سبزار احمد بٹ
استاد کسی بھی ملک و قوم کا معمار مانا جاتا ہے ۔ دنیا کے تمام مذاہب استاد کی عزت پر زور دیتے ہیں کیونکہ قوموں کا بننا اور بگڑنا اساتذہ کے ہاتھوں میں ہی ہوتا ہے۔ جو لوگ اساتذہ کو کمتر سمجھتے ہوں ،ان کی بار بار تذلیل کرتے ہوں، اس قوم کو رسوائی اور ذلت سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے بلکہ اساتذہ کی عزت کرنے اور نہ کرنے سے ہی کسی بھی قوم کی ذہنی صحت مندی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر کچھ لوگ یہ خبر بڑے زور وشور سے چلا رہے ہیں کہ جموں وکشمیر کے رہبرِ تعلیم اساتذہ محکمہء تعلیم کے لئے خطرہ ہیں اور سرکار کے vision document 2047 کا حوالہ دے رہے ہیں ۔ لیکن شائدوہ خود یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ رہبرِ تعلیم اساتذہ باضابطہ ایک سسٹم کے تحت تعینات کئے گئے ہیں۔ گاؤں میں جو میرٹ میں آتا تھا، اُسے تعینات کیا جاتا تھا۔ اس وقت سینکڑوں لڑکے مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے ۔ جنہوں نے اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کیا اور بطور رہبر تعلیم تعینات ہوئے ۔یا دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنا مستقبل داؤ پر لگایا اور اپنے والدین کے ارمانوں کا گلہ گھونٹا اور اس محکمہ میںمیرٹ ( merit) کی بنیاد پر تعینات ہوئے ۔ رہبر تعلیم اساتذہ نے پانچ سال پندرہ سو روپے کی قلیل اجرت پر کام کیا ہے ۔ پھر ایک سسٹم کے تحت رہبرِ تعلیم اساتذہ کو پہلے مستقل کر کے ریگیولراذڑ رہبر تعلیم( RRT) کے زمرے میں لایا گیا اور پھر ٹیچر گریڑ سیکنڈ اور ٹیچر گریڑ تھرڈ کے دائرے میں لایا گیا۔ مستقلی کے حکمنامے پر باضابطہ طور پر سرکار نے یہ لکھ دیا کہ یہ رہبر تعلیم اب جنرل لائن ٹیچرس کے مساوی ہونگے یعنی اب رہبر تعلیم اساتذہ اور جنرل لائین اساتذہ میں کوئی تفرق نہیں ہوگا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دو اساتذہ نے اگر ایک ہی یونیورسٹی سے ایک ہی ٹائم پر ایم۔ اے ،بی۔ ایڈ کی ڈگری حاصل کی ہے ،ایک کا تقرر اگر بطور جنزل لائن استاد ہوا ہے اور دوسرے کو رہبِرِ تعلیم کے تحت تعیناتی کیا گیا ہے۔ آج دس یا پندرہ سال بعد یہ فیصلہ کیسے جائز قرار دیا جاسکتا ہے کہ جنرل لائن زمرے کے تحت آنے والا استاد باصلاحیت ہے اور رہبرِ تعلیم زمرے کے تحت آنے والا باصلاحیت اور ٹرینڈ نہیں ہے بلکہ محکمہ تعلیم کے لئے خطرہ ہے۔ آخر یہ کون سی نئی کسوٹی ہے جس پر رہبر تعلیم اساتذہ کو پرکھا جارہا ہے۔ کون سا ایسا محاذ ہے یا کون سے ایسے فرائض ہیں جو رہبرِ تعلیم اساتذہ نے بخوبی انجام نہیں دیئے ۔ رہبر تعلیم کے آنے سے پہلے کیا جموں وکشمیر کے دور دراز علاقوں میں اسکولوں میں تالے نہیں لگے ہوئے تھے، جنہیں رہبر تعلیم اساتذہ نے فقط پندرہ سو کی اُجرت پر کام کر کے کھولا۔کیا ہزاروں بچے سڑکوں پر آوارہ نہیں گھومتے تھے؟تار کے بنے ہوئے دائرے سڑکوں پر نہیں چلاتے تھے؟ پانچ روپے کے عوض مزدوری پر نہیں جاتے تھے؟ اور تو اور دن بھر گلی ڈنڈا کھیلنا ان کا معمول نہیں بن چکا تھا۔ لیکن رہبرِ تعلیم نے گھر گھر جاکر ان بچوں کی نشاندہی کر کے انہیں اسکول کا راستہ دکھایا، ان کے ہاتھوں سے ڈنڈا چھین کر انہیں قلم اور کاپی ہاتھ میں دی۔ گاؤں گاؤں تعلیم کا چلن عام ہوا اور سرکار کا جو سب کی تعلیم کا خواب تھا وہ پورا ہونے لگا۔ جہاں پہاڑوں میں کوئی ڈیوٹی دینے کے لئے تیار نہیں تھا وہاں پر رہبرِ تعلیم نے پیدل جا کر اپنے فرائض انجام دیئے ۔ کیا رہبر تعلیم کے آنے سے literary rate میں اضافہ نہیں ہوا ہے ۔ کیا الیکشن میں رہبر تعلیم نے کام نہیں کیا ؟ کیا ( covid 19) کووڈ 19 میں رہبر تعلیم نے ہتھیلی پر جان رکھ کر اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی ۔کیا رہبر تعلیم نے sensus کے دوران اپنے فرائض انجام نہیں دئیے ۔آج بھی رہبر تعلیم اساتذہ ہائی اسکولوں اور ہائر سکینڈری اسکولوں میں مختلف مضامین پڑھا رہے ہیں اور ہر سال ڈپلائمنٹ کے نام پر ان اساتذہ کی خدمات لی جاتی ہیں ۔ اسی استاد کو نا اہل قرار دیا جاتا ہے اور اسی استاد سے ہائی اسکول اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں خدمات لی جارہی ہیں ۔ یہ دہرا معیار نہیں تو اور کیا ہے۔ کیا اس زمرے میں آنے والے اساتذہ کی ایک اچھی تعداد پی ایچ ڈی نہیں کی ہوئی ہے ؟ کیا اس زمرے کے اساتذہ نے ریاستی اور قومی سطح کے انعامات حاصل نہیں کئے ہیں ؟ ان تمام تر سوالات کا جواب مثبت میں ملے گا۔ ان اساتذہ کی محنت اور لگن سے پچھلے کئی سالوں سے انرولمنٹ ڈرائو کے تحت لاکھوں بچوں کا اندراج سرکاری اسکولوں میں ہوا ہے اور اس دوران سینکڑوںں اساتذہ ٹرنڈ سینٹرز ( trend setters) بھی بنے، جنہوں نے اپنے بچوں کا داخلی اپنے ہی سرکاری اسکولوں میں کیا ۔ سرکار نے وقتاً فوقتاً رہبرِ تعلیم اساتذہ کی خدمت اور کارکردگی کا اعتراف بھی کیا ہے اور رہبرِ تعلیم اساتذہ کے کام کو سراہا بھی ۔ لیکن بدقسمتی سے کئی بار انتظامیہ کی جانب سے تنگ بھی کیا گیااور اساتذہ کی تذلیل بھی کی گئی۔ کبھی ان اساتذہ کو امتحان کی بیٹھنے کے لیے کہا گیا تو کئی بار ان اساتذہ کے اسناد کی جانچ بھی کی گئی ہے اور ان اساتذہ کی اسناد کو درست پایا گیا۔ وقتاً فوقتاً اس طبقے کے اساتذہ نے احتجاج کا راستہ بھی اپنا یااور سرکار کو اپنی مانگیں منوانے پر آمادہ بھی کیا کیونکہ یہ طبقہ حق پر تھا اور حق کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے ۔ ان تمام حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ رہبرِ تعلیم اساتذہ محکمہ تعلیم کی آن، بان اور شان ہیں نہ کہ خطرہ ۔
میں اساتذہ کے تمام تر زعماء حضرات سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کو یک طرف چھوڑ کر ایک ہوجائیں تاکہ انتطامیہ تک اپنی بات پہنچانے میں مدد ملے اور آئندہ اس طرح کی باتوں کو نہ دہرایا جائے ۔ہم سب کو اپنی بنائی ہے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے بازآنا چاہئے۔ باقی ہم ایک جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں جہاں باضابطہ ایک عدالتی نظام قائم ہے، جس پر ہمیں ناز اور بھر پور بھروسہ بھی ہے۔ ضرورت پڑنے پر عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جاسکتا ہے۔ لیکن بہتر ہے کہ ان حقائق کا انتظامی سطح پر ہی جائزہ لیا جائے ۔ہاں مگر ان اساتذہ کو بار بار تنگ کرنے سے انہیں ذہنی کوفت ہوتی ہے اور اس سے ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اس عمل سے نہ صرف 65000 رہبرِ تعلیم متاثر ہوتے ہیں بلکہ 65000 خاندانوں کی بھی ذہنی کوفت ہوتی ہے کیونکہ ان 65000 خاندانوں کا تعلق براہ راست اس اساتذہ اور ان کے روزگار سے ہے۔ اس حقیقت سے انتظامیہ بے خبر تو نہیں ہوسکتی ہے کہ 95 فی صد رہبر تعلیم اساتذہ ٹرینڈ یعنی بی ایڈ ہیں اور (5) پانچ فی صد کو سرکار IGNOU کے تحت بی ایڈ کرا رہی ہے۔رہبر تعلیم کے چند زعماء نے ارباب اقتدار سے پُر زور گزارش کی ہے کہ رہبر تعلیم اساتذہ کی تعلیمی کارکردگی کو مشتہر کیا جائے تاکہ یہ بات صاف ہو کہ اس زمرے کے تحت آنے والے کتنے اساتذہ ایم ۔ اے ،۔بی ایڈ کئے ہوئے ہیں اور کتنے کم پڑھے لکھے ہیں۔ گورنر انتظامیہ پر ہمیں پورا اعتماد ہے کہ وہ چیزوں کو دوبارہ دیکھیں گے اور vision document 2047 میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کا از سر نو جائزہ لے کر پھر سے مرتب کیا جائے گا۔
[email protected]