ریاستی حج کمیٹی کے پرچم تلے سفر محمود پر گئے ہزاروں خوش نصیب حجاج کرام قافلہ درقافلہ ان دنوں فریضہ ٔ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں محو عبادت ہیں اور آٹھ ذی الحجہ کی اُس مبارک گھڑی کے بے تابانہ منتظرہیں جب وہ مناسک حج کی شروعات کر کے منیٰ کی وسیع وعریض خیمہ بستیوں میں اپنا پڑاؤ ڈالیں ۔ تادمِ تحریر کشمیر سے تعلق رکھنے والے دوعازمین ِ حج اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں ۔ان میں سے ایک حاجی صاحب مدینہ شریف میں سڑک حادثے میں جان بحق ہو اور ایک حاجن حرکت ِقلب بند ہونے سے مکہ معظمہ میں جان بحق ہوئی۔اس کے علاوہ عزیزیہ کے ایک ہوٹل میں بجلی شارٹ سرکٹ ہونے سے وہاں قیام پذیر کشمیری حجاج کرام بال بال بچ گئے۔ اس بار بھی ریاستی حج کمیٹی مبینہ طور عازمین حج کے لئے حرم ِ مکہ اور حرمِ مدینہ میں معقول رہائشی، طبی اورٹرانسپورٹ انتظامات کر نے میں ناکام بتائی جاتی ہے ۔ افسوس کہ حج کمیٹی روانگی سے قبل بارہا ر عازمین کو یقین دہانیاں کراتی رہی کہ تمام حج انتظامات معقول انداز میںمکمل کئے گئے ہیں لیکن عملی حقیقتیں ان یقین دہانیوں کوزبانی جمع خرچ ثابت کرر ہی ہیں کیونکہ ریاست کے اکثرحاجی صاحبان ٹیلی فون کرکے اپنے عزیز واقارب اور اخبارات کو مکہ و مدینہ میں مذکورہ کمیٹی کی طرف سے ناقص انتظامات کی مسلسل شکایات کر رہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ مقدس سرزمین میں حج کمیٹی کے اربابِ اقتدار سے اگرچہ بصد مشکل رابطہ کر کے عازمین انہیں سہولیات کے حوالے سے اپنی پریشانیاں دور کر نے کی گزارشیں کر تے پھرتے ہیں لیکن کمیٹی والے آئیں بائیں شائیں کر کے انہیں ٹرخا تے ہیں اور بس ۔ اس صورت حال سے یہی اخذ ہوتا ہے کہ ریاستی حج کمیٹی اس بار بھی حاجی صاحبان کی توقعات پر پورا اُترنے میں ناکام رہی ہے ، اور ہرسال کی طرح امسال بھی یہ اپنی ناقص کا کردگی کے پیش نظر کافی بدنامی مول چکی ہے ۔ کمیٹی کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کے ان الزامات سے مترشح ہوتا ہے جیسے اسے حجاج کرام کے تئیں نہ اپنے فرائض کی انجام دہی کا احساس ہے، نہ اپنی حُسن کارکردگی سے عازمین سے دعائیں لینے میں کوئی دلچسپی ہے ، نہ حاجیوں کے آرام کا کوئی خیال ہے ، نہ ان کو آسائشیںپہنچانے کی کوئی فکر دامن گیر ہے۔ ان وجوہ کی بناپر عازمین ِحج کا حج کمیٹی سے شاکی ہونا قابل فہم امرہے۔ ریاستی حج کمیٹی کو چاہیے کہ وہ فوری طور آل انڈیا حج کمیٹی کی وساطت سے اور حرمین میں موجود اپنے مقرر کردہ خدام الحجاج کو متحرک کرکے حاجی صاحبان کی تمام جائز شکایات ومشکلات کا ہر ممکن ازالہ کرائے تاکہ عازمین ذہنی یکسوئی اورقلبی سکون کے ساتھ فریضہ ٔ حج انجام دے سکیں۔ اس ضمن میں گورنرا نتظامیہ پربھی لازم آتا ہے کہ وہ مکہ اورمدینہ میں ریاست کے حاجی صاحبان کو بہتر سہولیات مہیا کروانے کے لئے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرے اور یہ بات یقینی بنائے کہ ریاستی حج کمیٹی کے ارباب ِ حل وعقد میں جو کوئی بھی حج ۲۰۱۸ء کے سلسلے میں دانستہ یانادانستہ کوتاہ عملی یا فرض ناشناسی کا مرتکب ٹھہرے، اُس کے خلاف موثر تادیبی کارروائی کی جائے گی ۔اس اقدام سے ریاستی حج کمیٹی ایک بااعتبار ، جوابدہ ،فعال اور ذمہ دار سرکاری ادارہ ہونے کا سابقہ امتیاز پائے گا ۔ بہر صورت عازمین ِ حج کی جائزشکایات اپنی جگہ ،البتہ انہیں فریضہ ٔ حج کا یہ پہلو لمحہ بھر کے لئے بھی نظروں سے اوجھل یا ذہن سے محو نہیں کرنا چاہیے کہ حج ایک اہم دینی فریضہ اور ایک محنت طلب عبادت کا عنوان ہے،۔اس کی ادائیگی میں عازمین کو چار وناچار سفر کی صعوبتوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے اور اُنہیں اپنے کھانے پینے کی عادات اور سونے جاگنے کے معمولات بھی یکسر بدلنا پڑتے ہیں۔ بلاشبہ یہ کوئی آسان کام نہیں ۔ حج کا ایک طرہ ٔ امتیاز یہ بھی ہے کہ حرمین میں قیام کے دوران عازمین کی اُن لوگوںسے قربتیں بڑھ جاتی ہیں جن سے کوئی جان پہچان نہیں ہوتی ، جو کہنے کواجنبی ہوتے ہیں مگر اُ ن سے اپنائیت کا شریں رشتہ ا ستوار ہوتا ہے ، چاہے اُن کی زبان اور کلچر سے ناواقفیت ہو مگر اُن سے دلی جذبات اور اشاروں کی زبان میں بول کر ایسے گھل مل جانا پڑتا ہے کہ جیسے برسوں بچھڑے ہوئے دوست پہلی بار ملے ہوں ۔ بالفاظ دیگر حج بیت اللہ ایثار ، اخلاص اور محبت کی وہی تاریخ تروتازہ کرتا ہے جو خلیل اللہ ابراہیم ؑا ور ذبیح اللہ اسمعٰیل ؑ کی پاک سیرتوںکا خاصہ ہے۔ حج کی ان لامثال خصوصیات کے زیر اثرعازمین حج کو حرمین میں خوشی اور طمانیت کی بے بہا دولت حاصل ہوتی ہے۔ تاہم حجاج کرام کو یہ بات بھی گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ ا یامِ حج فی الحقیقت حاجیوں کے ایثارواخلاص کے لئے ایک مسلسل امتحان ثابت ہوتے ہیں ۔ اندازہ کیجئے کہ ایک سالانہ عالمی اجتماع جس میں دنیا کے گوشے گوشے سے لاکھوں حاجیوں کے بے پناہ اژ دھام جمع ہونے سے دھکم پیل ہو ، عازمین کوگھر سے دوری اور اپنوں سے جدائی کا احساس ستاتا ہو، آفتاب کی تمازت، ہمہ وقت عبادات کی دوڑ دھوپ ، مختلف الطبع لوگ سے میل جول ، اپنے ہم مزاجوں کی عدم موجودگی بلکہ ساتھیوںکی پسند و ناپسند کے بھی مختلف پیمانے ہوں، وہاں طبیعت میں اُنیس بیس کا فرق ہونا فطری بات ہے ۔ اس لئے عازمین کو اپنے اندر بدرجہ ٔ اتم قوت ِبرداشت پیدا کر نا لازم وملزوم ہے ۔ حج سے جڑی یہی چیزیں اس خدائی امتحان کو ہر بندے کے لئے بہت ہی کڑا بناتے ہیں ۔ رب کائنات نے ان حقیقتوں سے حاجیوں کو پیشگی مطلع کر تے ہوئے کورفث(ازدواجی تعلقات ) فسوق( گناہ کاعمل ) سے اجتناب کے علاوہ جدال( یعنی بحثابحثی اور جھگڑالوپن ) سے دامن بچانے کا خاص طور حکم دیا ہے تاکہ حج کا تقدس بھی برقرار رہے، عازمین کو رجوع الی اللہ کا فائدہ بھی حاصل ہو جائے ، قدم قدم پر صبر وضبط کا مظاہرہ بھی ہو ۔ ا للہ کا منشاء یہی ہے کہ سفر محمود کے توسط سے ہر کوئی حاجی اور حاجن اُخوت ومحبت کی دولت سے اپنی اپنی جھولی بھرنے اور براہیمیؑ ایثار کا مظاہرہ کر نے سے اجر وثواب کمائے ۔ حج کے اس امتحان میں کامیابی پانے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اگر بالفرض عازم کو کسی اورکے ہاتھ کسی ناخوشگوار واقعے سے دوچار بھی ہونا پڑے یا بشری تقاضوں کے تحت کسی مخالف مزاج شخص سے ذہنی اذیت پہنچے، تو کبھی اپنا آپا نہ کھوئے بلکہ فی اللہ وللہ خلاف توقع باتوں کو نظر انداز کرکے اللہ کی شرطِ آزمائش میں کھرا اُترنے کی بھر پور کوشش کرے ۔ انہی صورتوں میں مقاصدحج کا حق ادا کیا جاسکتا ہے ۔ اس لئے ہمارے حجاج کرام پر یہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ چاہے حج کمیٹی کا طر زعمل منفی ہو یا کسی اور ساتھی سے انہیں ذہنی کوفت پہنچے ،اولوالعزمی کا مطالبہ یہی ہے کہ وہ ا س نوع کے تسامحات کو محض اللہ کو خوش کرنے کی نیت سے چشم پوشی کر یں تاکہ شیطانی وساوس کے خلاف اپنی عبادتِ حج کا موثر دفاع ممکن ہو۔