سرینگر//مسلم دینی محاذامیر ڈاکٹر محمد قاسم فکتو نے کہا ہے کہ آٹھویں اور نویں صدی کے شیومت کے مشہور فلسفی آچاریہ ابھینو گپت کی شخصیت اور تعلیمات کی احیاءکی حکومتی کوششیں توجہ طلب ہیں۔انہوںنے کہاکہ دو سال قبل آری زال بڈگام ابھینو گپھا کو یاترا کی جگہ بنانے کی کوشش اور تین دن قبل جموں یونیورسٹی میں آچاریہ ابھینو گپت پر سمینار منعقد کرنا انتہائی اہم اقدام ہیں۔ ڈاکٹر فکتو نے کہاکہ بھارت جموں و کشمیر میں ابھینو گپت کی تعلیمات (شیومت کی فلسفی اور صوفیانہ تشریحات بالخصوص نظریہ وحدت الوجود (pantheism) )کو جو عام کرنا چاہتی ہے ،اس سے تین مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ایک شیومت کی تعلیمات کو فروغ دینا بالخصوص شیومت سے نظریہ وحدت الوجود کو عام کرنا،دوسرا کشمیر کے صوفی ازم بالخصوص اولیاءکرام کی تعلیمات کی اصل شیومت کو ثابت کیا جائے اور تیسرا اسلام کے تصور توحید کے بجائے شیومت کے تصور توحید کو مقبول عام بنایا جائے۔انہوں نے کہاکہ چونکہ جموں و کشمیر میں اولیاءکرام نے جو صوفیانہ تعلیمات پیش کی ہیں اسکی اصل شیومت نہیں بلکہ قرآن مجید اور سنت رسولﷺ ہے اور اس کیلئے حسن بصریؒ، جنید بغدادی ؒ، ذونون مصریؒ، امام غزالی ؒاور سید عبدالقادر جیلانی ؒجیسے اولیاءاسلام کی زندگیاں قابل تقلید رہی ہیں،اسلئے کشمیر کے صوفی ازم کو عرب اور وسط ایشیاءکے اولیاءکرام کے بجائے شیومت اور ابھینو گپت سے جوڑنے کی کوششیں جہالت ہے ۔انہوںنے کہاکہ شیومت اور اسلامی تصوف میں جو مشترکہ باتیں ہیں اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اسلامی تصوف شیومت سے متاثر ہے بلکہ یہ آفاقی حقائق Universal Truthکی مماثلت ہے۔ہم کشمیر کے اہل علم سے گذارش کرتے ہیں کہ وہ بھارتی حکومت کی ان کوششوں پر کڑی نظر رکھیں اور اسلام میں تزکیہ و احسان (تصوف) کا جو تصور ہے اسکو صحیح طور پیش کریں۔