سن 1925ء میں جب مہاراجہ ہری سنگھ تخت نشین ہوئے تب سے اب تک بیانو ے برس بیت چکے ہیں اور اُن سے پہلے اُن کے اَنکل مہاراجہ پرتاپ ؔ سنگھ بھی تقریباً چالیس برس تک تاجدار ریاست رہے۔ اُن دونوں راجائوں نے گائے، بھینس پالنے اور دودھ کا کاروبار کرنے والے لوگوں یعنی گوجر برادری کو شہر سے باہر مضافات میں زمینیں تفویض کی تھیں تاکہ جموں شہر اور شہر کے علاوہ دیگر قصبوں جیسے آر ایس پورہؔ، بشناہؔ، رام گڑھؔ، سانبہؔ ، ہیراؔ نگر، کٹھوعہؔ، اکھنورؔ وغیرہ کوتازہ دودھ، پنیر، گھی ، کھویا، مٹھا مسکا کی فراہمی جاری رہے اور مل میل، مکھی مچھر اور گوبر کی بدبو سے بھی یہ شہر اور قصبہ جات پاک وصاف اور محفوظ رہ سکیں۔ حالانکہ بعد ازاں سن سنتالیس میں اُن پر تگڑی مار پڑی اور مہاراجہ ہری سنگھؔ کی والدہ نے خود مبارک منڈی کے محل سے دودھ لے کر توی دریا پار کرتے ہوئے گوجروں کا قتل عام دیکھ کر مہاراجہ کے ساتھ قطع تعلق کر لیا تھا ،جو اُس کے مرنے تک برابر برقرار رہا مگر اُس کے باوجود بھی شیر فروشوں کا احیائے نو ہوا کیونکہ دنیا کا یہی دستور ہے: بن کر مٹانا اور مٹ کر بننا۔ اور پھر جب کرائے کے دہشت گرد فسادیوں اور قاتلوں جن میں زیادہ تر ہریانہ اور پنجاب کے خون خوار تھے، کی خون آشام تلواروں کی پیاس بجھ گئی اور کونوں کھدروں ، گلی کوچوں، کوٹھوں مکانوں، کوہ و دمن، کنوئوں کی منڈیروں، تالابوں کے کناروں اور توی کے پتنوں سے اُبھرتی ہوئی کراہیں، تڑپتی آہ و زاریاں، سسکتے نالے اور دلوں میں چھید کرنے والی مظلوموں کی چیخیں تھم گئیں تو خود فراموش انسان کے شب وروز پھر سے جاگ پڑے، بیزے روشن ہوئے، انگنائیوں کی باڑھیں چڑھیں اور بنسریاں پھر سے تانیں بکھرنے لگیں، پھر گہما گہمی شروع ہوگئی، گر چہ ناسور ستھر سال بیت جانے کے بعد بھی رِس رہے ہیں۔ گھائو ہرے ہیں۔زخموں پر کوئی مرہم اثر نہیں کرسکا ہے کیوںکہ اغیار کی ’’زنبیل میں نسخۂ کمیائے محبت‘‘ اور’’ علاج و مداوائے الفت‘‘ہی نہ تھا۔
صورت حال تادیر ایک جیسی نہیں رہتی۔ ہندوستان کے ہندوؔ نے گاندھیؔ جی کی بے لوث خدمت، جنگ آزادی کیلئے جہد وجہد اور اُن کی سادہ سی راہبانہ زندگی کے اعتراف میں اُن کو ’’مہاتما ‘‘کا لقب دیا جو بلا مبالغہ اور کسی شک و تردد کے بغیر اُن پر پھبتا تھا اور اُن کو سیوٹ(suit) کرتا تھا مگر اُسی مہاتما کو جنوری1948ء میں ایک فرقہ پرست ظالم نے قتل کر دیا اور پنڈت نہرو نے فوراً ریڈیو پر یہ اعلان کیا کہ مہاتما کو ناتھورام گوڈ سے نامی ایک ہندو نے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ پنڈت نہروؔ نے جان بوجھ کر ہندو کہا مبادا کہ ملک میں جو آگ لگتی تھی اُس میں اور ایندھن پڑ کر بچے کھچے مسلمانوں کا مزید قتل عام نہ ہو اور اُسی’’ مہاتما‘‘ کے مارنے والے قاتل کو گر چہ پھانسی پر لٹکایا گیا تھا مگر بلا امتیاز مذہب و ملت ہر ایک ذی شعور فرد کی زبان سے قاتل کیلئے نفرت و حقارت کے کلمات ہی نکلتے تھے ، مگر آج صورت حال یہ ہے کہ توگڑیا اور موہن بھاگوت جیسے اشخاص کی حاکمیت(superamacy)والی ہندو توا حکومت میں گوڈسے کو ہیرو قرار دیا جارہا ہے اور ہر جگہ ہر ریاست میں اُس کا پس از مرگ آگمن ہو رہاہے ۔ وہ بھی اسی لئے کہ اُس لعین نے ایک ایسے سادھو پُرش کی ہتھیا کر دی تھی جو پارٹیشن کے برخلاف ایکتا کا علم بردار اور مسلمانوں کیلئے نرم گوشہ( Soft Corner) اپنے دل میں رکھتا تھا ۔
موجودہ وقتوںمیں اُسی طرح کی رجعت پسندی کی پاداش میں جب بے گھر، بے گھاٹ(Uprooted) بے یارومددگار کئے ہوئے چند اشخاص سائل وفریادی بن کر بڑی توقعات کے ساتھ وقت کے اَن داتا اور موجودہ مخلوط حکومت کے ایک منسٹر کے پاس فریادی بن کر گئے تو انہوں نے اُن فریادیوں کو دھکے دے کر باہر نکلوایا کہ اُن کی امیدوں اور توقعات کے گلستان پر اوس پڑی اور اوپر سے یہ تنبہہ بھی سنادی کہ سن سنتالیس بھولنامت یعنی اگر حقوق کی بات کی، کوئی مطالبہ کیا تو وہ نومبر ۷ ۴ء کانڈ پھر سے دہرایا جاسکتا ہے۔ ریاست کے کشمیر صوبے میں جو کچھ کیا جار ہا ہے وہ تو اظہر من الشمس ہے مگر جو کچھ جموں میں کیا جا رہا ہے وہ ضرور سن سنتالیس کے کانڈ کو دہرانے کا ایک پیش خیمہ ہے اور بلا شبہ ایک ریہر سل ہے۔
ہماری ریاست کے لوگ کتنے سنگ دل ہیں! کیا آ پ کی آنکھیں بھی نہیں بھیگ گئیں، سات آٹھ سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے؟ آصفہ بھی آٹھ سال کی معصوم بچی تھی، گڑیاں کھیلنے والی بچی۔ وہ کن حالات سے دو چار ہوئی ہوگی۔ کتنی اذیت اور کرب و بلا سے گذری ہوگی، تصور کے پردے پر وہ اذیت ناک اور کرب و بلا کی تصویریں اُتار کر محسوس کرنے کی کوشش کریں۔ وہ بھی کسی ماں کی چہیتی تھی۔ وہ بھی کسی بھائی کی لاڈلی تھی۔ وہ بھی کسی باپ کے جگر کا ٹکڑا تھی۔ آسمان شق کیوں نہ ہوا۔ زمین پھٹ کیوں نہ گئی۔ اے رب العالمین! درندگی کایہ نظارہ آپ سے کیسے دیکھا گیا ؟؟؟ کیا اپنے محبوب کے اُمتیوں کی غیروں سے یہی دُرد شاکر انے سے آپ کو امتحان مقصود ہے؟ بہر حال امتحان کتنے بھی سخت ہوں آپ کے بندوںکے ہر قدم گز نہ ڈگمگائیں گے ۔ انشا ء اللہ ؎
آگ ہے اولاد ابراہیمؔ ہے نمرود ہےؔ
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے
ایک بار ہندوستان کی ایک بیٹی بلکہ ہم سب کی بیٹی دامنیؔ ،کا بھی ایسا ہی حشر ہوا تھا، تو بلا تفریق مذہب ملت سب نے سڑکوں پر آکر اپنے گریباں چاک کئے اور مسلمانوں نے خاص طور پر احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ آج سارا ملک آصفہ پر تماشہ بین بن کر خامو ش کیوں ہے؟ حکومت کو تو خاموش رہنا ہی ہے کیونکہ شوپیان قصبے کی طرح یہ اُن ہی لوگوں کو یقینی طو ر پر کارستانی ہے جن کو حکومت ناراض نہیں کرنا چاہتی ہے، مگر آصفہؔ کیا آپ کی بیٹی نہیں تھی؟ کیا ہوا کہ وہ ایک مسلمان کے گھر میں پیدا ہوئی تھی مگر بیٹیاں تو سب کی سانجی ہوتی ہیں۔ آپ کو مگر اس حیوانی خون آشام واقعے سے کوئی رنجش نہیں ہوئی؟ کوئی تکلیف نہیں ہوئی؟ کوئی دکھ نہیں ہوا؟ مگر ہوتا بھی کیسے بچاری آصفہ ایک مسلمان کی بیٹی تھی نا؟ مسلمانوں کی بیٹیوں سے ایسا ہی سلوک اور مسلمانوں کو ذلیل کرنا، اُن میں دہشت پھیلانا اور چُن چُن کر قتل کرنا اب تو روز کا معمول اور متعصب جماعتوں کا من بھاتا کھیل بن چکا ہے۔
یہ بات کتنی تکلیف دہ ہے کہ چند بے شرم گمراہ لوگوں نے بلا ت کاری قاتل کیلئے جلوس نکال کر اُس کو رہا کرنے کی مانگ کی اور نہ صرف یہ کہ اُن کے ہاتھوں میں قومی پرچم تھے بلکہ بذات خود یہ پولیس او رقانون و انصاف کیلئے ایک چلینج تھا۔ بے شرمی کی حد ہوگئی اور قانون و انصاف کی خوب کھلی اُڑائی گئی ۔ کیا قومی پرچم کی اسی طرح سے اہانت کی جاتی ہے ؟ ہمارے لئے تو یہ ایک بالکل نئی بات ہے۔ البتہ سب کچھ تمہارا اپنا ہے۔ یقینا تمہارے تووارے نیارے ہیں ۔چھوٹ ہے جو چاہئے کرتے ہو، جب کہ ؎
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیںہوتا
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995