ڈاکٹر ریاض احمد
ریاضی، جسے اکثر ’’عالمی زبان‘‘ کہا جاتا ہے، انسانیت کا اُس کے سفر میں ایک مستقل ساتھی رہا ہے — غاروں سے لے کر کمپیوٹرز تک۔ ان مضامین کے برعکس جن کے لیے مہنگی لیبارٹریز یا آلات درکار ہوتے ہیں، ریاضی کو سیکھنے کے لیے صرف تجسس، کاغذ اور قلم کافی ہیں۔ یہی ریاضی کو سب سے سستی تعلیم بناتی ہے۔مگر اسے نظرانداز کرنا سب سے مہنگی جہالت ہے، کیونکہ یہ افراد اور قوموں دونوں کو ترقی اور اختراع کی کنجی سے محروم کر دیتا ہے۔
ریاضی کیوں ہے سب سے سستی تعلیم؟
چاہے وہ دیہی علاقے کا بچہ ہو جو تختی پر لکھ رہا ہو، یا وہ یونیورسٹی کا طالبعلم جس کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی ہو — ریاضی سب کے لیے یکساں مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس کی سادگی ہی اس کی عالمگیریت ہے۔اعداد، اشکال اور منطق کے اصول ہر جگہ یکساں رہتے ہیں، چاہے وہ کسی درخت کے نیچے پڑھائے جائیں یا جدید لیکچر ہال میں۔
ابراہم لنکن نے خود سے یُوقلید کی جیومیٹری موم بتی کی روشنی میں سیکھی، جو اُس کی منطقی سوچ کو سیاست میں نکھارنے میں مددگار ثابت ہوئی۔ریاضی کے بادشاہ کہلائے جانے والے کارل فریڈرک گاؤس نے کہا تھا:’’ریاضی تمام علوم کی ملکہ ہے۔‘‘اور یہ واقعی ایک خاموش حکمران کی طرح ہے — بغیر تخت کے — مگر ہر علم پر اثرانداز۔
سب سے مہنگی جہالت : ریاضی کو نظرانداز کرنا دروازے بند کرنے کے مترادف ہے۔ذاتی سطح پر یہ مالی شعور اور تنقیدی سوچ کو کمزور کرتا ہے، جبکہ اجتماعی سطح پر یہ ٹیکنالوجی کی ترقی کو روک دیتا ہے اور معیشت کو زوال کی طرف لے جاتا ہے۔سری نواسا راما نوجن، جو غربت سے اُٹھ کر عددی نظریات میں انقلاب لے آئے، ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ذہانت کہیں سے بھی اُبھر سکتی ہے — لیکن اگر ریاضی کی مہارت کو پروان نہ چڑھایا جائے تو لاکھوں ممکنہ موجد ضائع ہو جاتے ہیں۔آج کے ڈیجیٹل دور میں یہ جہالت مزید خطرناک ہو چکی ہے۔ مصنوعی ذہانت، سائبر سیکیورٹی، اور بگ ڈیٹا — یہ سب ریاضیاتی الگورتھمز پر مبنی ہیں۔ریاضی کے بغیر، انسان اُس دنیا میں پیچھے رہ جاتا ہے جو نمبروں پر چلتی ہے۔
ماضی:وہ تہذیبیں جو ریاضی نے تراشی تاریخ گواہ ہے کہ ریاضی انسانی ترقی کی بنیاد رہی ہے۔مصریوں نے دریائے نیل کی طغیانی کے بعد زمین ناپنے کے لیے جیومیٹری ایجاد کی۔بابلیوں نے الجبرا اور فلکیاتی حسابات میں مہارت حاصل کی۔بھارتی علما آریہ بھٹ اور برہم گپت نے صفر اور اعشاری نظام متعارف کرایا۔مسلمان عالم الخوارزمی، جنہیں ’’الجبراء کا بانی‘‘ کہا جاتا ہے، نے وہ علم دیا جس پر یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کی بنیاد پڑی۔ہر بڑی تہذیب کی ترقی ریاضیاتی جدت پر مبنی تھی۔
حال:ریاضی ہر جگہ ہسپتالوں سے لے کر اسٹاک مارکیٹ تک، فلک بوس عمارتوں سے لے کر اسمارٹ فونز تک — ریاضی خاموشی سے دنیا کو چلا رہا ہے۔ڈاکٹر متوقع بیماریوں کی پیش گوئی احتمال کے ماڈلز سے کرتے ہیں، کاروبار خطرات کا تجزیہ اور منافع کی منصوبہ بندی شماریات اور کیلکولس کے ذریعے کرتے ہیں۔سرچ انجنز، سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت کے تمام پلیٹ فارمز — سب ریاضیاتی الگورتھمز سے چلتے ہیں۔جیسا کہ گلیلیو نے کہا تھا:’’ریاضی وہ زبان ہے جس میں خُدا نے کائنات کو لکھا ہے۔‘‘
مستقبل کے دروازے:
ریاضی محض ایک نظری مضمون نہیں — بلکہ یہ اُن کیریئرز کی کنجی ہے جو سب سے تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔تعلیم و تحقیق: پروفیسرز، شماریات دان، اور نظریاتی ریاضی دان۔
ڈیٹا سائنس و :AIمشین لرننگ انجینئرز، ڈیٹا اینالسٹس۔ فنانس و بینکنگ:ایکچوریز، رسک منیجرز، کوانٹیٹیٹو ٹریڈرز۔ٹیکنالوجی:سافٹ ویئر ڈیولپرز، کرپٹوگرافرز، سائبر سیکیورٹی ماہرین۔صحت عامہ:بایوسٹیٹسٹیشنز، وبائی امراض کے ماہرین۔
امریکی لیبر بیورو کے مطابق، 2021سے 2031تک ریاضی سے متعلقہ شعبوں میں 31 فیصد ترقی متوقع ہے — جو دیگر تمام پیشوں سے کہیں زیادہ ہے۔ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں فِن ٹیک، مصنوعی ذہانت، اور گرین ٹیکنالوجیز تیزی سے بڑھ رہی ہیں — اور یہ تمام شعبے ریاضی کے ماہرین کا انتظار کر رہے ہیں۔شکنتالا دیوی، بھارت کی ’’ہیومن کمپیوٹر‘‘ نے ایک بار کہا تھا:’’ریاضی کے بغیر آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ ہر چیز ریاضی ہے، ہر چیز نمبرز ہیں۔‘‘
مستقبل:جدت کا پاسپورٹ۔کل کی ایجادات — کوانٹم کمپیوٹنگ، بایو ٹیکنالوجی، بلاک چین، اور قابلِ تجدید توانائی — سب ریاضیاتی ماڈلز سے جنم لیں گی۔آج جو بچے الجبرا سیکھ رہے ہیں، وہ کل کے گرین انرجی ماہر، خلائی محقق، اور ڈیجیٹل معیشت کے معمار ہوں گے۔بل گیٹس کے الفاظ میں:’’ریاضی آپ کی منطقی اور تخلیقی سوچ کو پروان چڑھاتی ہے۔ ڈیجیٹل دنیا میں یہ صلاحیت لازمی ہے۔‘‘
اختتامیہ :ریاضی وہ تعلیم ہے جو امیر و غریب، سب کے لیے یکساں دستیاب ہے — یہی اسے سب سے سستی تعلیم بناتی ہے۔لیکن اسے نظرانداز کرنا سب سے مہنگی غلطی ہے — کیونکہ اس سے ترقی، موقع اور اختراع کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔یوقلید سے لے کر راما نوجن تک، قدیم جیومیٹری سے لے کر مصنوعی ذہانت تک — ریاضی نے تہذیب کو تراشا ہے۔
آج کی ملازمتوں کی دنیا میں، ریاضی صرف ایک مضمون نہیں — بلکہ خوشحالی اور بقاء کی کنجی ہے۔ریاضی کو اپنانا مستقبل کو اپنانا ہے، اور اسے نظرانداز کرنا خود کو پیچھے چھوڑ دینا ہے۔