ریاست جموں وکشمیر تین صوبوں پہ مشتمل ہے اور تینوں صوبے متنوع تہذیبی وثقافتی اور لسانی و جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے سے جداگانہ ہیں۔جموں میں ڈوگری،کشمیر میں کشمیری اور لداخ میں لداخی۔ یہ تینوں زبانیں اپنی اپنی علاقائی نسبت کی نمائندگی کرتی ہیں۔حالانکہ لداخ میں لداخی کے علاوہ بلتی اور شینا زبانیں بھی بولی اور لکھی جاتی ہیں۔اسی طرح کشمیر کے کچھ علاقوں میں گوجری اور پہاڑی بھی بولی جاتی ہیں۔ صوبہ جموں کی بات کریں تو یہاں اگرچہ ڈوگری بولنے والوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے لیکن اس کے علاوہ خطٔہ چناب میں کشمیری اور دیگر علاقائی بولیاں بولی جاتی ہیں جب کہ خطٔہ پیر پنچال میں گوجری اور پہاڑی زبانوں کا ادب خاصا جاندار معلوم ہوتا ہے۔تہذیبی وثقافتی اعتبار سے دیکھیں تو جموں کو مندروں کا شہر کہا جاتا ہے اور پھر جموں ہی نہیں بلکہ جموں کے کچھ اضلاع میں بہت سے منادر ہیں۔ یہاں کے تہوار،میلے ٹھیلے ،رسم ورواج اور عقائد اپنی مخصوص نوعیت کے ہیں،جب کہ کشمیر میں مساجد اور عبادت گاہوں کی اپنی ایک الگ نفرادیت ہے۔وہاں کے لباس و پوشاک،کھان پان ،بود وباش اور دیگر کئی امور میں مقامی رنگ ڈھنگ جھلکتا بھی نظرآتا ہے۔اسی طرح لداخیوں کا کلچر اور ان کاطرززندگی بالکلیہ طور پر صوبہ جموں اور صوبہ کشمیر کے باشندگان سے مختلف ہے۔آب وہوا اور موسموں کے تغیر و تبدل کے اعتبار سے بھی تینوں صوبے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
ریاست جموں وکشمیر کے تینوں صوبوں کی الگ الگ تہذیب و ثقافت اور لسانی ہمہ رنگی کو مد نظر رکھتے ہوئے مہاراجہ رنبیر سنگھ اور ان کے بعد اُس کے جانشین مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے اپنی دانش مندی اور دور اندیشی کا یہ ثبوت دیا تھا کہ ریاست کی سا لمیت اور اس کے استحکا م کے لیے اردو کو 1889ء میں سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا۔مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے تخت نشین ہونے تک اردو کاچلن ریاست میں عام ہوگیا تھا۔عوام کی ایک کثیر تعداد اردو پڑھنے لکھنے کی طرف راغب ہوچکی تھی اور یہ زبان ان کے اظہار کا ایک بہتر وسیلہ بن چکی تھی۔مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے سیاسی مصلحت پسندی اور اردو کی بڑھتی مقبولیت کے پیش نظر ریاست کے تینوں خطوں جموںکشمیر اور لداخ کو ایک لسانی دائرے میں لانے کے لیے اردو کو سرکاری زبان قرار دیا تھا۔مہاراجہ پرتاپ سنگھ کا یہ ایک ایسا عظیم کارنامہ تھا جوآج بھی جموں وکشمیر کی اردو ادبی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے۔یہاں اس بات کاذکر لازمی معلوم ہوتا ہے کہ ڈوگرہ شاہی حکمران اگر چاہتی تو وہ ڈوگری کو سرکاری زبان کا درجہ دے سکتی تھی لیکن اس نے ڈوگری کے بجائے اردو کو ایک رابطے کی زبان کے طور پر نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کے عملی نفاذ کے لیے ٹھوس اقدامات بھی کئے۔
کسی ملک یا ریاست کی سرکاری زبان کے بارے میں جب ہم بات کرتے ہیں تو اس ضمن میں چند اہم نکات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔پہلی بات یہ ہے کہ تمام سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں اس زبان میں تحریری کارروائی ہوتی ہے۔دوسری بات یہ کہ حکومت نہ صرف اسے آئین میں سرکاری رکھتی ہے بلکہ اس کے عملی نفاذ کے لیے اس زبان کا ایک کلچر بھی قائم کرواتی ہے یعنی ہر مقام پہ وہ زبان عمومی طورپر لکھنے پڑھنے اور بولنے میں نظر آتی ہے۔تیسری بات یہ کہ سرکا اس زبا ن کے فروغ اور اشاعت کے لیے ایسے منصوبے تیار کرتی ہے جو اس کی بقا و فلاح کے ضامن ثابت ہوں۔چوتھی بات یہ کہ وہی زبان پھلتی پھولتی اور ترقی کی راہ پہ گامزن ہوتی ہے جسے سرکاری سرپرستی حاصل ر ہتی ہے۔
سرکاری زبان کے متعلق ان چار اہم بنیادی نکات کے تناظر میں اب اگر ہم موجودہ دور میں ریاست جموں وکشمیر میں اردو زبان کے حال اور مستقبل کا جائزہ لیں تو مایوس کن صورت حال نظر آئے گی کیونکہ یہاں محکمہ مال اور پولیس میں تھوڑی بہت اردو نظر آتی ہے لیکن آہستہ آہستہ اب ان محکموں میں بھی انگریزی اپنا تسلط جمانے لگی ہے۔اسی طرح باقی تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں سارا کام انگریزی میں ہوتا ہے۔سرکاری زبان ہونے کے ناطے اردو کا جو رنگ روپ ہونا چاہیے تھا وہ نظر نہیں آتا۔دفتروں ،اسکولوں،کالجوں،یونیورسٹیوں ، چوک چوراہوں، شہروں ،قصبوں ، شاہراہوں پر اردو میں سائن بورڈ پڑھنے کو نہیں ملتے۔ کڑاوسچ سنئے تو اردو ریاست جموں وکشمیر میں بہت حد تک قصۂ پارینہ بنتی جارہی ہے۔پوری ریاست میں انگلش میڈیم اسکولوں کا جال سا بچھ چکا ہے۔ان تعلیم گاہوںمیں اردو اگر کہیں ہے بھی تو بس ایسے ہی ہے۔اردو پہ ستم یہ بھی ہے کہ جو لوگ اردو لکھتے پڑھتے اور بولتے ہیں یا اردو کا لقمہ توڑتے ہیں ،وہ بھی ساٹھ فیصدی ہی اردو بولتے ہیں،باقی ماندہ کام نگریزی الفاظ سے نکال لیتے ہیں۔کچھ فرقہ پرست طاقتیں اردو کو مغالطے میں پڑ کر مسلمانوں کی زبان سمجھتی ہیں۔حالانکہ اردو کی آبیاری اور ترویج میں غیر مسلموں نے جو کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں یا دے رہے ہیں ،وہ اپنی مثال آپ ہیں۔یہاں تفصیل میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
یہ ایک تاریخی صداقت ہے کہ اردو نہ صرف ایک زبان ہے بلکہ ایک تہذیب کا نام بھی ہے۔اس میں کچھ ایسی فطری کشش اور مٹھاس ہے کہ جو ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنالیتی ہے۔حیرت یہ ہے کہ جو لوگ اردو لکھناپڑھنا اور کسی حد تک بولنا نہیں جانتے ،وہ بھی اردو کو از راہ ِ شوق پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کی غزلیں اور گیت کل بھی عوام میں مقبول تھے آج بھی ہیں اور کل بھی رہیں گے۔جس طرح آندھرا پردیش میں تیلگو،کیرلہ میں ملیالم،مدراس میں تامل،بنگال میں بنگلہ،مہاراشٹر میں مراٹھی،کرناٹک میں کنڑی،گجرات میں گجراتی؛پنجاب میں پنجابی اور بہار اوریوپی میں ہندی کو پوری طرح سرکاری سرپرستی اور حقوق حاصل ہیں،اس طرح ریاست جموں وکشمیر میں اردو کو حاصل نہیں ہیں۔ بایں ہمہ ہم یہ بات وثوق سے کہتے ہیں کہ اردو ہندوستان میں ختم نہیں ہوگی کیونکہ اس کی مٹھاس اور فطری کشش اس زبان کی بقاء کی ضامن ہیں۔ہندوستان میں فارسی اور سنسکرت زبانوں کے روبہ زوال ہونے کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ ان زبانوں کے پاس دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر مدغم کرنے کا ظرف نہیں تھا۔
صوبہ جموں کے ضلع ادھم پور،سانبہ،ریاسی،کٹھوعہ اور جموں میں اردو کی صورت حال نہایت مایوس کن ہے۔پرائمری،مڈل،ہائی اور ہائر اسکنڈری اسکولوں میں بہت سے طلبہ وطالبات اردو پڑھنے کے خواہش مند ہیں لیکن اسکولوں میں اردو استاد یا اردو مضمون نہ ہونے کی وجہ سے ان کا شوق وذوق اندر ہی اندر دم توڑ دیتا ہے۔یہ بات بھی ایک خاص پالیسی کے تحت ذہنوں میں بٹھا دی گئی ہے کہ اردو ایک مشکل زبان ہے جب کہ اردو ایک آسان زبان ہے۔تجربے اور مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ اردو پڑھنے لکھنے والا آدمی آسانی سے ہندی اور دیگر زبانیں سیکھ لیتا ہے۔
ریاست جموں وکشمیر میں ایک طویل عرصے سے کئی ادبی وغیر ادبی تنظیمیں اردو کی بقا اس کی ترقی اور اس کے مکمل حقوق کی حصول یابی کے لیے حکومتوں کے سامنے مطالبات رکھتی آئی ہیںلیکن اردو کو جو مقام ومرتبہ سرکاروں کی طرف سے ملنا چائیے تھا، اس سے وہ ابھی تک محروم ہے۔اس سلسلے میں ہم یہاں ایک سجھاؤ پیش کرنا چاہتے ہیں۔آپ یقین کیجیے کہ اگر حکومت وقت اس سجھاؤ کو عملی جامہ پہناتی ہے تو ریاست جموں و کشمیر میں اردو کی بہار آسکتی ہے۔وہ اہم سجھاؤ یہ ہے کہ حکومت وقت دفعہ370 کی طرح یہ قانون پاس کرے کہ پہلی کلاس سے گریجویشن کی سطح تک اردو کو بطور لازمی مضمون قرار پائے یعنی سائنس اور کامرس میں گریجویشن کرنے والوں کے لیے بھی اردو پڑھنا ایک لازمی مضمون کے طور پر ہو۔اس کے ساتھ ساتھ یہ قانون بھی بنایاجائے کہ سرکاری ملازمت کے لیے وہی امیدوار فارم بھر سکتے ہیں جن کی تعلیمی اسناد میں اردو لازماً بطور ایک مضمون شامل ہو۔ مزید یہ کہ بیرون ریاست سے انتظامیہ عہدوں پر ایسے آئی اے ایس ، کے اے ایس ، آئی پی ایس اور آئی ایف ایس آفیسران کو تعینات کیا جانا چاہیے جو بہترین اردو لکھناپڑھنا اور بولنا جانتے ہوں۔ریاست جموں وکشمیر میں اردو کو زندہ رکھنے ،اس کے فروغ اور اس کی چہل پہل بحال کر نے کی واحد یہی ایک صورت بنتی ہے۔ اہل دانش وبینش کا تو یہ ماننا ہے کہ زبانیں ایک خاندان کی مانند ہوتی ہیں۔یہ اچھی بات ہے کہ کشمیر میں کشمیری،جموں میں ڈوگری،لداخ میں لداخی کے علاوہ علاقائی زبانیں بلتی،شینا، گوجری اور پہاڑی اپنا تشخص قائم کرچکی ہیں۔ان میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جارہا ہے۔پہاڑی اور گوجری زبانوں کا فارسی رسم الخط اردو کے لیے مفید ثابت ہوتاہے۔آپ کے اور ہمارے دل سے بھی یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ ریاست جموں وکشمیر میں سرکار کو ایک اردو اکادمی قائم کرنی چاہئے ، ٹھیک ہے ہونی چاہیے لیکن اس سے کئی گنا زیادہ بہتر یہ ہے کہ سرکار اولین فرصت میں پہلی کلاس سے گریجویشن کی سطح تک اردو کو ایک لازمی مضمون قرار دیے۔اس صورت میں یہاں کوئی بھی ہندی پڑھنے لکھنے والا یہ نہیں کہے گا کہ میں اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتا، بصورت دیگر بہت ممکن ہے کہ اردو کا وہی حشر ہوگا جو حشر فارسی اور سنسکرت کا ہمارے یہاں ہوا ہے۔اردو اگر ریاست جموں وکشمیر کی سرکاری زبان ہے تو مکمل صورت میں سرکاری ہونی چاہیے ورنہ بقول غالب ؔ ؎
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Mobile No. 9419336120