پاکستان کے اندر ہونے والے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں عمران خان کی پارٹی ایک فاتح سیاسی پارٹی کی حیثیت سے اُبھری ہے۔ اس سیاسی فتح پر میں نے عمران خان کی تقریر سنی اور میں پاکستان کے ایک روشن مستقبل اور ان کے ملک کی ترقی کے لئے اس کے بانی کے مقاصد کی تکمیل کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ ان کے نیک ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کے انہیں اس پہلی ریاست مدینہ سے قوت ارادی ملتی ہے جسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا۔ حوالے کے طور پر ریاست مدینہ کا ذکر ایک اچھی شروعات کی علامت ہے۔ اپنی عمر کے 90 برس گزارنے کے بعد اس پیش رفت کو دیکھ کر میں نصیحت کے چند کلمات پیش کرنا چاہوں گا۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ بڑی گہرائی کے ساتھ کیا ہے۔ میں نے یہ پایا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ کسی بھی جدوجہد کی کامیابی کی ضمانت ایک اچھی شروعات ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں صدی میں مکہ کے اندر اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ سلم کے سامنے مواقع بھی تھے اور پریشانیاں بھی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی صورت میں ڈی لنکنگ (delinking) کی پالیسی اختیار کی۔ اور یہی اچھی شروعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کا راز ثابت ہوئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پالیسی یہ تھی کہ آپ نے متنازع فیہ معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ساتھ آپ نے دستیاب مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی اپنی جدوجہد بھی جاری رکھی اور دوسری طرف مسلمانوں نے صرف غیر متنازعہ فیہ معاملات میں ہی خود کو پیش کیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ڈی لنکنگ (delinking) پالیسی ایک اعلیٰ ترین حکمت پر مبنی تھی جس کی بدولت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نئی ریاست مدینہ میں ترقی کرنے کے بے شمار مواقع ہاتھ لگے۔ تاہم قیام پاکستان کے بعد اس طرح کی ڈی لنکنگ (delinking) پالیسی پر عمل کرنے کے بجائے اس ملک کے قائد وں نے اپنی ساری توجہ زمین حاصل کرنے پر ہی مرکوز کردی جس کے بارے میں اُن کا گمان تھا کہ وہ متعدد وجوہات کی بنا پر کھو چکے ہیں۔
تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈی لنکنگ (delinking) پالیسی اصولی اور عملی دونوں طور پر زبردست کامیاب ثابت ہوئی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں از سر نو منصوبہ بندی کرنے اور قوم کی تعمیر پر توجہ مرکوز کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت سارے ملکوں نے اس پالیسی کو اپنایا جس کی بنیاد پر انہیں بڑی کامیابیاں ملیں۔ جرمنی اور جاپان نے تعلیم اور سائنسی ترقی کے شعبے میں زبردست کامیابی حاصل کی۔
وقت کا سب سے اہم تقاضہ یہ ہے کہ پاکستان ڈی لنکنگ (delinking) کی اس پالیسی کو اپنائے، جیسا کہ عمران خان نے کہا موجودہ دور میں کسی بھی ملک کو ترقی کرنے کے لیے تجارت کے میدان میں بڑے مواقع موجود ہیں۔ مروجہ عالمی رجحان کی وجہ سے پاکستان اور ہندوستان کے بیچ تجارت کا میدان کھلا ہوا ہے اور یہ ایک ایسا موقع ہے جس کا فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔ ان دونوں ملکوں کو اپنے تمام متنازعہ فیہ معاملات کو برطرف کرکے ایک مضبوط تجارتی تعلق قائم کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ یہ ڈی لنکنگ (delinking) پالیسی ان دونوں ملکوں کے لیے یقینی طور پر کامیابی کی ضمانت ہے۔ہندوستان اور پاکستان دونوں کو یکساں طور پر برصغیرکی تاریخی روایات سے حصہ ملا ہے۔ دراصل ان دونوں ملکوں کے درمیان اس قدر مشابہت پائی جاتی ہے کہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ ان دو ملکوں کے درمیان ڈی لنکنگ (delinking) پالیسی کے لیے بنیاد پہلے سے ہی موجود ہے۔ اب تو بس ایک منظم انداز میں اس کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندوستان اور پاکستان اپنے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں مل کر کام کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلیم، طبی خدمات، ٹیکنالوجی اور میڈیا کے میدان میں ایک صحت مند اتحاد قائم کرنے کے بہت سارے راستے کھلے ہیں۔پڑوسی ہونے کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان ہمیشہ ایک دوسرے کے دشمن نہیں بنے رہ سکتے بلکہ ان دونوں ملکوں کو ایک ساتھ ترقی کے ایک متوازی شاہراہ پر گامزن ہونے کی خاطر ہرممکن شعبوں میں خوش گوار رشتے بحال کرنے کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔