غلام قادر جیلانی
بڈگام کے کریوا اپنی ذرخیز مٹی کی وجہ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں یہ سطح مرتفع (Tablelands) زعفران،بادام اور سیب جیسے اعلیٰ قیمت والی فصلوں کی شاندار کاشت کے لئے انتہائی ضروری ہیں اسکے علاوہ یہ کریوا سائنسی اور ارضیاتی نقطہ نگاہ سے بھی انتہائی اہمیت رکھتی ہیں، اگر ماحولیاتی پہلو سے دیکھا جائے تو ان کریوا پر موجود باغات اور پودے حیاتیاتی تنوع (Biodiversity) کے مرکز کے طورپر کام کرتے ہیں جو خطے کے ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ ضلع بڈگام میں غیر قانونی طور ریت اور مٹی نکالنے کا عمل ایک سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے۔کئی علاقوں میں یہ بے ضابطہ اور غیر قانونی سرگرمی برسوں سے بنا کسی خوف کے جاری ہے ۔ دریاؤں میں بے لگام اور غیر قانونی کان کنی سے ریت کی قلت پیدا ہو چکی ہے، اسلئے اب ٹھیکیداروں اور لینڈ مافیا نے بڈگام کی ذرخیز کریوا کی طرف رخ کیا ہے، قانون کی دھجیاں اڑاتا ہوا یہ لینڈ مافیا ریت اور مٹی نکال کر نہ صرف ذرخیز زمین کو تباہ کر رہا ہے بلکہ خطے کے ماحولیاتی توازن میں بھی شدید بگاڑ پیدا کر رہا ہے۔
کاریوا (Karewas) میں مٹی اور ریت نکالنے کے غیر قانونی عمل کے متعدد وجوہات ہیں، جن میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے کاریوا پر رہائشی علاقوں کی منتقلی کا دباؤ ، ریلویز اور ہائی ویز سمیت بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے ریت اور مٹی کا بے دریغ استعمال شامل ہے۔نیز بڈگام کی زرخیز کاریوا اراضی اب اینٹ بھٹوں اور سٹون کریشروں کی نذر ہو چکی ہے۔ جس سے نہ صرف سنگین ماحولیاتی مسائل پیدا ہوئے ہیں بلکہ صحت پر نقصان دہ اثرات مرتب ہونے کے علاوہ علاقے کی زرخیز زرعی اراضی بھی بہت حد تک سکڑ رہی ہے۔ جموں و کشمیر میں غیر قانونی کان کنی کی سرگرمیوں پر پابندیاں، جموں و کشمیر مائنر منرل کنسیشن، اسٹوریج، ٹرانسپورٹیشن آف منرلز اور غیر قانونی کان کنی کی روک تھام کے قواعد، 2016 کے تحت سختی سے نافذ ہیں۔ ان قواعد میں کئی اہم ضوابط شامل ہیں، جیسےزمینی خدوخال (ٹوپوگرافی) میں کسی بھی تبدیلی کی ممانعت، معمولی معدنیات کی کان کنی کے لیے پنچایت کی لازمی رضامندی اور رات کے اوقات میں کان کنی کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی وغیرہ۔ تاہم مقامی افراد کا سخت الزام ہے کہ غیر قانونی کھدائی کا ایک بڑا حصہ نہ صرف مناسب اجازت ناموں اور ماحولیاتی منظوریوں کے بغیر کیا جا رہا ہے بلکہ یہ عمل مذکورہ قواعد و ضوابط کی کھلی اور بے خوف خلاف ورزی بھی ہے۔ یہ خلاف ورزی خطے کے ماحولیاتی تحفظ کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
ضلع بڈگام میں جن علاقوں میں مٹی اور ریت کی کھدائی زوروں پر ہے، ان میں رڈبگ، چیرا، تکیہ فاروق شاہ خانصاحب، نئی کالونی بنمکہامہ، گڑستھو، رازوین اور پالر نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ چاڈورہ کے گوہر پورہ، کزویرا، کلترہ، کانیرہ نوہار، شمناگ، ہانگو، اور برجن میں بھی یہ سرگرمیاں عروج پر ہیں۔چنانچہ جب میں نے اس معاملے پر بڈگام کے ضلعی پولیوشن کنٹرولنگ آفیسرمحمد اشرف سے رابطہ کیا اور کھدائی کرنے والوں کی ماحولیاتی منظوری کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ماحولیاتی منظوری کی تردید کی، لیکن یہ ضرور کہا کہ کچھ ٹھیکیداروں اور کمپنیوں کو ڈسٹرکٹ مینرل آفیسر کی جانب سے ڈسپوزل پرمٹس ملے ہیں، جس کی بنیاد پر وہ یہ کارروائیاں صرف سٹیٹ لینڈ میں کرسکتے ہیں۔تاہم ڈسٹرکٹ مینرل آفیسر نے غیر قانونی کان کنی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا یقین دلایا کہ ان کے محکمے سے اس قسم کے کوئی اجازت نامے جاری نہیں کئےجاتے۔ ان کے مطابق ایسی کارروائیاں غیر قانونی طور پر عمل میں لائی جاتی ہیں اور اطلاع ملنے پر ان کا محکمہ سختی سے کارروائی کرتا ہے۔
حال ہی میں، علاقہ چاڈورہ کے نوہار گاؤں میں کچھ خود غرض عناصر نے غیر قانونی طور پر ریت اور مٹی کی کھدائی کی کوشش کی اور کئی کنال زرعی زمین کو متاثر کیا۔ نوہار کے مقامی باشندے مشتاق احمد بیگ نے انکشاف کیا کہ ان کی باغاتی زمین سے جے سی بی کے ذریعے مٹی نکالنے کی کوشش کی گئی تھی۔انہوں نے اس غیر قانونی کھدائی کو روکنے کے لیے ایک ویڈیو وائرل کی، جس کے نتیجے میں ڈاکٹر راجہ مظفر بٹ اور سعید فرحت سمیت کئی سماجی کارکنان فوری طور پر موقع پر پہنچ گئے اور اس مسئلے کو بھرپور طریقے سے اُجاگر کیا۔ اس عوامی اور سماجی دباؤ کے نتیجے میں انتظامیہ نے فوری کارروائی عمل میں لائی، ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر (FIR) درج کی گئی اور موقع پر موجود گاڑیوں کو بھی ضبط کر لیا گیا۔علاقہ چاڈورہ میں واقع کلتر، کزویرا اور گوہر پورہ گاؤں میں بھی سینکڑوں کنال اراضی مٹی کی کھدائی سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔اگرچہ کزویرا کے کچھ کاشتکاروں، جن میں غلام حسن خان اور غلام محمد شامل ہیں، نے اپنی باغاتی زمین کو بچانے کے لیے عدالت کا رخ کر کے اس کام میں روک لگوائی ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ عدالتی روک کے باوجود بھی بغیر کسی ماحولیاتی منظوری کے غیر قانونی طور پر کھدائی کا عمل جاری ہے ۔سماجی اور ماحولیاتی کارکن ڈاکٹر راجہ مظفر بٹ جس کے کام کو پورے ملک میں پزیرائی ملی ہے، نے غیر قانونی مٹی اور ریت کی کھدائی کے خلاف جنگ میں انتھک کوششیں کر کے ایک ناقابل فراموش اور کلیدی کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’’غیر قانونی کان کنی کے خلاف میں نے ابھی تک نیشنل گرین ٹریبونل (NGT) میں پانچ عرضیاں دائر کی ہیں اور وہاں سے مجھے اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں کئی کروڑوں روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔‘‘بقول اُن کے اس غیر قانونی عمل کو روکنے میں علاقے کے نمائندوں اور متعلقہ افسران نے سرد مہری کا رویہ اختیار کر کے چپی سادھ رکھی ہے، جس کی وجہ سے قوم کا ایک بیش قیمت سرمایہ مسلسل لوٹا جا رہا ہے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مٹی اور ریت کی فروخت سے حاصل کیا گیا یہ پیسہ جو اس علاقے کی ترقی پر خرچ ہونا چاہیے تھا، خود غرض عناصر کی جیبوں میں جا رہا ہے۔ ضلع بڈگام میں مٹی اور پانی کے تحفظ کے لیے مختلف ادارے سرگرم عمل ہیں، جن کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ تحفظ کے خاطر خواہ اقدامات اٹھائیں ۔اسسٹنٹ ڈائریکٹر سوائل کنزرویشن (کمانڈ) عرفان احمد قریشی نے تصدیق کی کہ ان کے محکمے نے کاریوا میں مٹی کے تحفظ کے لیے کئی اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ ان میں کاریوا کی زمینوں تک پانی پہنچانے کا منصوبہ سرفہرست ہے۔ ان کے مطابق پانی کی دستیابی سے کاریوا کی فصلوں میں نمایاں اضافہ ہو گا اور کاشتکاروں کی مالی حالت بھی بہتر ہو گی ۔ڈسٹرکٹ سوائل کنزرویشن آفیسر (فارسٹ ونگ) ریاض احمد ملک نے واضح کیا کہ غیر قانونی کان کنی روکنا ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ تاہم، انہوں نے مٹی کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کیے ہیں، جن میں مٹی کے بچاؤ کے لیے بنڈ (Bunds) اور بلاک بنانا، اور پانی کو جمع کرنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر شامل ہے۔بڈگام ضلع میں کاریوا (Karewas) کی حفاظت وقت کی اہم ترین پکار ہے۔ ذی شعور لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر بروقت خاطر خواہ کارروائی نہ کی گئی تو یہ بیش قیمت ماحولیاتی اور زرعی سرمایہ ہمارے ہاتھوں سے ہمیشہ کے لیے چلا جائے گا۔بلاشبہ مٹی اور ریت کی ضرورت تعمیراتی کاموں کے لیے ناگزیر ہے، لیکن اس عمل میں مکمل باضابطگی (Regulation) لانے کی شدید ضرورت ہے۔ مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ غیر قانونی کھدائی کی شکایت کرنے پر یہ عمل کچھ مدت کے لیے رُک تو جاتا ہے، لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔اس تناظر میں لوگوں اور ماحولیاتی کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ اس غیر قانونی اور بے ضابطہ عمل پر مستقل پابندی عائد کی جائے تاکہ ماحولیاتی توازن کا تحفظ اور قیمتی زرخیز زمین کا بچاؤ یقینی بنایا جا سکے۔
(مضمون نگار کشمیر عظمیٰ کے لئے ہر موضوع پر لکھتے ہیں)
[email protected]