ریاستی وزیر اقتصاد حسیب درابو کے جدیدترین بجٹ برائے سال 2018-19 میں ایسی کوئی بات نہیں جو نئی ہولہذا اُسے اِس کے سوائے کوئی اور عنواں دینا کہ یہ پرانی شراب نئی بوتلوں میں ہے مناسب نہیں ہو گا باوجودیکہ اِس حقیقت کے یہ ایک عام سا عنواں ہے۔اِس بجٹ کو گوشوارہ کہنا ہی مناسب ہو گا جہاں صرف آمدن و خرچ کا حساب ہو تا ہے ۔حقیقی بجٹ وہ ہوتا ہے جس میں فکر و نظر عیاں ہو۔ہر بجٹ کو پیش کرنے میں سوچ یہی ہونی چاہیے کہ پیسہ ایسے مدوں پہ خرچ کیا جائے جہاں مستقبل میں بیشتر آمدنی کے مواقع میسر رہیںبہ معنی دیگر سرمایہ کاری ایسے مدوں پہ ہونی چاہیے جہاں اثاثے بنانے کے امکانات ہوں۔ملکی اثاثے ہی ایک ایسی بنیاد فراہم کرتے ہیں جہاں مستقبل میں کل آمدن میں اضافے کے امکانات فراہم ہوتے ہیں اور عوام الناس کو اقتصادی سہولیات میسر ہوتی ہیں۔حسیب درابو کے جدید ترین بجٹ میں فکر و نظر کا فقداں عیاں ہے۔ سال گذشتہ 2017-18کے مالی سال کے بجٹ پہ بحث کے دوران نیشنل کانفرنس کے دیویندر رانا نے چبھتی ہوئی بات کی ۔اُن کا یہ ماننا رہا کہ کہ حسیب درابو سپنوں کے سوداگر ہیںیعنی سپنے بیچتے ہیں جو حقائق سے عاری ہیں۔بجٹ کو رنگین رنگوں میں رنگنے سے یہ حقیقت بدل نہیں سکتی کہ سال بہ سال ریاست جموں و کشمیر قرضوں کے بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے۔
حسیب درابو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ماہر اقتصادیات ہیں۔اُن کی اقتصادی مہارت کا معیار کتنا ہی بلند و بالا کیوں نہ ہو البتہ سچ تو یہ ہے کہ 2018-19 کے مالی سال کا جو بجٹ اُنہوں نے ریاستی قانون ساز اسمبلی میں پیش کیا اُس میں کہیں بھی وہ مہارت نظر نہیں آتی جس سے وہ جانے پہچانے جاتے ہیں ۔مالی وصولی اور اخراجات کا جہاں تک تعلق ہے تو دونوں میں کہیں بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ ریاست خود کفالت کی جانب گامزن ہے۔مالیاتی وصولی کیلئے ایسے ذخائر کی ضرورت ہے جو آمدن فراہم کر سکیں لیکن ایسے ذخائر کمیاب ہیں جو ریاست کے اخراجات کے متحمل ہو سکیں۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ اخراجات پورے کرنے کیلئے نظر دہلی کے خزانے پہ رکھی جا تی ہے جبکہ آمدن کے وسائل کو ریاست میں فروغ دینے پہ بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔2018-19کے اخراجات میں گر چہ کم و بیش اِس کیلئے پہلے سے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے لیکن اِس سرمایہ گذاری سے بہتر نتائج کا حصول تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جبکہ اِن رقومات کا مناسب استعمال ممکن بنایا جا سکے جس کے لئے مہارت،نیک نیتی اور معقول لیبر فورس کو یقینی بنانا انتہائی ضروری ہے۔
حسیب درابو سال نے 2014کے انتخابات کے بعد وزارت اقتصاد کا قلمدان سنبھالا جو ایک انتہائی اہم محکمہ ہے۔وزارت داخلہ کے بعد اکثر وزرا کی ترجیح وزارت اقتصاد ہوتی ہے جسے خزانے کی وزارت بھی کہا جاتا ہے۔بھاجپا نے اُن کی اِس اہم وزارت میں تعیناتی پہ کوئی اعتراض نہیں کیا جبکہ وزارت داخلہ پہلے ہی وزیر اعلی مرحوم مفتی سعید کی دسترس میں تھی۔ اِس کی وجہ اول تو یہ رہی کہ حسیب درابو اقتصادی ماہر مانے جاتے ہیںثانیاََ وہ بھاجپا و پی ڈی پی کولیشن سرکار کے علمبرداروں میںتصور کئے جاتے ہیں۔جیسا کی سیاسی حلقوں میں کہا گیا کولیشن سرکار کی تشکیل رام مادھو و حسیب درابو کے مابین مذاکرات کے بعد ہوئی جس میں قول و قرار طے پائے۔رام مادھو آر ایس ایس سے وابستہ رہے ہیں اور آجکل بھاجپا میں تنظیمی فرائض انجام دے رئے ہیں۔اقتصاد مہارت اور بھاجپا سے قربت حسیب درابو کے کام آئی اور سیاست میں نسبتاََ نا وارد ہونے کے باوجود وہ وزیر اقتصاد بن گئے۔امید یہی کی جاتی تھی کہ اُن کی اقتصادی مہارت نئے گل کھلائی گی لیکن کئی بجٹ پیش کرنے کے بعد با دل نخواستہ یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اُنکے بجٹ اور اُن کے پیشرو عبدل رحیم راتھر کی بجٹ پیشکش میں صرف انیس بیس کا ہی فرق ہے۔
2018-19کے بجٹ میں 80, 313 کروڑ روپے کی مالی رسیدگی کا ذکر ہے یعنی وہ رقم جو اخراجات کیلئے ریاست کو میسر رہے گی جو پچھلے مالی سال 2017-18 کے 79472روڑ سے قدرے زیادہ ہے ۔مالی رسیدگی کا مقایسہ پچھلے کئی سالوں کے بجٹ سے کیا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ ریاست کی آمدن کم و بیش دوگنی ہو گئی ہے کیونکہ جب نیشنل کانفرنس و کانگریس کولیشن سرکار میں 2008 ء سے 2014 ء تک عبدارحیم راتھر وزیر اقتصاد تھے تب ریاستی بجٹ کا مجموعی تخمینہ 33,000کروڑ سے 46,000کروڑ تک لگایا جاتا تھاجبکہ حسیب درابو کا 2018-19کا بجٹ 80, 313 کروڑ پہ مشتمل ہے۔در اصل حسیب درابو نے مرکزی سکیموں پہ خرچ ہونے والے رقم مجموعی مالی رسیدگی میں جوڑ لی ہے جس سے رقم کا حجم دوگنا ہو گیا ہے جبکہ عبدارحیم راتھرکے دور میں مرکزی سکیموں پہ خرچ ہونے والی رقم مجموعی مالی رسیدگی میں شامل نہیں ہوتی تھی بلکہ اُس کا حساب الگ رکھا جاتا تھا۔حسیب درابو کی بجٹ پیشکش میں سب ہی کی ایک ہی کھچڑی بنائی گئی ہے جس سے یہ عیاں ہے کہ وہ ریاستی مالیات و دہلی کی مالیات میں کسی تفاوت کے قائل نہیںہیںویسے بھی دیکھا جائے دہلی کی ساختہ جی ایس ٹی (GST)کو من و عن لاگو کر کے اقتصادی دائرے میں ریاست کو جو آزادی حاصل تھی وہ ختم ہو گئی ہے حالانکہ پہلے یہی کہا گیا کہ جی ایس ٹی (GST) ایسے لاگو کیا جائے گا جس میں ریاستی تحفظات کا خیال رکھا گیا ہو لیکن یہ وعدہ بھی ایسا ہی وعدہ رہا جو ایفا نہ ہو سکا۔
80, 313کروڑ کی مجموعی مالی رسیدگی میں64, 269 کروڑ مالیاتی رسید یں(revenue receipts) ہیں جبکہ اثاثوں کی آمدن جسے اقتصادی لغت میں کیپٹل رسیدیں(capital receipts) کہا جاتا ہے 16044کروڑ ہے۔ 64, 269کروڑ کی آمدن پہ خرچ 51,185 کروڑ دیکھایا گیا ہے یعنی 13084 کروڑمالیاتی رسیدوں میں ایسی رقم ہے جہاں آمدن خرچے سے زیادہ ہے جبکہ اِس کے برعکس کیپٹل رسیدوں میں جہاں آمدن 16044کروڑ ہے وہاں خرچہ 29, 128کروڑ ہے یعنی خرچہ آمدن سے 13084 کروڑ زیادہ ہے۔پس مالیاتی مد جو 13084 کروڑ کی اضافی رقم دیکھائی گئی ہے اُسے کیپٹل مدکی کمی پوری کی جائے تو مجموعی آمدن و خرچہ برابر ہو جاتا ہے۔ یہ بجٹ کے پیش کردہ کاغذات میں دیکھانے میں جتنا آساں ہوتا ہے اتنا ہی مشکل عملیانے میں ہوتا ہے ۔مجموعی آمدن و خرچہ برابر ہوتے تو ریاست پہ قرضے کا بوجھ اِس قدر شدید نہ ہوتا جتنا کہ صیح معنوں میں ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ ریاست قرضوں کے بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے البتہ کم و بیش ہر بجٹ میں یہی دیکھائی جاتا ہے کہ آمدن و خرچ برابر ہے اور کسی قسم کا مالی خسارہ نہیں ہے۔ریاست جموں و کشمیر اِس حساب سے انہونی ہے جبکہ بھارتی ریاستوں کا بجٹ ہو یا دہلی کی مرکزی سرکار کا بجٹ ہو ہر جگہ غلط بیانی کے بجائے مالی خسارے کی نشاندہی ہوتی ہے اور تو اور امریکہ جیسی دنیا کی وسیع ترین اقتصاد میں خسارہ صاف دیکھائی دیتا ہے لیکن یہاں مظفر بیگ سے لے کے حسیب درابو تک کے بجٹ میں خسارہ ((deficit)صفر ہوتا ہے؟
یہاں بات گوشوارے پہ آئی جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے یعنی بجٹ کے پیش کردہ کاغذات میں روپیہ آیا کہاں سے اور کہاں جا رہا ہے۔2018-19کے بجٹ میں 80, 313 کروڑ روپے کی مجموعی ما لی رسیدگی کا ذکر ہے جس میں 43% دہلی سرکار کے فنڈس ہیں۔2017-18کے مالی سال میں بھی مرکزی فنڈس 43%تھے ۔اِس کے جواز میں یہ کہا جا تا ہے کہ یہ دہلی سرکار کی مہربانی نہیں بلکہ مرکزی قانون اساسی کی 268سے 279 کی دفعات کے تحت ریاستوں کا حق بنتا ہے اور کس ریاست کو کتنا ملے اِس کا تعین فائنانس کمیشن (finance commission)کرتا ہے جبکہ اِس کمیشن کے ممبراں کا تعین بھارتی آئین کی دفعہ 280کے تحت صدر جمہوریہ ہند ہر پانچ سال کے بعد کرتا ہے۔ آئینی جواز جو بھی ہو سچ تو یہ ہے کہ ریاستی بجٹ کی آبیاری بیشتر دہلی سرکار کے دئے ہوئے فنڈس سے ہوتی ہے جبکہ 1947ء سے پہلے ریاست جموں و کشمیر اقتصادی دائرے میں خو دکفیل تھی ۔1947ء سے پہلے ریاستی ایکسپورٹ امپورٹ سے کم و بیش تگنا تھا جبکہ آج امپورٹ ایکسپورٹ سے سات گنا ہے یعنی جہاں 1947ء سے پہلے جہاں بر آمد در آمد سے تگنی تھی وہی آج در آمد بر آمد سے سات گنا ہے!اقتصادی دائرے میں مجموعاََ ہمارے خرچے ہماری آمدن سے کہیں زیادہ ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آمدن اور خرچے میں کوئی مماثلت ہی نہیں!
80, 313 کروڑ روپے کی آمدن جہاں 43% دہلی سرکار کے دئے ہوئے فنڈس سے پورا ہو تی ہے وہی 14%مرکزی ٹیکسوں میں ریاست جموں و کشمیر کا حصہ بنتا ہے اور 16% ریاستی ٹیکسوں سے حاصل ہونے کا تخمینہ ہے جبکہ 7% غیر از ٹیکس ذرائع سے حاصل ہوئے ہیں جسے نان ٹیکس کہا جاتا ہے۔یہ کل ملا کے80, 313 کروڑ کا 80% بنتا ہے اور باقی 20%قرضے اٹھا کے پورے کئے جائیں گے ۔یہ اعداد کم و بیش پچھلے کئی سالوں کے اعداد کے برابر ہی ہیں۔ جہاں تک مالی رسیدگی کے مختلف ذرائع کا تعلق ہے جس میںمرکزی فنڈس،مرکزی ٹیکسوں میں ریاست کے حصے،ریاست کے اپنے ٹیکسوں سے وصولی اور نان ٹیکس کا تعلق ہے در صد کے حساب سے دیکھا جائے تو پچھلے کئی سالوں سے کوئی خاص تفاوت نظر نہیں آتا۔جہاں تک بجٹ کا ایک خاطر خواہ حصہ20%قرضوں سے پورا کرنے کا تعلق ہے اِس سے قرضہ جات اور بقایا جات(Loans & Liabilities) میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ریاست کے پاس اسقدر مالی ذخائر نہیں کہ قرضوں سے نجات حاصل کر سکے بلکہ یہاں تو حالت یہ ہے قرضے پہ جو سود کی رقم ہے وہ بھی مشکل سے پوری ہو پاتی ہے قرضے کی ادائیگی تو دور کی بات ہے۔ریاستی اخراجات کا ایک حصہ سود کی ادائیگی پہ خرچ ہوتا ہے۔
بجٹ میں آمدن کی تفصیلات کے بعد اخراجات کی طرف آئیں تو ہماری اقتصادی خوشحالی میں حائل مشکلات کا اندازہ ہونے لگتا ہے ۔اخراجات میں30%سرکاری ملازموں کی تنخواؤں اور 6% پنشن کی ادائیگی پہ صرف کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے یعنی کم و بیش اخراجات کا یک سوم تنخواؤں اور پنشن کی ادائیگی پہ صرف کئے جائیں گے ۔اضافی بجلی کی خرید پہ 9% خرچ کرنے کا تخمینہ ہے جبکہ 6% قرضہ جات پہ سود کی ادائیگی پہ خرچ ہونگے۔ ترقیاتی کاموں پہ آمدن کا 36% خرچ کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ دیگر اخراجات کے زمرے میں 13% خرچ کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے جو ظاہر ہے سرکار چلانے کے اخراجات ہیں ۔اِسے ریاست کی مجبوری ہی ماننا ہو گا کہ اقتصاد کا شعبہ خصوصی یعنی پرائیوٹ سیکٹر کے سکڑنے سے ریاستی سرکار روزگار فراہم کرنے کی صنعت بن گئی ہے لہذا اخراجات کا کم و بیش یک سوم تنخواؤں اور پنشن پہ صرف کرنا پڑتا ہے جو کہ ریاستی اقتصاد کیلئے بار گراں ہے ۔اِس خرچ کثیر کی بنا پہ ریاست ترقیاتی کا موں کیلئے خاطر خواہ رقم بچا نہیں پاتی تاکہ ترقیاتی کاموں پہ پیسہ لگا کے مالیاتی جمع آوری کو فروغ حاصل ہو سکے۔ترقیاتی کاموں سے اثاثے بنتے ہیں جو ایک مستقل آمدن کا ذرائع بنتے جاتے ہیں لیکن ایک تو ریاست کے پاس ترقیاتی کاموں کیلئے قلیل رقم ہوتی ہے ثانیاََ رشوت خوری کی وبا سے جو بھی رقم ترقیاتی کاموں کیلئے صرف ہوتی ہے اُس کا مصرف ایسا نہیں ہوتا جس کی کہ توقعہ رکھی جا سکتی ہے۔
ترقیاتی کاموں کے فروغ کا ایک صلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ پرائیوٹ سیکٹر کو فروغ دینے کے مواقع میسر ہوتے ہیںجس سے روزگار فراہم کرنے کے وسائل بڑھ سکتے ہیں اور ریاست ہر ایک بے روزگار کو روزگار فراہم کرنے کے دباؤ میں نہیں رہتی۔ بجٹ کے تجزیے میں یہی حقیقت عیاں نظر آتی ہے کہ کہ ریاست میںتولیدی صلاحیتوں میں افزائش کیلئے جو رقومات مختص ہونی چاہیں وہ ہو نہیں پاتی اور رقومات بیشتر غیر تولیدی مدوں پہ ٖصرف ہوتی ہیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں اقتصادی خود کفالت کے حصول کیلئے جو کام ہونا چاہیے وہ ہو نہیں رہا ہے ۔ اقتصادی دائرے میں کوئی بھی ریاست تولیدی صلاحیتوں سے مالا مال نہ ہو تو دیر یا سویر وہ ریاست قرضوں پہ پلنی لگتی ہے اور قرضوں کی افزائش سے سیاسی سالمیت داؤ پہ لگ جاتی ہے ۔ گذرتے وقت کے ساتھ قرضے کی ادائیگی تو دور کی بات ہے قرضے پہ سود ادا کرنا بھی محال ہوتا ہے ۔اِس ریاست کے اقتصادی دائرے میں فکر و نظر کا فقدان ہے اور ہر سال کے مالی بجٹ میں یہ حقیقت عیاں سے عیاں تر ہوتی جا رہی ہیں ۔مجموعاََ اقتصاد پہ وہ توجہ مرکوز نہیں جو سیاسی امور پہ ہوتی ہے۔
Feedback on: [email protected]