جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے گذشتہ دنوں میں یکے بعد دیگرے دو اہم بیانات دئے جن میں انڈین ایکسپریس کو دیا ہوا بیان 4؍اکتوبر کو اور’’ ٹائمز آف انڈیا ‘‘کو دیا ہوا بیان 7؍اکتوبر کو شہپ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوا ۔ البتہ ان بیانات میں جو بات نمایاں رہی وہ مسلٔہ کشمیر کی ہمہ گیر منظر کشی سے ان کا تھوڑا بہت گریز تھا۔ گورنر موصوف نے کشمیر میں بھارت سے کشمیری عوام کے احساس بے گانگی کی بات کھلی زبان میںکی۔اگر چہ سرینگر اور دہلی کے بیچ اس جذباتی دوری کی وجوہات کے بارے میں اُنہوں نے کچھ حد تک حق گوئی سے کام بھی لیا، مثلاََ اُنہوں نے جموں و کشمیر میں انتخابی عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن پھر بھی اُنہوں نے جو کچھ کہا اُسے مکمل سچ نہیں مانا جا سکتا کیونکہ محض مشکوک انتخابی عمل ہی دہلی اور سرینگر کے بیچ جذباتی دوریوں کی بنیادی وجہ نہیں۔اہل کشمیر کی دلی کے تئیں احساس بیگانگی کی وجوہات گورنر ملک کے بیانات سے عمیق تر و وسیع تر ہیں اور اس کا تعلق ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے حل طلب سیاسی مسئلہ سے جڑا ہوا ہے جس کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔ دہلی اور سرینگر کے بیچ کی اس خلیج کو پاٹنے کے بارے میں جو کچھ بھی موصوف نے تجویز کیا اُ س سے دوریاں کم ہوں ، یہ بعید از امکان نظر آتا ہے کیو نکہ مسٔلہ کشمیر کے تینوںفریق کامسئلے کے کسی ممکنہ حل میں شامل ہونے کی ضرورت سے کسی بھی سلیم العقل شخص کو انکار کی مجال نہیں ہوسکتی۔ گورنر ملک ریاست جموں و کشمیر میں موجود جماعتوں کو کشمیر کے حل کی جہت میں ممکنہ گفت و شنید میں شامل دیکھنا چاہتے ہیں ، حتیٰ کہ وہ حریت کی شمولیت بھی چاہتے ہیں بشرطیکہ حریت پاکستان کی شمولیت پہ اصرار نہ کرے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے ضمن میں ممکنہ مذاکرات کے علاوہ بھی گورنر ملک نے ریاست جموں و کشمیر کو در پیش مسائل پہ اپنے نظریات بیان کئے ہیں جو کم و بیش دہلی کے نظریات کی ترجمانی ہے۔ ان فرمودات کے تجزیہ سے دہلی کے طرز فکر کے بارے جانا جاسکتا ہے جو ظاہر ہے بھاجپا کے حکمران ٹولے کی اجتماعی سوچ ہے۔
گورنر ستیہ پال ملک نے ایک ایسے دورپُر آشوب میں اپنے منصب کا قلمدان سنبھالا جب ریاست میں گورنر راج قائم ہوئے کم و بیش دو مہینے ہو چکے تھے۔ گورنر راج تب لاگو ہوا جب جون 2018ء کی 19تاریخ کو بھاجپا نے محبوبہ مفتی کی سر براہی میں قائم کولیشن سرکارکی حمایت کے خاتمے کا اعلان کیا۔ کئی محرکات کولیشن سرکار کے ٹوٹنے کا باعث بنے۔محبوبہ مفتی دہلی کی بھاجپا سرکار کے مطالبات اور کشمیر کے سیاسی کے تقاضات کے بیچوں بیچ گھری ہوئی دہلی سرکار کی توقعات پہ اُترنے سے قاصر نظر آ رہی تھیں ۔حکومت گرنے کایہ بھی ایک سبب بنا کہ بھاجپا جموں میں اپنے حمایتی حلقے میں ناقص کار کردگی کے سبب اپنی حمایت کھوتی جا رہی تھی ۔ خیر اس سیاسی منظر نامے کے پس پردہ جو بھی اسباب رہے ،جموں وکشمیر میں زمام اقتدار گورنر این این ووہرا کے ہاتھ میں آئی۔ بتایا جاتاہے کہ سابقہ گوونر ووہرادس سال کی گورنری کے بعد خستگی کا شکار ہو رہے تھے ۔اُن کی خستگی جہاں جسمانی تھی، وہی نفسیاتی بھی تھی ، لہٰذا وہ دہلی سرکار کی ریاست کے تعلق سے سیاسی دخل اندازی سے ہم قدم ہونے سے قاصر نظر آ رہے تھے۔ این این ووہرہ کی منصب سے دستبرداری ستیہ پال ملک کے گورنر بننے کا سبب بنی۔جموں و کشمیر کی گورنری پہ تعینات ہونے سے پہلے آپ بہار کے گورنر تھے۔ستیہ پال ملک کئی پارٹیوں میں رہنے کے بعد بھاجپا کی صفوںمیں شامل ہوئے جس کے صلے میں اُنہیں گورنری عطا ہوئی۔ قبل ازیں ریاست جموں و کشمیر میں غیر سیاسی گورنر کی تعیناتیاںدہلی کی عمومی روش سیاست رہی تھی ۔ گورنری کیلئے جہاں سابقہ بیروکریٹوں پر قرعہ فال نکلا، وہیں سابقہ جنرل بھی اس کرسی پر تعینات ہوئے اور مرکزی سراغ رساں اداروں کے سابقہ سر براہ بھی اس کے لئے چن لئے گئے ۔ ایسے میں ستیہ پال ملک جیسے سیاستداں کی ریاست میں تعیناتی کو معنی خیز مانا جاتا ہے۔وہ ڈاکٹر کرن سنگھ کے بعد ریاست کے دوسرے سیاسی گورنر ہیں ،اس فرق کے ساتھ کہ جب کرن سنگھ گورنر بنے تب ملک صاحب سیاسی میدان میں نہیں پدھارے تھے ۔اُن کا سیاست میں داخلہ گورنری کے بعد کی بات ہے جب کہ ستیہ پال پہلے سے ہی منجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔انڈین ایکسپریس اور ٹائمز آف انڈیا میں اُن کے حالیہ بیانات موصوف کے سیاسی ذہن کے عکاس ہیں۔
گورنر ملک کے ہاتھ میں ایک ایسی ہنگامہ خیزریاست کی گورنری ہے جہاں کی قانون ساز اسمبلی معطل شدہ حالت میں ہے لیکن قانون اساسی کی رو سے اس اسمبلی کو بحال کرنے کی قانونی راہ بھی موجود ہے۔یہ اسمبلی بحال کی جا سکتی ہے اگر اسمبلی ممبران کی اکثریت ایک نئی کولیشن سرکار کی حمایت پہ آمادہ ہو جائیں۔اس سمت میں پہلے پہل یہ خبریں آئیں کہ پی ڈی پی کے کچھ ممبروں کی حمایت سے بھاجپا ایک اور کولیشن کی راہ ہموار کر رہی ہے جس میں سجاد لون کا خاص رول ہو گا۔پی ڈی پی کے کچھ ممبروں نے گر چہ پارٹی کی لیڈرشپ سے ناراضگی جتائی تھی لیکن اُن کی تعداد محدود رہی بلکہ اُن میں سے کچھ ممبروں نے جب یہ دیکھا کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی تو وہ پارٹی کی جانب واپس مڑے۔ پارٹی سے فرنٹ ہوئے ساتھیوں میں ایسا لگتا ہے کہ آخر کار انصاری خاندان کے چچا بھتیجا ہی رہ گئے ۔ گورنر ملک نے چور دروازے سے اسمبلی کی بحالی کی کوشش کو خارج از امکان قرار دیا جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ دہلی سرکار جوڑ توڑ کے ذریعے ریاست میں کسی متبادل سرکار کے قیام کے حق میں نہیں ہے۔ دہلی کی اس پالیسی کو ایک ہی چلینج پیش آ سکتا ہے اور وہ یہ کہ اگر نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی اپنی ایک کولیشن تشکیل دینے کے لئے آمادہ ہوں ۔ اس کا فی ا لوقت امکان کم ہی نظر آتا ہے، گر چہ حالیہ دنوں میں دونوں جماعتوں کے کچھ سر کردہ افراد نے ایک کولیشن تشکیل دینے کی خواہش ظاہر کی ہے ۔اس پلان کے تائید کنند گان میں پی ڈی پی کے الطاف بخاری اور نیشنل کانفرنس کے میاں الطاف شامل رہے ۔بہر حال ابھی تک نہ ہی عبداللہ خاندان نہ ہی مفتی خاندان کی حمایت مجوزہ کولیشن کے حق میں نظر آتی ہے۔سیاسی حلقوں میں یہی کہا جاتا ہے کہ اگر ایسی کولیشن کی تشکیل ہو بھی جائے تو دہلی اسمبلی کو تحلیل کر وا لے گی جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کا اختلاف قومی سطح کی جماعتوںکے لئے جموں و کشمیر میں میدان ہموار کر لیتا ہے ۔ علاقائی جماعت چاہے نیشنل کانفرنس ہو یا پی ڈی پی دونوں کو حکومت سازی کیلئے یا تو کانگریس کی ضرورت پڑتی ہے یا بھاجپا کی اور یہ سیاسی روش اس صدی کے ابتدائی سالوں سے مستحکم ہوتی رہی ہے۔ قومی سطح کی جماعت سے کولیشن تشکیل دینے سے یہ علاقائی پارٹیاں ریاستی اہداف کی ترجمانی سے محروم ہو جاتی ہیں اور یہ دہلی کے لئے ایک مناسب صورت حال ہے۔ اپنے انٹرویو میں گورنر ملک نے جموں و کشمیر کی علاقائی جماعتوں کے علاوہ قومی پارٹیوں پہ اپنی رائے کا اظہار کیا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے مہینوں میں دہلی سرکار کی ریاست کی نسبت سیاسی روش کیا رہے گی۔
گورنر ملک جس دن سرینگر ایر پورٹ پہ ریاست کی گورنرشپ کا چارج سنبھالنے کے لئے آگئے ، سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ وہاں اُن کے استقبال کیلئے موجود تھے ۔ ظاہر ہے وہ یہ عندیہ دینا چاہتے تھے کہ یہ نئے گورنر کے کافی قریب ہیں۔اُس کے بعد ہی کچھ تقاریب میں جہاں گورنر موجود تھے، وہاں فاروق عبداللہ بھی ان کے شانہ بشانہ پائے گئے ۔ ان تقریبات میں فاروق عبداللہ نے بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کی بھر پور حمایت بھی کی۔سیاسی تجزیہ کاروں پر یہ حقیقت واشگاف تھی کہ گورنر ملک کے ابتدائی اقدامات میں انتخابات کیلئے زمین ہموار کرنا تھا ۔بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کا عندیہ وزیر اعظم نریندرمودی نے اپنے لال قلعے والے خطاب میں 15؍اگست 2018ء کے روزہندوستان کے یوم آزادی کی تقریب میں دیا تھا ۔ان انتخابات کو کروانے کا پروگرام ایک ایسے دور میں پیش آیا جب دہلی کو عالمی سطح پہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کا سامنا رہا جس میں کشمیر کے حوالے سے بھارتی فوج پر حقوق بشر کی خلاف ورزیوں پہ سخت تنقید کی گئی ہے۔ایسے موقعوں پہ بھارت ہمیشہ یہی روش کار اپناتا ہے کہ جمہوریت نوازاقداماتسے اپنے خلاف تنقید کی نفی کرے۔جمہوری اقدامات کی تشہیر سے بھارت بازی کو اپنے حق میں پلٹنے کی سعی و جہد کرتا رہتا ہے اور ایسے اقدامات عالمی سیاسی بازار میں ا سکے حق میں خاصا اثر پیدا کرتے ہیں۔ محبوبہ مفتی کے دور میں ایک دفعہ آل پارٹیز کانفرنس میں یہ فیصلہ لیا گیا تھا کہ زمینی سطح پر ریاست میںبلدیاتی و پنچایتی انتخابات کیلئے ہموار نہیں ہے ، اسی وجہ سے اسلام آباد( اننت ناگ) کی پارلیمانی نشست پر چناؤ بھی منعقد نہیں کیا جاسکا۔اُدھر دہلی میں بھاجپا سرکار یہ ثابت کرنے پر کمر کسے ہوئی تھی کہ دہلی کی ساختہ پر داختہ مخصوص جمہوریت کا سکہ جموں و کشمیر چلتا ہے۔ دہلی کیلئے بلدیاتی و پنچایتی الیکشن کروانا سیاسی و سفارتی انا کا مسلٔہ بن گیا ۔ اس ضمن میںفاروق عبداللہ کا پہلے حمایتی بیان اور پھر دفعہ 35-Aکو ڈھال بنا کر انتخابی میدان سے کنارہ کشی اختیار کرنا،گورنر ملک اور دہلی سرکار دونوں پر گراں گذرا۔ چناںچہ ٹائمزآف انڈیا کے انٹرویو میں گورنر نے نیشنل کانفرنس کو آڑے ہاتھوں لیا اور فاروق عبداللہ پر تنقیدی فقرے کسنے سے بھی گریز نہ کیا ۔نیشنل کانفرنس کے ساتھ ساتھ کانگریس بھی گورنر کے نشانے پہ رہی جب کہ بھاجپا اور حیرت انگیز طور پہ پی ڈی پی کی خوب تعریفیں ہوئیں۔
گورنر ملک کا ٹائمز آف انڈیا کے انٹرویو میں یہ کہنا ’’ مفتی سعید اور محبوبہ مفتی کو چھوڑ کے سب ہی مین اسٹریم سیاستدان لوگوں کو جھوٹی اُمیدیں دلاتے رہے۔سب ہی سیاستدان دہلی میں مختلف باتیں کرتے ہیں جب کہ یہاں ائر پورٹ پہنچتے ہی کچھ اور ہی بات کہتے ہیں، جس سے لوگوں میں خاص کر جواں سال کشمیریوں کے ذہن میں بے اعتباری اور بے گانگی پیدا ہوتی ہے‘‘ معنی خیز ہے ۔ گورنر ملک کے اس بیان سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مر کز مفتی محمدسعید اور اُن کی بیٹی محبوبہ مفتی کی وفاداری کا قدردان ہے تو پھر مفتی خاندان کی حکومت کو کیوں ٹھکانے لگایا گیااور وہ بھی ایک ایسے نا زیبا طریقے سے کہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی سیکرٹریٹ میں چیف منسٹری کے فرائض انجام دے رہی تھیں ، وہیں نیچے سے ان کا تختہ کھینچا گیا اور حکومت کا اپنی ٹرم مکمل کرنے سے پہلے ہی گر ائی گئی ؟ ایسا سوال کرنے سے راقم الحروف کو یقینی طور ی محبوبہ مفتی سے کوئی ہمدردی ہے یا اُس کی سیاست سے اتفاق ایسا کچھ بھی نہیں ہے ، ہاں یہ تعجب ضرور ہے کہ جب مر کز اپنے کشمیری حمایتی عناصر سے یہ دشمنانہ رویہ رکھیں تو اُن کا کیا حال ہو سکتا ہے جن کی حمایت پہ یا تو شک کیا جا تا ہے یا جو مخالفوں کی صف میں شامل ہیں؟ مر کز کی نگاہ میںجہاں مفتی سعید اور محبوبہ مفتی کے علاوہ ہر ایک مین اسٹریم سیاستدان شک کے دائرے میں ہے ،وہاں ظاہر ہے عبداللہ خاندان پہ حرف آتا ہے جو تین نسلوں سے بھارت کی حمایت میں بچھے جا ر ہاہے لیکن بلدیاتی و پنچایتی انتخاب میں کنارہ کشی سے مر کزمیں راندہ ٔ درگاہ ہو گئے؟گورنر موصوف نے فاروق عبداللہ پر 7 فیصد ووٹ سے ممبر پارلیمنٹ بننے کا فقرہ کسا۔ایسا لگتا ہے کہ اب کی بار فاروق عبداللہ وفا نبھانے میں بری طرح چونکے کہ دہلی والے اُن کی سابقہ قربانیوں کو یکسر بھول بیٹھے ، حالانکہ یہ وہ تھے جنہوں نے 1996ء میں طوفانی حالات میں بھارتی ناؤ کو کشمیر میں بیچ منجدھار سے نکال کے لایا ۔یہ وہ زمانہ تھا جب کوئی بھی انتخابی میدان میں آگے آنے کو تیار نہیں تھالیکن عبداللہ خاندان کے سپوت دیوانہ وار سامنے آگئے۔خیر یہ فاروق عبداللہ اور دہلی میں اُن کے دیرینہ خیر خواہ جانیں!ویسے حالیہ بلد یاتی انتخابات سے محبوبہ مفتی نے بھی ہاتھ کھنچ لیا لیکن اُنہیں شاید بلدیاتی و پنچایتی مقدمے بازی میں وعدہ معاف گواہ بنانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ ا س حوالے سے دہلی سرکار اور اُن کے تئیں نرم گوشہ رکھنے والے گورنر ملک کی سیاسی ادائیں نا قابل فہم بنتی جا رہی ہیں!
دہلی میں1947ء سے بنیں سبھی سرکاروں کا ب ہاستثنیٰ واجپائی سرکار اور مودی سرکار کو گورنر ملک نے آڑے ہاتھوں لیا ۔گورنر ملک کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کے دور حکومت میں انتخاب صاف و شفاف ہوں گے۔گورنر موصوف نے یہ بھی کہا کہا گرچہ کشمیر میں ڈائیلاگ کے بارے میں دہلی نے فیصلہ لینا ہے لیکن وہ اس ڈائیلاگ کیلئے زمین ہموار کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس ڈائیلاگ میں جموں و کشمیر کی مین اسٹریم پارٹیوں کے علاوہ حریت بھی شامل ہو سکتی ہے بشرطیکہ وہ پاکستان کو بات چیت میں شامل رکھنے کی شرط کو اختیار نہ کر ے۔گورنر موصوف کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کامسلٔہ کشمیر میں فریقا نہ درجہ حریت سے مشروط ہے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ مسلٔہ کشمیر کے وجود میں آنے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر بھارت اور پاکستان کے بیچ تضاد و عناد ہے اور یہ تضاد وعناد کے سبب ہی ریاست کا ایک حصہ بھارت کے زیر انتظام ہے اور دوسرا حصہ پاکستان کے زیر انتظام ہے ۔ ان دو حصوں کے بیچوں بیچ حد متارکہ مسلٔہ کشمیر میں بھارت اور پاکستان کے دو فریق ہونے کا شاہد عادل ہے ۔گورنر موصوف واجپائی سرکار کو استثنائی مانتے ہیں اور اگر وہ واقعی دل سے ایسا مانتے ہیں تو اُنہیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ واجپائی مسلٔہ کشمیر کو حل کرنے کی سعی میں لاہور پہنچے اور لاہور ڈیکلریشن اس حقیقت پر دلالت کر تی ہے اور یہ کہ مسئلہ کشمیر کے چلتے کسی ایک فریق کی نفی سے کشمیر کی گتھی سلجھنے کے بجائے صرف سلجھ سکتی ہے۔ ڈل کنارے چشمہ شاہی کی بانہوں میں واقع اور آب و ہوا کے لحاظ سے آئیڈئل محل وقوع رکھنے والے راج بھون کی ٹھنڈی ہواؤں سے اُمید ہے کہ گورنر ملک مسلٔہ کشمیر کی ان ٹھوس حقیقتوں کو سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گے اور وہ کشمیر کے تعلق سے اپنی حق بیانی کی فائین ٹوننگ کر تے ہوئے ارضی حقائق سے چشم پوشی نہیں کریں گے۔