نئی دلی // بھارت کے فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے کہا ہے کہ کشمیر میں قیام امن کا خواب پورا کرنے کیلئے سیاسی پہل اور فوجی آپریشنز ایک ساتھ چلنے چاہیے تاکہ ریاست میں امن کا دور قائم ہوسکے۔آرمی ڈے کی سالانہ تقریب پر کشمیر کے حوالے سے سرکاری سکولوں، مدارس اور مساجد سے متعلق متنازعہ دینے کے ایک روز بعد جنرل راوت نے ایک انٹر ویو میں کہا’’ ریاست میں سیاسی پہل اور دیگر سارے اقدامات ایک ساتھ چلنے چاہئیں،اور اگر ہم سبھی مکمل ہم آہنگی کیساتھ کام کریں گے تو ہم کشمیر میں ہمیشہ کیلئے امن قائم کر سکتے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا’’ ہمیں فوجی اور سیاسی اپروچ اختیار کرنا ہوگا‘‘۔جنرل راوت نے کہا کہ جب سے انہوں نے جنرل دلباغ سنگھ کے بعد فوجی سربراہ کا عہدہ سنبھالا تب سے کشمیر میں صورتحال کسی حد تک بہتر ہوئی ہے۔انکا کہنا تھا’’ میں بہتری کیلئے صورتحال میںکسی حد تک بدلائو دیکھ رہا ہوں،میں یہ نہیں سمجھتا کہ ابھی وہ وقت آیا ہے کہ ہم اعتماد کیساتھ کہہ سکیں کہ صورتحال کو قابو میں کرلیا گیا ہے کیونکہ سرحد پار سے دراندازی جاری رہے گی ‘‘۔انہوں نے صاف طور پر کہا ’’ فوج اس میکانزم کا ایک حصہ ہے تاکہ کشمیر مسئلہ کو حل کیا جائے،ہمارا منڈیٹ صرف یہ ہے کہ جنگجوئوں کے خلاف یا گڑبڑھ پھیلانے والے عناصر کو ختم کیا جاسکے، یا پھر ان لوگوں کے خلاف کارروائیاں ہوں جو انتہا پسندی کی طرف مائل ہوئے ہیں یا پھر جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہونے کیلئے پر تول رہے ہیں‘‘۔مرکزی مذاکرتکار دنیشور شرما کی نامزدگی کے بارے میں انہوں نے کہا’’جب حکومت نے مذاکراتکار کو نامزد کیا ہے تو یہ اسی مقصد کیلئے ہے،وہ کشمیری لوگوں تک پہنچنے کیلئے حکومت کے نمائندے ہیں،تاکہ انکی شکایات سن سکیں اور انہیں سیاسی سطح پرحل کر سکیں‘‘۔تعلیمی نظام میں بدلائو لانے کے بیان پر نکتہ چینی کا سامنا کرنے کے دوران جنرل راوت نے قدرے نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا’’کچھ نوجوان انتہا پسندی سے مرعوب ہوکر جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہورہے ہیں،فوج اس بات کی کوشش میں ہے کہ جنگجوگروپوں پر دبائو بنائے رکھے،فوج کا مقصد یہی ہے کہ جنگجوئوں پر دبائو بدستور رہے اور ان عناصر پر بھی جو وادی میں رخنہ ڈالنے کے درپے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں لوگوں تک بھی پہنچنا ہوگا‘‘۔