Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

رُوحِ تعلیم ۔۔۔ قسط 2

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: July 8, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
21 Min Read
SHARE
تاریخ کی یہ بے رُخی ستم ظریفی ہے ۔دوسرا اہم مدرسہ جس نے تاریخ میں اپنا نام پیدا کیا دولت ِسلجوقیہ کے مشہور ناظم مملکت موسیٰ کا قائم کردہ مدرسہ نظامیہ بغداد ہے جس نے تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ۔اس کے ساتھ ہی مدارس کی ایک رو چل پڑی اور اسلامی مد رسوں کا جال جابجا بچھ گیا۔ ان کی حیثیت آج کی اصطلاح میں یو نیور سٹی کی سی تھی۔ ان تمام مد ارس میں وہی اصول کار فرما تھے جو اسلام کے نظریہ ٔ  تعلیم سے مستفاد تھے ۔
یہ ایک تاریخی سانحہ ہے کہ پچھلے سو سال میںمغربی تمدن کے زیرِاثر ہماری تعلیم دو حصوں میںتقسیم ہوئی اور اس کی وجہ سے خود ہماری سوسائٹی دو طبقات میں بٹ گئی ۔ آج ہمارے ملک میں ایک نہیں دو نظامِ تعلیم جاری و ساری ہیں ،ہر ایک تعلیمی نظام اپنا اپنا دائرے میں اپناوظیفہ انجام دے رہا ہے۔ ایک طرف مذہبی تعلیم ہے جو نئے سماج کے مجموعی تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتی اور دوسری طرف دنیوی تعلیم ہے جو خالصتًاسیکولر ہو کر رہ گئی ہے اور جو مزاجاً دینی روح سے بالکل عاری ہے ۔یہ دو نظام مختلف قسم کے انسان پیدا کر رہے ہیں جن میں کوئی ربط و تعلق باقی نہیں رہا ہے ۔علم دین اور علم دُنیا کی حیثیت دو آنکھوں کی طرح ہے لیکن مروجہ نظریہ ٔ تعلیم میں دین ودنیا کی دوئی نے ہماری ان دونوں آنکھوں کو وحدتِ نظر سے محروم کر دیا ہے اورآج ہم اس شخص کے مانند ہیں جس کی وو آنکھیں بیک وقت دو مختلف سمتوں میں دیکھ رہی ہیںکہ وحدتِ نظارہ باقی نہیں ۔یہ حالت ایک منقسم شخصیت کو جنم دے رہی ہے۔
یورپ نے مسلمانوں کی ابتدائی برتری کے اسباب ومحرکات کا پتہ لگانا اُس وقت شروع کیا تھا جب وہ صلیبی جنگیں ہار چکا تھا، قران مجید کا لاطینی ترجمہ اس وقت کیا گیا جب مسلمان ترجمے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔اس ترجمے سے مارٹن لوتھر نے یورپ کے سیاسی اور روحانی استحصال کو چلینج کیا ۔آکسفورڈ میں عربی کی تدریس کا قیام اسی زمانے میں عمل میں لایا گیا تا کہ عیسائی ما ہر ین کی ایک جما عت تیار ہو سکے جو مسلمانوں کے دین، اُن کی تہذیب و ثقافت اور اُن کے علوم کا مطالعہ کے ۔ فی ا لاصل مسلمانوں کی برتری کے اسباب میںسب سے اہم سبب علوم و فنون میں ان کی برتری تھی ۔ وہ تہذیب ،ثقافت اور دوسرے چیزوں میں مغرب سے آگے تھے، ان کے تعلیمی اداروں،کتب خانوں،اسپتالوں،کارخانوں کی مغرب میں کوئی مثال نہ تھی۔ یورپ کے بڑے بڑے مفکروں نے قرطبہ کی یونیور سٹیوں میں تعلیم پائی ۔یورپ کے کونے کونے سے عیسائی طلبہ مسلم اداروں میں تعلیم پانے کی غرض سے آئے یہی فارغ التحصیل طلبہ آگے چل کر مغرب میں نشاہِ ثانیہ کے علمبردار بنے۔علوم و فنون کی گرم بازاری کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی دنیا صنعت وحرفت کی وسیع دنیا تھی ۔عالم اسلام کے مختلف شہر اورقصبے،صنعت و حرفت کے لئے مشہور تھے، دنیا کی بہترین مصنوعات مسلم دنیا میں تیار ہوئی تھی ،سمندری شاہراؤں پر مسلمانوں کی حکمرانی تھی ،یورپ کے ساحلی شہروں پر مسلمانوں نے تجارتی منڈیاں قائم کی تھیں ہنڈی اور چک کا سسٹم مسلمانوں ہی نے رائج کیا تھا۔سائنس کے میدان میں دنیا کی رہ نُمائی کا کام تقریباًایک ہزار سال تک مسلمانوں نے انجام دی الخوارزمی،التبانی،جابر ابن حیان،الکذی،الفارابی، البقیصی، البطروحی، الصوفی،الغزالی،الغزالی،الزر قالی،ابن رُشد،ابوبکر رازی،ابوالقاسم،ابن ِسینا،الر ہراوی وغیرہ نے  سائنسی میدان میں دُنیا کی رہبری کی ہے ۔قابل غور بات یہ ہے کہ ہزار سال تک سائنسی زبان عربی رہی اور سائنسی علوم کے لئے یہ زبان موزون ترین وسیلۂ اظہار بنی رہی۔ہزاروں تصنیفات کے لاطینی ،ہسپانوی،عبرانی ترجموں نے یورپی سائنسی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا ،عربی زبان کی تعلیم کے ہزاروں علماء اور سائنس داںدئے جب کہ موجودہ نظامِ تعلیم نے ایک بھی قابل ذکر سائنس دان پیدا نہیں کیا یا اُسے پیدانہ ہونے دیا گیا ۔عربی زبان جب ذریعہ ٔ تعلیم وتعلم تھی تو مسلمان دنیا کی رہبری کر رہے تھے۔
  برصغیر میں انگریزوں نے جب فارسی زبان کو منسوخ کر دیا تو دلیل یہ دی کہ فارسی عوام کی زبان نہیں بلکہ خواص کی زبان ہے، اس لئے فارسی کی جگہ اب دفتری زبان اُردو ہو گی جو عوام کی زبان ہے بعد میںیہ کہہ کر انگریزی کے لئے راہ ہموار کی گئی فارسی ،سنسکرت اور دیسی زبانوں میں تعلیم پانے والے طلبہ کی زندگی برباد ہو جاتی ہے، اس لئے سکولوں اور کالجوں میں تعلیم انگریزی میں دی جائے ۔ انگریزی کی اس سازش نے برصغیر میں مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو زبر دست نقصان پہنچا دیا جس کا پورا ہونا اب قریب قریب ناممکن بناہے۔ایران میں بھی مغرب کے فتنہ پردازوں نے یہی سازش تیار کی، یہاں کے حکمرانوں کو پٹی پڑھائی گئی کہ ایران ہزاروں برسوں سے تہذیب و ثقافت کا گہوارہ رہا ہے اور اسلام ان کی طویل قومی تاریخ کا ایک مرحلہ ہے۔ چناںچہ یہاںپہلوی بادشاہت کے زمانہ میں ارباب ِ اختیار کی اپنی تمام تر کوشش قبل ا ز اسلام تہذیب کے احیاء کے لئے وقف ہوئیں ۔ ایرانی رُستم پر فخر کرنے لگے ،اپنے آپ کو آریاؤں کی نسل قرار دیا اور برملا علان کر دیا کہ ایران تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے اسلام سے نہیں یورپ سے وابستہ ہے۔ مغربی استعمار نے پوری کوشش کی کہ ایران کا اقتداراعلیٰ ہمیشہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں رہے جو مغربی اور امریکی مفادات کا محافظ ہو۔
چناںچہ یہاںپہلوی بادشاہت کے زمانہ میں ارباب ِ اختیار کی اپنی تمام تر کوشش قبل ا ز اسلام تہذیب کے احیاء کے لئے وقف ہوئیں ۔ایرانی رُستم پر فخر کرنے لگے ،اپنے آپ کو آریاؤں کی نسل قرار دیا اور برملا علان کر دیا کہ ایران تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے اسلام سے نہیں یورپ سے وابستہ ہے۔ مغربی استعمار نے پوری کوشش کی کہ ایران کا اقتداراعلیٰ ہمیشہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں رہے جو مغربی اور امریکی مفادات کا محافظ ہو۔رضا شاہ پہلوی کے دور میں ایران میں ظاہری شان و شوکت تو بہت نظر آتی تھی مگر مغربی نظامِ تعلیم رائج ہونے کے باوجود ایک بھی مسلمہ اور عالمی شہرت یافتہ سائنس دان پیدا نہیں کیا ۔ بہر حال مروجہ تعلیم کو علامہ اقبالؒ نے بلا وجہ دین و مروت کے خلاف ایک سازش قرار نہیں دیا ہے جو اہل مشرق کا یسانے بڑی مہارت سے نیا کیا تھا۔جدید تعلیم کے مسلمانوں کو اپنی دینی ،علمی ،تہذیبی ورثہ سے مایوس اور بیگانہ کر دیا ہے ۔نصاب میں اگر کہیں دینی کتابوں کاکوئی قصّہ پڑھایا جاتا ہے، ا س سے کردار کی اصلاح مقصود نہیں ہوتی بلکہ اس کی اہمیت زبان و بیان کے لحاظ سے اُجاگر کی جاتی ہے۔ جدید تعلیم میں سب سے زیادہ زور یورپ کی تہذیب و ثقافت سکھانے پر دیا جاتا ہے۔ مشرق کے عظیم انسانوں کے لئے اس میں کوئی مقام نہیں ہوتا، مشرق کے سلاطین اور حکمرانوں کا جہاںذکر کیا جاتا ہے وہاں صرف اُن کی کمزوریوں اور نقائص کی طرف ہی اشارے ہوتے ہیں تاکہ طلبہ ومحققین میں اُن کی شخصیت  اور ساکھ واعتبارمجروح ہو۔ مغرب نے جدید سیکولر تعلیم کے سہارے مسلمانوں میں اسلاف اور ان کی انمول خدمات کے فہم وادراک سے دوری پیدا کی ہے ۔ حق یہ ہے کہ جدید تعلیم مسلمانوں کے لئے مقتل ثابت ہورہی ہے ۔ اس بے خدا نظامِ تعلیم سے مسلمانوں میں نہ کوئی سائنس دان پیدا ہوا نہ اعلیٰ پائے کا مُفکر بلکہ مغرب کے اشاروں پر ناچنے والے’’ لبرل اور آزاد خیالوں‘‘ کا ہجوم ۔سائنس ، ادب اور فکر جلیل کے میدان میں چند ایک مستثنات کو چھوڑ کر ملت کا دامن بالعموم خالی پڑا ہے ۔ قوم کے دل و دماغ پر جو لوگ چھائے ہوئے ہیں اُن میں علامہ اقبال ؒ کو چھوڑ کر جو اُس مقتل اور خرابات سے زندہ بچ کر نکلے ہیں، باقی تمام مصلحین کا دامن جدید تعلیم سے پاک ہے۔ مصر میں امامِ حسن البنا شہید اور اُن کے بیشتر رفقاء اسلامی تعلیمات کی پیداوار ہیں، برصغیر میں سرسید احمد خانؒ،مولانا شبلی نعمانی ؒ،مولانا الطاف حسین حالیؒ ،مولانا محمد حُسین آزادؒ،سید سلیمان ندویؒ سب کے سب قدیم طرز تعلیم کے ثمرات ہیں۔یہی حال مولانا ابوالکلام آزادؒ کا ہے۔ ان کی زیادہ تر تربیت گھر کے درخشندہ علمی ماحول میں ہوئی تھی۔ برصغیر میں نامور مفکر مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی کا تعلق بھی جدید طبقے سے نہیں ہے ۔ الغرض جدید تعلیم نے اگر مسلمانوں کو کچھ دیا ہے تو وہ درجہ چہارم کے سیاستداں ہیں جنہوں نے آمرانہ طرزِ عمل اور مکرو فریب سے محض اپنی کرسی کے فراق میںملت اسلامیہ کا وقار مجروح کیا، مسلمانوں کے وسائل مغرب اور ان کے مشرقی چیلوں کو اونے پونے داموں فروخت کئے اور اقتدار کی ہوس میں امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کی نگرانی کر کے اپنا دین و ایمان بیچ ڈالا۔ 
  موجودہ نظامِ تعلیم مسلمانوں کے لئے بہت بڑی مصیبت ثابت ہوا، جب تک مسلمانوں کے پاس دین ودنیا کے توازن پر قائم وہ پسندیدہ تعلیمی نظام عملاًموجود نہ ہو جو خیرالقرون سے لے کر آج تک ملت کے درمند، بہی خواہ اور مخلص علماء اور ماہرین نے قرآن و سنت کی روشنی میںتیار کیا ، ملت اسلامیہ میں اسلامی انقلاب یا اسلامہ نشاۃ الثانیہ رونما نہیں ہو سکتا ۔تاریخ کا یہ لاگ فیصلہ اور فتویٰ  ہے ۔ ہمیں یہ حقیقت  ازبر ہونی چاہیے کہ مشرق سے مغرب تک جو بھی سیکولرنظام ہائے تعلیم رائج ہیں ،انہوں نے تعلیم کو مقصدیت کو ہی  پامال وفوت کر دیا ہے ۔ آج تعلیم حاصل کرنے کا مقصد صرف یہ بتایا جارہا ہے کہ انسان مادی ترقی کر کے زندگی کی تمام تر سہولیات سے لطف اندوز ہو جائے ۔ موجودہ مادیت پسندانہ تعلیمی سسٹم اسی حیوانی مقصد کو اقوام وملل پر ٹھونسنے اور مادی مقاصدکی پوجا کروانے میں ضرور کامیاب نظر آتا ہے۔اشرف المخلوقات کہلانے والے انسان کو  مادی زندگی کے ہر شعبے میں کامیابیوں پہ کامیا بیاں حاصل ہو رہی ہیں اور مادی ترقی کے منازل طے کرتے کرتے وہ عیش و عشرت کا ہر سامان اپنے لئے فراہم کرنے کی دوڑ کے سوا وہ کسی اخلاقی برتری کے تصور سے خالی اور تہی دامن ہے۔اس کے پاس سہولیات  اورس امنا ِ تعیش کی فراوانی ہے مگرا س کے باوجوداس کی ہل من مزید کی تلاش و جستجو جاری ہے۔ یہی و جہ ہے کہ سکون و اطمینا ن تو جیسے آدم کی آولاد کے قلب وذہن سے کھرچ لیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مادی عیاشیاں حاصل ہو جانے کے بعد بھی آخر انسان کو کون سی چیز جرائم قتل و غارت گری لوٹ مار جیسے گھناؤنے جرائم پر مائل یا مجبورکر رہی ہے؟ یہ آئے روز ملکوں اور قوموں کے درمیان تنازعے، جنگ وجدل ،فرقوں کے درمیان کشیدگی،گھریلو تشدد، خاندانی انتشار،عصمتوںپہ ڈاکے، کرپشن، دھوکہ دہی،لوٹ کھسوٹ اورحیوانیت ودرندگی سے بھرے واقعات کیوں وقوع پذیر ہو رہے ہیں؟اگر مادی ترقی ہی سب کچھ ہوتی،اگر سائنسی ایجادات و انکشافات ہی درد کا درماں ہوتے تو پھر آج دُنیا امن کا گہوارہ ہونی چاہیے تھی،یہاں نہ ہی جرائم ہو نے چاہیے تھے ، نہ ہی پولیس کے ڈنڈے اور فوج کی گولی کی ضرورت پڑنی چاہیے تھی لیکن یہ سارا کچھ خیال وجنون اور ایک مفروضہ بناہوا ہے کیونکہ اصلاًمغربی نظریہ ٔ تعلیم ہر اعتبار سے انسان کو دھوکے میں رکھ رہاہے ۔جس ترقی اور جن مشاہدات و ایجادات کا وہ ڈھنڈا پیٹ رہاہے ،ان کے اندر جھانکئے تو وہ ڈھکوسلہ نظر آئے گا ۔ ہاں اس طرزِ تعلیم نے انسانی سماج پر صرف بگاڑ کا راستہ کھول دیا ہے۔غیر فطری اصول اور ضابطوں سے نت نئے مسائل کو جنم دینے والے اس سسٹم نے انسانیت کو پستی اور ذلت کا شکارکرنے مینںکوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ہم جنس پرستی ،سود،ماں کی کوکھ تک کو کرایہ پر جائز ٹھہرانے کو جدیدیت کا نام دیا گیا ہے۔ یہ دنیا میں رائج اسی بے خدا تعلیمی نظام کا ہی کمال ہے کہ پڑھے لکھے جدید جاہل دماغ ان غیر فطری ضابطوں سے نہ صرف اتفاق کرتے ہیںبلکہ ان پر عمل پیرا ہونے کوماڈرن ازم کا نام دیتے ہیں ۔اس میں دو رائے نہیں کہ موجودہ تعلیمی نظام ہر اعتبار سے فرسودہ اور نا مکمل ہے۔
دنیا میں سب سے پہلے علمی انقلاب اسلام نے علم صحیح اوع عمل صالح کی اساس پر برپا کیا لیکن اسلام نے جو علمی نظام متعارف کرایا، اس سے کسی بھی صورت میں متعلم کے وقت اور صلاحیت کا ضیا ع نہیں ہوتا تھا۔ مغربی تعلیمی نظام کے چلتے زندگی کے قیمتی ۲۵ سے ۳۰ برس پڑھائی لکھائی میں صرف ہو جاتے ہیں کیونکہ اس نظام کو اس طرح سے وضع کیا گیا کہ ان برسوں میں چاہتے ہوئے بھی کوئی اور کام نہیں کیا جا سکتا حالا نکہ انسان کی مختصر زندگی میں ۳۰ یا ۴۰ سال عمر کی حد ہی بڑے بڑے کار نامے انجام دئے جا نے کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔ تا ریخ اسلام واقعات سے بھری ہوئی ہے جہاں ۱۵ سے ۳۰ سال کی عمر کے دوران مسلم جوانوں نے بڑے بڑے معرکے سر کئے ۔دوسرے شعبوں میں بھی یہی عمر کار ہائے نمایاں انجام دینے کے لئے بہترین وموزوں ہوتی ہے لیکن ہمارے تعلیمی نظام میں یہ عمر ایسے ضائع ہو جاتی ہے کہ انسان کرم ِ کتابی بننے کے سوا اس دوران کچھ کر نہیں پاتا۔قرون اولیٰ کے مسلمان بھی علوم و فنون میں مہارت حاصل کرتے تھے ،انہوں نے بھی بڑے بڑے علمی کارنامے انجام دئے ہیں لیکن ان کی پڑھائی لکھائی اور تحقیق کے ساتھ ساتھ میدان جنگ اور کار گاہ ِ حیات بھی ہم قدم ہوتی تھی ۔ان کی پڑھائی سے خاندانی ذمہ داریاں متاثر نہیں ہوتی تھیں،وہ بھی نئی نئی ایجادات سے عالم انسانیت کو فائدہ پہنچاتے لیکن وہ خالص کتابی دنیا میں اپنی عمر ضائع نہیں کرتے تھے بلکہ علمی دُنیا میں آکر علوم کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھ لیتے تھے۔ آج نصف سے زیادہ عمر کتابوں کی ورق گردانی میں گزر جاتی ہے، آ ج کے ۹۰ فیصد علوم ایسے ہیں جن کا علمی دُنیا میں انسان کو ذرہ برابر فائدہ بھی نہیں ہوتا ہے ۔اب وقت کی سخت ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو عالمی سطح پر تعلیم کو اسلامائزکرنے کے لئے ہنگامی سطح پر قلیل مدتی اور طویل مدتی اقدامات کی ضرورت ہے ۔اسلام کا دیا ہوا تعلیمی نظام کا مطلوب صرف یہ نہیں کہ انسان کی مادی ترقی ہو جائے  بلکہ یہ فرد سے لے کر قوم تک ملک سے لے کر بین الاقوامی برادری تک کی مادی ترقی اور اخلاقی ا رتقاء تک علوم ومعارف کے و ساطت  سے انسانوں کو ہر شعبہ ٔ حیات خوب سے خوب تر بناتا ہے ۔ اسلام تعلیم کی اہمیت خالص انسانیت کی بھلائی و بہبود اورملت کی سر فرازی و سربلندی کے دائر ے میںواضح کر تا ہے ۔مسلمان تعلیم وتدریس کی چوٹیاں سر کریںتاکہ وہ خدا کی زمین پر خدا کے دین کو قائم کریں اور دنیا کا حسنہ اور آخرت کا حسنہ سمیٹیں۔ بہر کیف مسلمان اسلام کی متابعت کر کے اپنے آپ کو سر تاپا بہرہ مند کریں تاکہ وہ دنیا کے تمام چلنجوں کا مقابلہ کر سکیں، مسلمان تحقیق و تصنیف کا کام کریں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ کائنات کے راز واسرار کھول کر عالم انسانیت کو ایمان کی تازگی سے روشناس کریں ۔ جب تعلیم و تعلم کا یہ مقصد ہو تو پھر مسلمان کا اِک اِک لمحہ عبادت بن جاتا ہے ۔علوم حاصل کرنے کے دوران اس کی حیثیت مجاہد فی السبیل اللہ کی سی ہو جاتی ہے، پھر چاہے وہ حفظ قرآن کے لئے گھر سے نکلا ہویا پھر انسانیت کی خدمت کے لئے کیمسٹری،فزیکس ، طب اور فنون میں ڈگری پانے کے لئے اس نے رخت ِسفر باندھا ہو۔ اگر نیت میںیہ جذبہ نہ ہو بلکہ عصری اصطلاح میں کیرئیر بنانے کی ہوس یاڈگری حاصل کر کے صرف نوکری پانے پر نظر ہو ،اچھی مادی زندگی کی تعلیم کا مقصد بنا لیا ہو،دولت مند گھرانے کا رشتہ پیش نظر ہو یا کسی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کرنا ہی اپنی تعلیم کا مقصد بنا لیا ہو تو پھر ایسے نظریہ ٔ تعلیم سے سو بار الحذر ۔اسلام تعلیم وتدیس کے بل بوتے پر کارآمد افراد اور مردان ِکار کو تیار کرنا چاہتا ہے اور ایسی شخصیت کو پروان چڑھانا چاہتا ہے جواسلام کے سکھائے خیر کی عامل اور شر سے مجتنب ہو ۔ ایک بارتعلیم وتربیت کا نظام اس منہج پر استوار ہوا تو پھر اسلامی سوسائٹی ہی تیار نہ ہوگی بلکہ دنیا جنت کا نمونہ بنے گی۔ ( ختم شد)

 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

لورن میں آسمانی بجلی گرنے سے 10بھیڑیں ہلاک
پیر پنچال
بغیر اجازت انشورنس کٹوتی و صارفین کیساتھ مبینہ غیر اخلاقی رویہ بدھل میں جموں و کشمیر بینک برانچ ہیڈ کے خلاف لوگوں کاشدیداحتجاج
پیر پنچال
انڈر 17کھیل مقابلوں میں شاندار کارکردگی | ہائرسیکنڈری اسکول منڈی نے کامیاب کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی
پیر پنچال
نوشہرہ سب ڈویژن میں پانی کی شدید قلت،لوگ محکمہ کیخلاف سراپا احتجاج شیر مکڑی کے لوگوں نے ایگزیکٹیو انجینئر کے سامنے شکایت درج کروائی
پیر پنچال

Related

کالممضامین

سیدالسّادات حضرت میرسید علی ہمدانی ؒ ولی اللہ

June 2, 2025
کالممضامین

شاہ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ کا عرسِ مبارک | الہامی نگرانی اور احتساب کی ایک روحانی یاد دہانی عرس امیر کبیرؒ

June 2, 2025
کالممضامین

شام میں ایک نئی صبح ندائے حق

June 1, 2025
کالممضامین

تمباکو نوشی مضرِ صحت ،آگہی کے ساتھ قانونی کاروائی کی ضرورت سالانہ ایک کروڑافراد لقمۂ اجل اوربے شمار مہلک بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں

June 1, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?