ابوالکلام انصاری
ہر طالب علم اپنے مستقبل کو لیکر فکر مند ہوتا ہے۔ اسے اس بات کی فکر لاحق ہوتی ہے کہ وہ کس شعبے میں محنت کرے کہ اسکا مستقبل تابناک ہوجائے۔ وہ بھی دوسرے کامیاب لوگوں کی فہرست میں شامل ہوسکے۔ وہ اپنے زمانے کے مختلف شعبوں کے دیگر کامیاب لوگوں کو دیکھ کررشک کرتا ہے اور تذبذب کا بھی شکار ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے لئے کون سا شعبہ کا انتخاب کرے، جس کے ذریعہ وہ خود اپنا، اپنے والدین کا، اپنے کنبے کا اور اپنے ملک کا نام روشن کرسکے اور ایک کامیاب شہری بن کر پر سکون زندگی جی سکے۔ وہ اس معاملے میں اکثر اپنے گھر والوں، رشتے داروں ، استادوں اور دوستو ں سے مشورہ لیا کرتا ہے۔ خاص طور سے یہ فکر مدھیامک، ہائر سکنڈری اور گریجویشن کے طالب علم کو زیادہ لاحق ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ ایسے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے جہاں اسکو اپنے مستقبل کو سنوارنے کے خاطر ایک مناسب و صحیح فیصلہ لیتے ہوئے اپنے لئے مضامین کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔
ایک طالب علم اگر مندرجہ ذیل اصول و ضوابط پر عمل کرے تو اسکے ذہن کے ان تمام سوالات کے جوابات آسانی سے حل ہو سکتے ہیں۔ ایک کامیاب و پر سکون زندگی کے لئے مضامین کے انتخاب میں چند اصولوں کا لحاظ رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔
۱) خود شناشی (Self Analysis) :خود شناشی یعنی خود کو پہچاننا۔ اپنے صلاحیتوں، قابلیتوں، سوچ و فکر، رجحان، احساس و خیالات اور دماغی حالت کو سمجھنے کو خود شناشی (Self Analysis) کہا جاتا ہے۔ دنیا میں ہر انسان الگ الگ صلاحیتوں کا مالک ہے۔ ہر انسان ایک دوسرے سے جدا جدا قابلیت رکھتا ہے۔ جس کو انفرادی فرق یعنی (Individual Difference) بھی کہا جاتا ہے۔ اسلئے طالب علم کو مضامین کے انتخاب میں اپنے صلاحیتوں و قابلیتوں کا خاص خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ کامیابی اپنے صلاحیتوں و قابلیتوں کے مناسبت سے ہی ملتی ہے۔
۲) ذوق وشوق (Desire and Fondness) :جس مضمون میں طالب علم کو ذوق و شوق ہو اور جس کو پڑھنے یا حل کرنے میں اسے مزہ آتا ہو۔ جس مضمون کو حل کرنے میں طالب علم کو ذرہ برابر بھی بوجھ محسوس نہ ہو ، طبیعت پر گراں نہ گزرتا ہو، ایسے ہی مضمون کو اپنے مستقبل کیلئے انتخاب کرنا چاہئے۔
۳) جوش و جذبہ (Passion) :جس مضمون میں طالب علم کو Passion ہو ۔ پورے جذبے اور جوش و خروش کے ساتھ جی لگا کر جن کو حل کرسکے ایسے ہی مضمون کا انتخاب کرنا چاہئے۔
۴) دلچسپی (Interest) :طالب علم کو جس مضمون میں دلچسپی ہو۔ جس کو اپنے پورے رجحان کے ساتھ حل کر سکے اسی کا انتخاب کرنا چاہئے۔
۵) آسانی (Feasibility) :طالب علم جس مضمون کو آسانی کے ساتھ حل کرسکے اسی میں آئندہ چل کر وہ مہارت حاصل کر سکتا ہے اس لئے آسان مضمون کا ہی انتخاب کرنا چاہئے۔ خود شناشی ، ذوق و شوق ، جذبہ، جوش و خروش ، دلچسپی اور آسانی یہی تمام باتیں طالب علم کو مستقبل میں کامیاب بنا سکتی ہے۔ اس بات کا بھی خیال رہے کہ دوسرے مضامین یا میدان کے کامیاب لوگوں کی نقل بالکل نہ کرے۔ ہاں! اپنے پسند کے مضمون یا میدان کے لوگوں کی نقل ضرور کرے تاکہ ان کے زندگی اور طور طریقوں سے استفادہ حاصل کرسکے۔ یعنی اگر آپ کو حساب پسند ہو تو انگریزی کے کامیاب لوگوں کو دیکھ کر نقل نہ کریں اور نہ ہی لالچ یا رشک کریں بلکہ اپنے Field کے لوگوں کے زندگی اور کارناموں کا مطالعہ کریں اور ہم عصر کامیاب لوگوں سے رابطہ بنائے رکھیں اور ان سے استفادہ حاصل کرتے رہیں۔ مضامین کے انتخاب کے بعد چند عملی مشق کے بدولت ایک طالب علم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہوئے ایک کامیاب شہری بن کر پر سکون زندگی جی سکتا ہے وہ عملی مشق مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ اﷲتعالیٰ سے حسن ظن: آپ نے اپنے پسند کے مطابق مضمون کا انتخاب کیا ہے تو اس کے متعلق اﷲ تعالیٰ سے حسن ظن یعنی نیک گمان رکھے کہ اس مضمون یا میدان میں ضرور بالضرور کامیابی نصیب ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان عالی ہے کہ ’’وہ اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہے‘‘۔ یعنی بندہ اگر اﷲ سے نیک گمان رکھتا ہے تو وہ ضرور کامیاب ہوگا اور اسے عزت و خوشی نصیب ہوگی اور اگر بد گمان رکھتا ہے تو وہ ضرور ناکام و نامراد ہو گا اور اسے ذلّت و غم خواری نصیب ہوگی۔ اس لئے اپنے کاموں میں اﷲپر پورا بھروسہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ حسن و ظن یعنی نیک گمان رکھنا چاہئے۔
۲۔ نماز سے مدد حاصل کرنا: قرآن شریف کے ایک آیت کا مفہوم ہے کہ ’’نماز اور صبر کے ذریعہ مدد حاصل کرو‘‘۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ’’اگر کوئی شخص اچھے سے وضو کرتا ہے پھر دو رکعت نماز پڑھتا ہے اور پھر اﷲسے دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے۔ مندرجہ بالا باتیں اﷲو رسول کی باتیں ہیں۔ ان پر مکمل یقین کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ فرض نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل کے ذریعہ اپنے مسائل کو حل کرانے کا مشق ایک مسلمان کیلئے بہت ضروری ہے۔ اﷲنے نماز میں دنیا و آخرت کے تمام مسائل کا حل رکھا ہے۔ ہر ضرورت کو نماز کے ذریعہ حل کرانے کا مشق کرنا چاہئے خواہ وہ ضرورت براہ راست اﷲسے ہو یا کسی انسان سے ۔ اپنے کام میں اﷲتعالیٰ سے براہ راست مدد حاصل کرنے کا نماز سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ ہمارے اسلاف کے زندگیوں کے بہت سارے واقعات موجود ہیں کہ وہ اپنے ضرور یات و مسائل کو نماز کے ذریعہ حل کرایا کرتے تھے۔ الجبرا کے موجد الخوازمی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جس کوئی حساب حل نہیں کر پاتا تو نماز ادا کرتا پھر حل تلاش کر لیتا۔
۳۔ مثبت فکر:اپنے ذہن میں ہمیشہ مثبت فکر (Positive Thinking) رکھنی چاہئے۔ کبھی بھی کامیابی کے معاملے میں یا کسی اور معاملے میں ’نا‘ ، ’نہیں‘ اور ’شک‘ جیسے الفاظ ذہن میں نہیں آنے دینا چاہئے۔ بلکہ ہر معاملے میں ’ہاں‘ اور پورے یقین کے ساتھ پر امید رہنا چاہئے کہ ضرور بالضرور ہم کامیاب ہونگے۔ مثبت فکر ایسی ہونی چاہئے کہ پورے بھیڑ میں اگر ایک آدمی ہی کامیاب ہوگا تو وہ ایک آدمی ’میں‘ ہوں۔
۴۔جدوجہد :جدوجہد یعنی کوشش ہمیشہ کرتے رہنا چاہئے۔ کیونکہ کوشش کرنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ جو کوشش نہیں کرتے ان سے کامیابی کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔ کوشش کرنے والوں کے ساتھ اﷲکی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ جو کامیابی کے لئے کافی ہے۔ آپ نے اکثر یہ سنا ہوگا کہ ’’کوشش کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی‘‘۔
۵۔مشق:انگریزی کا ایک جملہ کافی مشہور ہے کہ “Practice makes a man perfect” ۔ یعنی مشق ایک آدمی کو مکمل بنا دیتا ہے۔ آپ اپنے مضامین پر جتنا زیادہ مشق (Practice) کرینگے اتنی ہی زیادہ مہارت آپ کو حاصل ہوگی اور آپ کے علم میں کمال پیدا ہوگا۔ علم میں پختگی آتی چلی جائے گی ۔ اپنے ادھورے پن کو دور کرنے کا آسان طریقہ مشق ہے۔ چاہے آپ جس کسی بھی شعبے سے جڑے ہو آپ کو مشق کرنا شرط ہے کامیابی کے لئے۔
۶۔خود اعتمادی:اپنے آپ پر مکمل بھروسہ رکھنے کا نام خود اعتمادی ہے۔ آپ نے اپنے پسند کے مطابق جس مضمون کا انتخاب کیا ہے اس میں کامیاب ہونے کا آپ کو مکمل بھروسہ اپنے اوپر ہونا چاہئے۔ ذرّہ برابر بھی ذہن میں خود اعتمادی میں کمی نہ آنے پائے۔ اپنے اوپر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے، کامیابی کے امید میں پرزور کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ اس اعتماد میں کبھی کمی یا گروٹ نہیں آنے دینا چاہئے۔
۷۔ احساس کمتری؍ منفی سو چ سے پرہیز:۔ ’’مجھ سے ہوگا کہ نہیں‘‘۔ ’’میں کر پاؤنا یا نہیں‘‘۔ ’’پتہ نہیں مجھے کامیابی نصیب ہوگی کہ نہیں‘‘۔ ’’میں یہ نہیں کر پاؤنگا‘‘۔ ’’میرے بس کی بات نہیں ہے‘‘۔ ’’میرے لئے نا ممکن ہے‘‘۔ میرے لئے حالات سازگار نہیں ہے‘‘۔ مندرجہ بالا ان تمام خیالات کو اپنے دل و دماغ سے نکال باہر کرنا ہوگا پھر کامیابی آپ کی قدم ضرور چومے گی۔
۸۔مستقل مزاجی: اپنے مزاج میں استقامت پیدا کرنے کا نام مستقل مزاجی ہے۔ پورے استقامت کے ساتھ اپنے مضامین پر محنت کرتے جانا ہوگا۔ تسلسل کے ساتھ، بلا ناغہ ، یکسو ہو کر ، بغیر ذہن کو متزلزل اور تذبذب کا شکار کئے اپنے مشن پر گامزن رہنا ہوگا۔ اپنے دل و دماغ میں ایک نعرہ ہمیشہ کیلئے ثبت کر لینا ہوگا کہ ’’ہم ہونگے کامیاب ایک دن‘‘۔ اس ضمن میں ڈاکٹر اے ۔پی۔ جے عبدالکلام کا ایک مقولہ ہمیشہ ذہن نشین کر لینا ہوگا کہ “To succeed in your mission, you have to single minded devotion to your goal” ۔
۹۔اپنے مضمون ؍ شعبے کے کامیاب لوگوں کی صحبت:۔ اپنے شعبے ؍ مضمون سے جڑے لوگوں کے کارناموں کا مطالعہ ضروری ہے۔ اپنے ہم عصر کامیاب لوگوں کے ساتھ بہتر تعلقات و روابط ضروری ہے۔ تکبر سے پرہیز کرتے ہوئے اپنے سے بڑوں کا احترام کرتے ہوئے ان سے سیکھنے کی نیت رکھنی ہوگی۔ ان کے صحبت میں رہنا ہوگا۔ ان سے اپنی اصلاح کروانے ہونگے۔ ساتھ ہی ساتھ نا کام لوگوں کی صحبت سے کلی طور پر پرہیز کرنا ہوگا۔ کیونکہ ایسے لوگوں کے اختلاط سے آپ کے ذہن بھی متزلزل ہو جائنگے پھر آپ راہ راست سے ہٹ کر گمراہی اور نا کامی کے طرف جا سکتے ہے۔ اسلئے کامیاب لوگوں کی صحبت جتنی ضروری ہے اتنی ہی ضروری ناکام لوگوں کے صحبت سے پرہیز ہے۔
۱۰۔ اپنے اندر مہارت پیدا کرنا:۔ اپنے اندر مہارت پیدا کرنا یعنی Mastery or command over the subject matter – جس شعبے یا مضمون کا انتخاب آپ اپنے پسند کے مطابق کئے ہے اس میں مستقل مزاجی کے ساتھ کو شش، مشق اور محنت کر کے مہارت پیدا کیجئے۔ اپنے علم میں کمال پیدا کرنے کی ہر وقت کوشش کیجئے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص اپنے علم میں کمال یا مہارت رکھتا ہو اور کامیاب نہ ہو۔ یہ نا ممکن بات ہے کہ علم میں مہارت کے باوجود کامیابی نہ ملے۔ حضرت سلیمان ؑ کے ایک واقعہ سے بھی یہاں سبق لینے کی ضرورت ہے کہ : ایک دفعہ اﷲنے سلیمانؑ کے پاس آزمائش کے طور پر تین فرشتوں کو بھیجا۔ اس میں سے ایک نے سلیمان ؑ سے کہا کہ میں دولت ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ میں عزت ہوں۔ تیسرے نے کہا کہ میں علم ہوں۔ آپ ہم تینوں میں صرف ایک کو اپنے لئے انتخاب کر سکتے ہیں۔ سلیمانؑ اپنے فراست کے بنیاد پر علم کا نتخاب فرمایا۔ جیسے ہی انہو ں نے علم کا انتخاب کیا دولت اور عزت والے فرشتے بھی گھر میں داخل ہونے لگے۔ سلیمانؑ نے جب تحقیق فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ اگر آپ دولت یا عزت میں سے کسی ایک کا انتخاب فرماتے تو صرف ایک چیز ہی آپ کو نصیب ہوتی لیکن چونکہ آپ نے علم کا انتخاب فرمایا ہے تو اسلئے دولت اور عزت بھی وہی ہوتی ہے جہاں علم ہوتا ہے۔
۱۱۔دوسروں کی مدد کرنا: اپنے مضمون یا شعبے سے جڑے لوگوں کی مدد کرتے رہنا چاہئے۔ اس طرح Teaching Learning Process کے ذریعہ آدمی کامیابی کے طرف گامزن رہتا ہے۔ آپ دوسروں کی مدد کریں اور ناکام ہو جائیں یہ ہو نہیں سکتا ہے۔ کیونکہ یہ بات اﷲکے سنت کے خلاف ہے۔ جو اﷲکے دیگر مخلوق کو فائدہ پہنچائے گا اﷲاسکو فائدہ پہنچائے گا۔ جو دوسروں کی مدد کریگا اﷲاسکی مدد کریگا۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ’’تم کسی ایک کی ضرورت کو پورا کروگے اﷲتمہاری ستّر ضرورتوں کو پورا کریگا‘‘۔ ایک دوسری جگہ ارشادہے ۔ ’’تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا‘‘۔ ایک جگہ ارشاد ہے کہ ’’صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا ہے بلکہ بڑھتا ہے‘‘۔ جب کوئی شخص کسی دوسرے کو آسانیاں تقسیم کر رہا ہوتا ہے اﷲاس کے مشکلات کو آسان کر دیتا ہے۔ اگر آپ کسی کو کوئی بھی چیز تقسیم کرنے والوں ہوتو اﷲآپ کے اس نعمت کو مزدید بڑھاتا ہے۔ جب تک ان نعمتوں سے اﷲکے مخلوق فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں تب تک ان نعمتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور جس دن سے مخلوق فائدہ اٹھانے سے محروم ہو جاتے ہیں بندہ کو اس مخصوص نعمت سے اﷲمحروم کر دیتا ہے۔ علم اﷲکے طرف سے ہم بندوں پر سب سے عظیم نعمت ہے۔ جب تک ہمارے علم سے دوسرے لوگ فائدہ حاصل کرتے رہینگے۔ جب تک ہم کسی کو علم سکھاتے رہینگے۔ جب تک ہم علم کی اشاعت کرتے رہینگے تب تک اﷲہمارے علم میں اضافہ کرتا رہے گا اور ہمیں اس کے ماہرین میں شمار کردیگا۔ اس لئے کامیاب شخصیت کا حامل بننے کے لئے دو سروں کی مدد بھی نہایت ضروری ہے۔
مندرجہ بالا اصول و ضوابط کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے لئے مضامین یا شعبے کا انتخاب کر نے اور عملی مشق کا اہتمام کرنے سے کامیابی ایک دن ضرور قدم چومے گی۔ اسکول و کالج اور یونیورسیٹی لیول کے امتحانات ہو یا کسی مقابلہ ذاتی امتحانات Competitive Exams کا سامنا ہو یا کسی دیگر شعبے کو اپنے پیشے (Profession) کے طور پر اختیار کرنا ہو۔ ہر زندگی کے اہم فیصلے اور مستقبل کو سنوارنے میں یہی اصول و ضوابط اور عملی مشق کار گر ثابت ہونگے اور آپکو کامیاب بنانے اور بہتر شہری بن کر پر سکون زندگی گزارنے میں معاون و مدد گار ثابت ہونگے۔ انشاء اﷲ!
[email protected]>