مہاراشٹر کے ماہر نفسیات نے طلبہ کے مدارس میں علم سیکھنے کے بارے میں ہونے والی دشواریوں اورکس طرح ریاستی بورڈ طلبہ کو تعلیمی سہولت فراہم کرسکتے ہیں ، اس موضوع پر داخل کردہ رٹ کی سماعت جسٹس کاناڑے اور جسٹس اے کے بین پر مشتمل بمبئی ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ کے روبرو پیش ہوا ۔ دورانِ سماعت فراہم کردہ معلومات کے مطابق تعلیم کے مختلف پہلو او روہ جو مضامین شامل نصاب ہیں اور جنہیں نصاب سے خارج نہ بھی ہو تو انہیں اختیاری ہونا چاہئے یا نہیں، اس معاملہ پر بمبئی ہا ئی کورٹ نے ریاست کے ایجوکیشنل بورڈ سے کہا کہ ریاضی مضمون کو اختیاری بنانے کے لیے آیا کوئی مزید غوروخوض ہونا چاہئے تاکہ طلبہ ان کے پسند کے مضامین میں دھیان توجہ سے تعلیم مکمل کرسکیں۔ بنچ کے روبرو ریاضی مضمون میں ناکام ہونے والے طلبہ کی وجہ سے میٹرک کے ڈراپ آئوٹ طلبہ کی تعداد میں زیادہ ہی اضافہ ہورہا ہے۔ جو اعداد و شمار عدالت میں پیش کئے گئے، ان کے مطابق ثانوی بورڈ 2015-16ء کے دوران ڈراپ آئوٹ ہونے والے طلبہ کی تعداد کا 12 فیصد اور اس کے قبل کے سال میں جملہ ڈراپ آئوٹس طلبہ کی تعداد کا 11 فیصد ریاضی میں ناکامی کی وجہ سے تھا۔ اسی طرح پرتھم نامی این جی او کے سروے کے مطابق پانچویں جماعت کے طلبہ میں 10 میں سے 2 طالب علم کو تفریق کا عمل آتا ہے۔ اس تنظیم کی سالانہ رپورٹ ( Annual Status of education report) کے مطابق آٹھویں جماعت کے 12.9 فیصد طلبہ کو ہندسے صرف نو تک آتے ہیں نہ کہ ننانوے تک۔ اس طرح ریاضی کے مضمون میں غیر معیاری تعلیم کی آگاہی عدالت کو دی گئی۔ اُسی طرح سروے کے مطابق 20.7 فیصد نو کے ہندسے تک بھی نہیں لکھ سکتے۔ بعض سروے 2016 کی رپورٹ سے اس بات کا پتہ چلاکہ پانچویں جماعت کے داخل طلبہ کی تعداد کا 47 فیصد حصہ جو سرکاری مدارس میں زیر تعلیم ہیں صرف تفریق کی حد تک واقفیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ہائی کورٹ کی بنچ نے ریاستی ایجوکیشنل بورڈ سے کہا کہ رٹ میں موجودہ مسئلہ ریاضی مضمون کے بارے میں اپنے ماہرین تعلیم کے مشورے سے 26 جولائی تک عدالت کو واقف کرائیں، اس لیے کہ میٹرک کا ٹراپ آئوٹ مسئلہ کو کم کرنے کے لیے کیا ریاضی کو اختیاری مضمون بنایا جاسکتا ہے۔
اس طرح شہری زندگی کے ہر شعبہ حیات میں متعلقہ محکموں کی عدم کارکردگی کی وجہ سے اب Judicial Activismکا سہارا لے رہے ہیں۔ چنانچہ تعلیمی پالیسی آزادی کے بعد خواہ و مرکز کی ہو یا ریاستوں کی، اُس میں اکثر و بیشتر تبدیلی و ترمیم کی جاتی رہی ہے اور ابھی بھی تعلیمی پالیسی کا سفر تجرباتی دور سے گذر رہا ہے۔ سابق ریاست حیدرآباد میں بنیادی تعلیم ہی نہیں بلکہ ثانوی و جامعاتی تعلیم کو بھی اردو ذریعہ تعلیم سے آراستہ کیا گیا تھا ۔ اس زمانے کے معیار کے مطابق اُردو سے کامیاب طلبہ ریاست کی دیگر زبانوں کے علاوہ انگریزی میں بھی کافی عبور رکھتے تھے اور نہ صرف شعبہ طب، انجینئرنگ بلدیہ عدلیہ میں بھی بحسن و خوبی کام کرسکتے تھے۔ چنانچہ ابتدائی جماعتوں میں ریاضی مضمون کے لیے چکرورتی کی ریاضی مشہور تھی جس کے حل کرنے کے بعد اس زمانہ کے طالب علم اعلیٰ ریاضی و انجینئرنگ میں مہارت حاصل کرتے تھے۔ اسی طرح لسانیات میں اسمٰعیل کی چوتھی مشہور تھی جس کے پڑھنے کے بعد اس زمانے میں منشی، منشی فاضل کے امتحانات میں لوگ میٹرک سطح کی اہلیت رکھتے تھے۔ اس طرح سابقہ ریاضی اور اردو کے نصاب کا تقابل اب ثانوی، اعلیٰ ثانوی نصاب سے بھی نہیں کیا جاسکتا۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ نئی نسل کے لیے ریاضی مضمون تعلیمی زندگی میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ریاضی ایک ایسا مضمون ہے جو روزمرہ کی زندگی میں استعمال سے ہر آدمی کو ضرورت پڑتی ہے چاہے وہ کسی شعبہ حیات سے تعلق رکھتا ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ بعض لوگوں نے ریاضی مضمون میں مہارت نہ ہونے کی وجہ سے اس سے نجات پانے کے لیے درخواست گذاربن کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری مرکزی و ریاستی حکومتوں نے اس ضمن میں کسی مثبت اور ٹھوس رائے پر نہیں پہنچ سکی اور عام پالیسی میں ہمیشہ ردو بدل کی وجہ سے صحیح نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔ اس طرح مسائل کا انبار بڑھتا چلاگیا۔ تعلیمی پالیسی کا لچک دار ہونا ٹھیک ہے مگر اس میں ردوبدل سے اس کا معیار مجروح نہیں ہونا چاہیے ۔ ریاضی مضمون کی کلیدی ا ہمیت کی وجہ سے آٹھویں جماعت کے بعد سے ہی ریاضی کو لازمی مضمون کی حیثیت دی جائے کیونکہ یہ مضمون طلبہ وطالبات کی عملی جدوجہد سے متعلق ہے ،اس لیے کہ وہ بغیر ریاضی کے زندگی نہیں گذار سکتے۔ مذکورہ مسئلہ کے حل کے لیے جو بھی تجاویز سامنے آئیں، وہ ماہرین تعلیم کے غوروخوض کے بعدہی طے ہونا ضروری ہیاور یاد رکھئے کہ اس کے نتائج دوررس مرتب ہوں گے۔ مضمون ریاضی کو چھوڑ کر اسٹوڈنٹس کا ایک ذہنی سانچہ بننے کا خدشہ ہے جو شارٹ کٹ کہلائے گااور اس مضمون کے بغیر ہی ثانوی امتحان کامیاب ہوجائے تو طلبہ غبی رہیں گے ۔ یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے کیونکہ موجودہ سماج کو ریاضی بہ حیثیت مضمون اشد ضرورت ہے۔ اسے حاصل نہ کریں تو سماج کے ساتھ انصاف نہ ہوگا۔ موجودہ سائنسی دور میں ہر پروجیکٹ کی بنیاد ریاضی اور سائنس پر ہی ہے۔ اس لیے ان ترقیاتی پروگراموں کے لیے اپنے طلبہ کے لیے نصاب تیار کرنا چاہیے نہ کہ ڈراپ آئوٹس کے مسئلہ کی وجہ سے راہ فرار لینا۔ اس طرح یہ مسئلہ تعلیمی حکام کے لیے لمحہ فکر ہے۔ پچھلے کئی دَہوں میں ثانوی جماعتوں میں ریاضی کے دو مضمون ایک الیمنٹری ریاضی اور دوسرا اختیاری ریاضی۔ اس طرح الیمنٹری ریاضی کے طلبہ آرٹس، کامرس کے لیے جاتے اور اختیاری ریاضی والے طلبہ انجینئرنگ و میڈیکل کے کورس میں جاتے لیکن اب کامرس والوں کے لیے بھی ریاضی ضروری ہوگیا ہے۔ اس لیے مقابلہ آرائی کے اس دور میں بنیادی طور پر معیار کی طرف دھیان دیا جائے تو پرائمری مدارس کے معیاری طلبہ جائے تو ثانوی جماعت میں انہیں نہ کسی مسئلہ کی شکایت ہوگی اور نہ ہی ڈراپ آئوٹ کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ اس خصوص میں زیادہ موثرمفید اور مناسب تجربہ کار اساتذہ کرام جو ثانوی و اعلیٰ ثانوی جماعتوں میں کام کرتے ہیں یا جو پچھلے دو تین دہوں میں ریٹائرڈ ہوچکے ہیں ان کے تجربات سے استفادے میں پہل کرنی چاہئے۔
( 9890245367)
ناندیڑ ،مہاراشٹر