صدائے کمراز
اِکز اقبال
ہمارے تعلیمی اداروں میں سب کچھ سکھایا جاتا ہےسوائے سیکھنے کے!یہاں بچوں کو سمجھانے سے پہلے چپ کروایا جاتا ہے اور سوال کرنے سے پہلے’’سائل‘‘ کا رویہ دیکھا جاتا ہے۔ کیونکہ سسٹم کو سوال نہیں، صرف حاضری، مارکس اور رپورٹ کارڈ چاہیے۔نصاب کے خانوں میں بند بچے، رَٹے کی زنجیروں میں جکڑے اُستاد اور ایک ایسا تعلیمی ماحول جہاں سوال کرنا جرم سمجھا جاتا ہے، وہاں علم کہاں پنپے گا؟ہم ایک ایسے تعلیمی ماحول میں جی رہے ہیں جہاں ’’خاموشی‘‘ کو تمیز کی علامت سمجھا جاتا ہے، ’’حفظ‘‘ کو ذہانت کا پیمانہ مانا جاتا ہے اور سوال کرنے والے بچوں کو اکثر ’’بدتمیز‘‘یا ’’شور مچانے والا‘‘ سمجھ کرچُپ کرا دیا جاتا ہے۔ ہم جواب تو رَٹوا دیتے ہیں، لیکن سوال اٹھانے کا حوصلہ چھین لیتے ہیں۔
ہمارے اسکول سائلنٹ زون بن چکے ہیں، جہاں جتنا کم بچہ بولے، اتنا اچھا شاگرد سمجھا جاتا ہے۔کمرے میں جتنی زیادہ ’’خاموشی‘‘ اتنا ہی ’’ڈسپلنڈ ماحول‘‘ کہا جاتا ہے۔
لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ وہ خاموشی سیکھنے کی ہے یا ڈر کی؟
جب ہم بچوں کو سوال کرنے سے روکتے ہیں تو ہم دراصل ان کے اندر کے سائنسدان، مفکر، شاعر، اور محقق کو قتل کرتے ہیں۔ایسے نظام میں تو روبوٹس تیار ہوں گے، انسان نہیں۔لیکن ذرا رُکیے، سوال کرنا بےادبی ہے؟ یا علم کی پہلی سیڑھی؟سوال کرنا محض الفاظ جوڑنے کا عمل نہیں بلکہ شعور کی بیداری کی علامت ہے۔ جب بچہ سوال کرتا ہے تو وہ دراصل یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ وہ سیکھنے کے عمل میں شریک ہونا چاہتا ہے۔ وہ کٹھ پتلی نہیں بننا چاہتا، وہ ایک زندہ، باشعور انسان بننا چاہتا ہے۔
کیوں؟‘‘، ’’کیسے؟‘‘، ’’کیا؟‘‘ — یہ وہ الفاظ ہیں جن سے انسان نے آگ دریافت کی، چاند پر قدم رکھا اور کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھایا۔ لیکن جب ہم اپنے بچوں کے لبوں سے یہ الفاظ چھین لیتے ہیں تو گویا ہم ان کے شعور پر پہرہ بٹھا دیتے ہیں۔اکثر تربیتی نشستوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ کامیاب استاد وہ ہے جو ’’کلاس پر کنٹرول رکھتا ہو‘‘، لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ وہ کلاس جہاں کوئی بچہ بول نہ سکے، سوال نہ کر سکے، وہاں سیکھنے کا عمل کیسا ہوگا؟ ایسی خاموشی، قبروں کی خاموشی جیسی ہے، جہاں صرف سکوت ہے، کوئی حرکت نہیں، کوئی زندگی نہیں۔
اصل کامیابی وہ کلاس ہے جو شور سے گونج رہی ہو، لیکن یہ شور علم کا ہو، سوالوں کا ہو، تجسس کا ہو۔ جہاں ایک بچہ کھڑا ہو کر پوچھے کہ ’’استاد جی! اگر روشنی ہمیشہ سیدھی چلتی ہے تو ہم زاویہ کیسے بنا سکتے ہیں؟‘‘ اور اُستاد اسے خاموش کرانے کے بجائے، اس کے سوال کو سراہتے ہوئے پوری کلاس کو اس بحث میں شریک کرے۔آج کے بچے وہ نہیں جو کل تھے۔ وہ یوٹیوب دیکھتے ہیں، چیٹ جی پی ٹی اور گوگل سے پوچھتے ہیں اور اکثر ہمارے روایتی جوابات سے مطمئن نہیں ہوتے، اور ہونا بھی نہیں چاہیے! اگر ہم انہیں صرف امتحان کے پرچوں کے لیے تیار کریں گے، تو وہ زندگی کے پرچے میں فیل ہو جائیں گے۔اساتذہ کا اصل کردار یہ نہیں کہ وہ بورڈ پر معلومات لکھیں اور بچے نوٹ کریں بلکہ یہ ہے کہ وہ بچوں کو سوالوں کے جنگل میں لے جا کر کہیں،’’جاؤ، خود راستہ تلاش کرو۔‘‘ کیونکہ علم وہ نہیں جو دیا جائے، علم وہ ہے جو تلاش کیا جائے۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ سوال کرنے والوں سے صرف تعلیمی ادارے ہی نہیں، بلکہ پورا معاشرہ خائف ہے۔ جب بچہ پوچھتا ہے کہ ’’غریبوں کے لیے الگ اسکول کیوں ہوتے ہیں؟‘‘ تو ہم اسے چپ کروا دیتے ہیں۔ جب کوئی لڑکی سوال کرتی ہے کہ ’’مجھے ڈاکٹر کیوں نہیں بننے دیا گیا؟‘‘ تو ہم اسے بدتمیزی کا نام دے دیتے ہیں۔
یہی معاشرہ پھر کہتا ہے،’’ہمیں باشعور نسل چاہیے!‘‘ ارے حضور! شعور تو سوالوں کے بیج سے اُگتا ہے اور آپ تو بیج ہی روند دیتے ہیں۔
سوال صرف علم کے دروازے نہیں کھولتے، یہ انسان کو خود اپنی تلاش میں بھی لے جاتے ہیں۔ وہ بچہ جو ’’کیوں‘‘ سے آغاز کرتا ہے، وہی ’’میں کون ہوں؟‘‘ تک پہنچتا ہے اور یہی سوال انسان کو بڑا بناتے ہیں۔آئن اسٹائن نے کہا تھا: ’’میں کوئی خاص ذہین انسان نہیں، بس ایک پُرجوش سوال کرنے والا ہوں۔‘‘ یہی وہ راز ہے جو ہم اپنے بچوں کو بُھلا چکے ہیں۔
حل کیا ہے؟
۱۔ اساتذہ کی تربیت نو: ہمیں اساتذہ کو صرف مضمون پڑھانے کی نہیں، بلکہ ’’سوچنے پر مجبور کرنے‘‘ کی تربیت دینی ہوگی۔
۲۔ امتحان میں سوالات کی اہمیت: نصاب میں ایسے سوالات شامل کیے جائیں جو رٹنے سے نہ بلکہ سوچنے سے حل ہوں۔
۳۔ گھروں میں ماحول: والدین بھی بچوں کے سوالات کو غیر اہم یا گستاخی سمجھنے کے بجائے، ان پر گفتگو کریں، چاہے جواب معلوم نہ ہو۔
سوال کرنا بغاوت نہیں، بیداری ہے۔ سوال کرنا گستاخی نہیں، شعور کی پہلی کرن ہے اور اُستاد وہ نہیں جو ہر سوال کا جواب دے بلکہ وہ ہے جو ہر سوال کو ایک نئی تلاش کا آغاز بنائے۔لہٰذا، آئیں! اپنے تعلیمی نظام کو اتنا محفوظ بنائیں کہ وہاں بچے بلا جھجک سوال کر سکیں اور اساتذہ بلا خوف جواب نہ دینے کا اعتراف کر سکیں،کیونکہ اصل تعلیم وہی ہے جو ایک سوال کے ساتھ شروع ہو اور ہزار سوالوں کے ساتھ جاری رہے۔
آخری بات: ہم ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جو جوابات تو AI سے لے آتی ہے، لیکن سوال کرنا بھول چکی ہے۔ وہ حیرت جس سے علم پیدا ہوتا ہے، وہ تجسس جس سے ذہن پگھلتے ہیں،سب کچھ سسٹم کے سیلیبس میں مارا جا چکا ہے۔بچے جب سوال کرتے ہیں تو دراصل وہ کائنات سے جُڑنے کی پہلی کوشش کرتے ہیں۔ اُن کی آنکھوں میں جو ’’کیوں‘‘ چمکتا ہے، وہی مستقبل کا چراغ بن سکتا ہے۔بس اُسے بجھنے نہ دیں۔
استاد کی اصل عظمت جواب دینے میں نہیں، سوال جگانے میں ہے۔اگر ہم نے اپنے بچوں کو سوال کرنے کا حوصلہ دے دیا، تو سمجھو ہم نے انہیں صرف علم نہیں زندگی عطا کر دی ہے۔یاد رکھیں! جو نسل سوال کرنا چھوڑ دے، وہ وقت کے پنوں میں گم ہو جاتی ہے اور جو سوال کرنا سیکھ لے، وہ تاریخ لکھنے لگتی ہے۔کیونکہ بچے کو سوال کرنا سکھا دیا، تو سمجھو ساری دنیا اس کی کتاب بن گئی۔
(مضمون نگار مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورا قاضی آباد میں پرنسپل ہیں)
رابطہ۔ 7006857283
[email protected]>