جس قسم کے حالات سے اس وقت ہندستانی مسلمان گذر رہے ہیں اس کے تناظر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ایک فیصلہ کن مرحلہ آچکا ہے، جہاں ہندوستانی مسلمان یقینا دو گروہ میں تقسیم ہوں گے۔ ایک گروہ تو ان لوگوں پر مشتمل ہوگا جو معصیت کی خاردار گھاٹیوں سے نکل کر نیکیوں کے گلشن بہار میں داخل ہونے کا ازسرنو عہد کرے گا،اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر عمل پیرا ہوگا۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہوگا جو حب جاہ، حب مال اور عہدے اور منصب کی خاطر اپنے ایمان کا سودا کرے گا۔ شریعت کو ان ادنیٰ مقاصد کے حصول کے خاطر بیچ دے گا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہم کو منافقوں کی صف میں شامل ہونے سے پوری طرح محفوظ فرمائے۔ (آمین)
مسلم پرسنل لاء کو لے کر امت مسلمہ کا جو احتجاج اور دفاعی مزاج بناہوا ہے اسے قابل تعریف ضرور کہا جاسکتا ہے لیکن صرف دفاعی یا احتجاجی مزاج کا بننا ، مختلف جلسوں میں شرکت کرنا، علماء کے بیانات کی سماعت کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ شریعت پر مکمل طور پر عمل کرنا بھی بہت ضروری ہے۔اس وقت امت مسلمہ یقینا بہت بڑی سازشوں کا شکار ہے۔ نت نئے طریقوں سے امت پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور امت اس کا بڑی پامردی سے صبر اور استقامت سے مقابلہ بھی کررہی ہے۔ اس کے باوجو د بھی ملت اسلامیہ کا ایک بڑا گروہ شریعت اسلامی پر ایمان ہونے کے باوجود اس پر عملاً چلنے میں کوتاہی برت رہاہے ۔ یہ ایک بڑی عجیب و غریب صورت حال ہے کہ حالات تو اس بات کا تقاضاکررہے ہیں کہ اللہ سے اپنا رابطہ مزید مستحکم کیا جائے۔ افسوس یہ کہ امت کا ایک بڑا طبقہ اللہ کی رسی کو چھوڑ چکا ہے۔ مجھ ناچیز کے ذہن میں بھی سوالات کا ایک سمندر موجزن ہے کہ کیا امت کے اخلاقی بگاڑ کے لئے بھی کوئی سازش رچی جارہی ہے؟ جہیز کے نام پر ، گھوڑے جوڑے کے نام پر، بے جا رسم و رواج کے نام پر، لڑکی والوں سے مطالبات کی شکل میں لمبی چوڑی فہرستیں لڑکے والوں کی جانب سے پیش کرنا ، کیا یہ بھی باطل کی سازش ہے؟مسلمانوں کا موذن کی پکار پر لبیک نہ کہنا کیا یہ بھی سنگھ پریوار کی کوئی سازش ہے؟ مسلم نوجوانوں کا وہاٹس ایپ، فیس بک پر گھنٹوں وقت کی بربادی کرنا کیا یہ بھی آر ایس ایس کی سازش کا نتیجہ ہے؟ سوال یہ ہے اور ملین ڈالر کا سوال ہے کہ وہ کونسی حکومت ہے جو آپ کو نمازوں سے روک رہی ہے۔؟وہ کونسا ہندوستانی قانون ہے جو آپ کو قرآن کی تلاوت سے روکتا ہے؟ وہ کون ہے جو آپ کو تجارتی معاملات میں جھوٹ بولنے پر آمادہ کرتا ہے؟ کیا یہ بھی اغیار کی سازش ہے کہ جو آپ اپنی زکوٰۃ کو روک لیتے ہیں؟ یہ کس نے سازش کی ہے کہ جس کے شکار ہوکر آپ اپنی شریک حیات کو غیر شرعی طریقے پر طلاق دیتے ہیں؟ یہ اور اسی نوعیت کے دیگر پچاسوں سوال ہیں جن کا احاطہ کرنا مشکل ترین امر ہے۔ تاہم ان سب کا واحد جواب یہی ہے کہ ان میں ہماری کوتاہیوںکو، غلطیوں کو بڑا دخل ہے۔
اے امت رسول عربی صلعم! ہم کو چاہئے کہ ہم اپنی زندگیوں کو محاسبہ کریں۔ غور کریں کہ ہم خود کتنا قانون شریعت پر عمل کرتے ہیں؟ کتنے ایسے رسم و رواج ہیں جن کو ہم شریعت پر ترجیح دیتے ہیں؟ ہماری نکاح کی محفلوں میں شریعت کا کتنا پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے؟ لڑکی والوں سے مختلف مطالبات کئے جاتے ہیں۔ مختلف اقسام کے پکوان کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ کیا ریڈ چکن، کیا گرین چکن، کیا ہریس، کیا دوچار قسم کے میٹھے ایک ہی دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے کیا یہی سکھایا ہے ( نعوذباللہ ) ہمیں شریعت اسلامی نے؟ کیا یہی ہیں ( العیاذ باللہ) اسلامی تعلیمات؟ کیا مساجد صرف جمعہ کی نماز کے لئے تعمیر کی گئی ہے؟ کیا رمضان المبارک کا ماہ مقدس صرف کھانے، کھلانے اور سونے کے لئے رہ گیا ہے؟ ستم تو اس بات کا ہے کہ ہم نے خود ہی شریعت کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ سنتوں کے جنازے ہمارے ہی گھروں سے نکلے ہیں۔ جب ہم خود شریعت اسلامی پر عمل پیرا نہیں، ہمارے اعمال گواہی دیتے ہیں کہ ہم شریعت اسلامی کی کس قدر ناقدری کررہے ہیں ؟ تو پھر دوسروں سے یہ توقع کس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ شریعت کا احترام کریں گے۔ آیئے اپنے گریباں میں جھانکیں۔ آپ بھی جھانکیں، میں بھی جھانکوں۔ میں اور آپ اپنے خود ہی محتسب بن جائیںاور دیانت دارانہ احتساب کر یںاور دیکھیںکہ کتنے احکام خداوندی ہیں؟ کتنے گوشے ہیں قانون شریعت کے جن پر ہم عمل کررہے ہیں؟ کیا ہم نے خود بھی اسلام کی بنیادی تعلیمات حاصل کی ہے؟ کیا ہم نے اپنی اولاد کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا ہے؟ ذرا غور کیجئے اگر ہم نے اپنے اولاد کی دینی تربیت کی ہوتی، ان کی اسلامی نہج میں تربیت کی ہوتی، ان کو شریعت اسلامی کے رموز سکھائے ہوتے تو آج شب برأت کے موقع پر ، دیوالی کی طرح مسلم بستیوں سے پٹاخوں کی آواز نہ گونجتی۔ ہمارے گھروں سے رقص و موسیقی کی اور جمعہ کے دن قوالیوں کی آوازیں نہیں سنائی دیتیں۔ اس کے برعکس ہمارے گھروں سے تلاوت قرآن مجید کی آوازیں بلند ہوتیں ع
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
لیکن یہ حقیقت ایسی ہے کہ اسے قبول کیا جائے یا نہ کیا جائے، اس میں کوئی تغیر برپا نہیں ہوتاکیونکہ حقائق بلاشبہ تلخ ہوتے ہیں، لیکن شاعر مشرق کہیں فرماتے ہیں ؎
چمن میں تلخ نوائی میں مری گوارہ کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی
ہم حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں، شکایت کررہے ہیں، حکومت کو انتباہ دے رہے ہیں، اور یہ سلسلہ جاری رہے گا کہ وہ شریعت میں مداخلت نہ کرے۔ بہت ٹھیک کر رہے ہیں ، یہ ہمارا جمہوری حق ہے ۔ ہماری شریعت ہی ہمارا ایمان ہے۔ ہم اس میں رائی برابر بھی تبدیلی گوارہ نہیں کرسکتے، برداشت نہیں کرسکتے، جب ہم حکومت سے ابنائے وطن سے اس طرح کی شکایت کرسکتے ہیں جو نہ شریعت کو مانتے ہیں نہ اس کی حکمتوں کو سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ نہ انہوں نے اسلام کا کلمہ پڑھا ہے نہ انہوں نے اسلام کی حقانیت کو جانا ہے ، تو پھر اے امت مسلمہ ہم اپنے آپ سے شکایت کیوں نہیں کرسکتے؟
مولانا علی میاں ندوی ؒ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’ہم حکومت سے کہیں گے ایک بار، دو بار، تین بار، لیکن ہم آپ سے کہیں گے دس بار، سو بار، اور ہزا ربار۔ ‘‘ کیونکہ آپ اور ہم نے ایک ہی کلمہ پڑھا ہے۔ اس کی نسبت پر ہمارا حق ہے کہ ہم آپ سے مطالبہ کریں کہ شریعت پر عمل آوری کی جائے۔ ہم کو حق ہے کہ آپ کا گریبان پکڑ لیں اور جس ہاتھ سے ہم آپ کا گریبان پکڑیں گے وہ شریعت کا ہاتھ ہوگا۔ وہ دینی احتساب کا ہاتھ ہوگااور وہ ہاتھ کہے گا کہ پہلے تم اپنے گریباں میں منہ ڈال کر دیکھو کہ تم اس قانون شریعت پر اس عائلی قوانین پر کتنا عمل کررہے ہوں؟
قارئین والاعتبار! جن گھمبیر حالات سے ہم نبرد آزما ہیں یہ ہماری بے عملی اور دشمن کی کر توتوں دونوں کا مشترکہ نتیجہ ہے،ا لبتہ جب بھی ہم پر مصیبت آتی ہے تو اس کو اپنے اعمال بد کا نتیجہ سمجھنا چاہئے۔ اللہ رب العزت اپنے کلام پاک میں خود ارشاد فرمارہے ہیں جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :تم پر جو مصیبت آتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی لائی ہوئی ہوتی ہے، وہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے ( یہ بھی ایسی حالت میں) کہ اللہ بہت عفو و درگزر سے کام لیتا ہے۔ (سورہ الشوریٰ)
زندگی کے ہر شعبہ میں ہم شریعت سے روٗگردانی کررہے ہیں۔ اگر ہم خود اس قانون شریعت کو اپنی زندگی میں اپنے گھروں میں، روزمرہ کے معمولات میں نافذ کریں گے تو پھر کسی کی مجال نہیں کہ قانون شریعت پر حرف گیری کرے بلکہ ساری دنیا سرافگندہ ہوجائے گی۔ آیئے حضرات آج ہم عہد کریں کہ ہم ہر حال میں شریعت پر عمل کریں گے ۔ رسم و رواج کو چھوڑ کر اسوۂ حسنہ پر عمل کریں گے۔ سنت رسول اللہ ؐسے اپنی زندگیوں کوآراستہ وپیراستہ کریں گے۔ تقویٰ اختیار کریں گے کیونکہ تقویٰ موثر ترین اور حقیقی طاقت ہے۔ اسی کی بنیاد پر 313 نے بے سروسامانوں نے میدان ِ بدر میں ہزاروں پر فتح حاصل کی تھی۔ خیبر کی بنیادیں اکھاڑنے کا سبب یہی تقویٰ بنا تھا۔ قیصر و کسریٰ کے تاج اسی کی بدولت ٹھوکروں میں آئے تھے۔ دشمن سے زیادہ اللہ کی نافرمانی سے ڈریں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شریعت پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ (آمین)
Cell:9021841767