلوں ،اور گدھوں کو اس قانون کے نفاذ سے مستثنیٰ رکھا گیا ۔ کبوتروں، بلبلوں، چڑیوں اور دوسرے پرندوں نے اس قانون کی جم کر مخالفت کی اوراحتجاج بھی کیا ۔ اس احتجاج میں سب پرندوں نے حصہ لیا اور ایک کبوتر کو لیڈر بنایا ۔
بحثیت نمائندہ کبوتر نے ایک دن گلستان کے ایک بڑے مجموعے کے سامنے تقریر کی اور تاسف کرتے ہوئے کہا
’’ وادی گلستان کے باشعور پرندو ،یہ بڑے دکھ کی بات ہے ،کہ ہماری وادی میں قدرت کے بنائے قانون کی جگہ ایک ایسا قانون بنایا گیا جو نہ صرف پرندوں کی زندگی کے لئے خطرناک ہے بلکہ دوسری مخلوقات کے لئے بھی نقصان دہ ہے ۔کیونکہ جن مضرِ فصل کیڑے مکوڑوں کو دن کے اُجالے میں ہم کھاتے ہیں وہ اس قانون کی آڑ میں نشوونما پائیں گے اور فصلوں کو تباہ کریں گے ۔جس سے قحط سالی ہوگی۔
نمبر دو، یہ قانون چیلوں اور گدھوں کے لئے ایک تحفہ ہے وہ ہمارا شکار آسانی سے کریں گے اور ہماری آواز کوئی نہیں سنے گا ۔اس لئے یہ ہمارے لئے ناگزیر ہے کہ ہم سب ایک جٹ ہو کر اس کالے قانون کے خلاف آواز اٹھائیں اور انصاف کے لئے لڑیں ۔
ہاں ضرور ،ہاں ضرور ۔آواز گونج اٹھی۔
پرندوں نے عہد کیا کہ وہ ضرور لڑیں گے۔وہ کہتے ہیں نا کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ۔ اگلے ہی دن ایک کالے کوئے نے الو کو ساری باتیں بتائیں۔
الو نے طیش میں آکر وجہ پوچھی تو کوئے نے کہا : جناب آپ کے قانون کی خلاف ورزی اور کچھ نہیں ۔اور ایک کبوتر لیڈر بھی بن گیا ہے۔جناب ۔
الو نے اپنے وزیر قانون چیل کو بلایا اور بغاوت کو امڈنے سے پہلے کچلنے کی ہدایت دی۔
کچھ ہی دنوں کے بعد لیڈر کبوتر کو گرفتار کرکے پنجرے میں ڈال دیا گیا، جہاں گدھوں نے اسکو نوچ نوچ کرموت کے گھاٹ اتار دیا ۔
نمائندے کی موت کی خبر سے حالات بگڑ گئے ۔
کوئل، بلبل اور چڑیوں نے شور اٹھایا ۔طوطے گرفتار ہوئے۔ کچھ وطن چھوڑ کر بھاگ گئے۔ شک کی تلوار میان سے باہر آگئی۔
کوؤںپر پرندوں نے شبہ کیا۔یوں محبت نفرت میں بدل گئی۔
حالات کا جائزہ لینے کے لئے الو نے مشاورتی اجلاس بلایا ۔ حالات گھمبیر ہوتے جارہے تھے ۔نوجوان پرندے توڑ پھوڑ کرنے پر اُتر آئے۔ گلستان جہنممیں بدل گیا تھا۔
قانون کو واپس لینے کی باتچلی ۔
چیلوں نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ یہ حکومت کی توہین ہوگی اور ہار بھی۔
الو نےاس اتھل پُتھل کو روکنے کی کوئی مؤثر تدبیر پوچھی ۔
گِدھوں نے طاقت کے جنون میں کہا۔۔ جو سر اٹھانے کی کوشش کرے گا اس کا ہم سر قلم کریں گے۔ ۔دیکھتے ہیں کہ کتنا زور ہے ان میں اور کب تک ڈٹے رہیں گے ۔
الو :نہیں ایسا نہیں کر سکتے ۔
ایک دانا اُلو بولا
دنیا کا سب سے خطرناک اور موثر ہتھیار غداری ہے ۔۔ان میں غداری کا جذبہ پروان چڑھانا ہوگا ۔۔۔خبری پیدا کرنے ہونگے ۔۔۔پھر دیکھو حالات کیسے بدلتے ہیں ۔۔۔
بہتر یہ ہے کہ ان کو مختلف فرقوں میں بانٹ دیا جائے۔عصبیت کو فروغ دیا جائے اور اعتدال پسندوں کی رہنمائی کر کے ان کے اتحاد کے شیرازے کو بکھیر دیاجائے۔ان کی طاقت کو کمزوری میں بدل دو ۔کھانے میں زہر ڈالنے کا علاج ہے لیکن کان میں زہر بھرنے کا کوئی علاج نہیں۔۔انکے کان ایک دوسرے کے خلاف بھر دو۔۔۔ لالچ دو انہیں۔
اس کے لئے وافر مقدار میں کھانے پینے کی چیزوں کی ضرورت بھی پڑے گی اور دانوں کی بھی ۔ دانے پھینکو اور وفاداری خریدو۔
الو: لیکن یہ کام کرے گا کون ؟
دانا الو :یہ کام کالے کوے کریں گے ۔وہ دوغلے پن میںماہر ہیں
کوؤں نےایسا جال بچھاکر پرندوں کو للچایا کہ پہلے چند پرندے راغب ہوئے لیکن بعد میں تعداد بڑھتی گئی ۔پرندے ایک دوسرے کی برائی کرنے لگے اور اپنے قائید کی مخالفت بھی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ پرندوں کی ساری باتیں افشا ہوتی گئیں ۔۔وہ ایک دوسرے پر شک کرنے لگے اور الگ الگ جماعتوں میں بٹ گئے۔ چند دانوں کے لئے ایک دوسرے کا بے رحمی سے قتل کروانے لگے ۔آپسی تناؤ اور النفسی کے عالم کو دیکھ کر ایک دن ان کے قائد نے صاف صاف لفظوں میں کہا : "اُس گلستاں ،نخلستان اور چمن کو تباہی سے بھگوان بھی نہیں بچا سکتا ۔جس گلستان، نخلستان اور چمن کے باشندوں میں درندہ صفت پرندے موجود ہوں۔جو لالچ اور خودغرضی میں اندھے ہو کر اپنا ضمیر بیچتے ہوں اور النفسی النفسی کے فتنے میں مبتلا ہوں" ۔"ان سب باتوں سے زیادہ مہلک بات فرقہ پرستی ہے ۔جو کہ اس گلستاں میں نہ صرف رواج پاچکی ہے بلکہ شہریوں کی رگ رگ میں سرائیت کرچکی ہے"۔ "یہاں اب طعنہ بازی کا بازار گرم ہے اور منافقت عروج پرہے " ۔یہاں الاقارب کا لعقارب کا ماحول ہے۔۔ "اسگلستان سے بہتر وہ جنگل ہے جہاں شکاری صاف نظر آتے ہیں اور واضح طور پر شکار کرتے ہیں"۔ "ہر قوم کا زوال تب شروع ہوتا ہے جب اس کے شہری مخلص لوگوں سے منافقت شروع کرتے ہیں"۔
لہٰذا میں ان حالات میں آپ کے بنائے ہوئےریت کے ٹیلے پر نہیں ٹک سکتا ،آپ کی رہبری نہیں کرسکتا ۔اسلئے الوداع ۔آپ اپنے راستے میں اپنے راستے"
قائید نے قیادت چھوڑ دی اور کنارا پکڑ کر خاموش ہو گیا۔
اس کے بعد پرندوں کو دھیرے دھیرے الو کی حکمرانی میں جینے کی عادت ہوگئی ۔۔کچھ پرندوں کو بہت فائدہ ملا ۔۔وہ اصل مقصد سے دور ہوتے گئے اور بھٹکتے گئے۔۔چیل اور گدھ ان کبوتروں کو نئے قانون کی آڑ میں اپنا نشانہ بناتے رہے ۔لیکن فرقوں کی منافرت ، عصبیت اور ذاتی مفادات کی آڑ میں کبھی کسی نے آواز اٹھانے کی جرات ہی نہیں کی ۔یوں گلستاں مثل قبرستان بن گیا ۔جہاں بولنے والوں کو خاموش کیا جاتا تھا۔اور سوچنے والوں کو پنجروں میں بند۔۔۔۔۔
اسی کے ساتھ نیند نے ہمیں اپنی آغوش میں لےلیا ۔
���
قصبہ کھُل کولگام ، کشمیر
موبائل نمبر9906598163